... loading ...
یہ ایک عالمگیر حقیقت ہے کہ انسان جسے پسند کرتا ہے اس کی ایسی خوبیاں تلاش کر لیتا ہے جو شاید وجود ہی نہیں رکھتیں اور اس کی خامیوں کی ایسی توجیہات ڈھونڈ لیتا ہے جن کی بنیاد عقل پر نہیں بلکہ جذبات پر رکھی ہوتی ہے۔
یہی صورتحال وہاں دیکھنے کو ملتی ہے جہاں ہم کسی کو ناپسند کرتے ہیں۔ اپنی عصبیتوں کی عینک آنکھوں پر چڑھائے، جذبات کی طوفانی رو میں اس شخصیت کی خوبیوں کو بھی مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسی خامیاں نکال کر لاتے ہیں جو اس فرد میں موجود ہی نہیں ہوتیں۔
اسی مجہول طرز فکر کو سنوارنے کے لیے منطق کا علم وجود میں آیا تاکہ سوچ کے عمل کو جذبات کے بھنور سے نکال کر معروضی اندازفکر کو رواج دیا جائے۔ مگر یہ علم بھی فقط ایک محدود طبقے تک ہی پہنچ پایا ہے۔ عام آدمی کی سوچ اب بھی اس کے جذبات کے تابع ہے، وہ جذبات جنہیں آج کے دور کا سب سے معروف تاریخ دان یووال ہیراری انسانی شخصیت کا سافٹ وئیر قرار دیتا ہے۔
ذاتی تعصبات اور پسند و ناپسند کے زیراثر پروان چڑھنے والی فکر کے سب سے زیادہ مظاہر سوشل میڈیا پر دیکھے جا سکتے ہیں جہاں کسی کی رائے کے جواب میں دو مختلف قسم کی انتہائی دیکھنے کو ملتی ہیں۔
ہمارا لبرل اور سیکولر طبقہ جب مغربی ممالک کی اسٹیبلشمنٹ کی مثالیں دے کر اپنے ہی اداروں کو رگیدنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اس معاشرے کی سیاسی اخلاقیات سے نظریں چرا لیتا ہے۔ کسی بھی مہذب ملک میں اگر ایک سیاست دان پانامہ لیکس اور ٹی ٹی اسکینڈل جیسے بدنما الزامات کی زد میں آ جائے تو اس کی تمام عمر جدوجہد زیرو ہو جاتی ہے اور سیاسی میدان سے اسے دیس نکالا مل جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ سیاست نہ صرف جاری رہتی ہے بلکہ ووٹ کو عزت دو جیسے روشن نعرے کے پیچھے کرپشن کے بدنما داغوں کو چھپا دیا جاتا ہے۔ لیکن سیکولر طبقے کو مغرب کی سیاسی اخلاقیات کی روشن مثالیں نظر نہیں آتیں۔
یہ بھی ذاتی پسند و ناپسند کا ہی معاملہ ہے جس میں تاریخ اور سماجیات کو غتربود کر کے مرضی کے واقعات برآمد کیے جاتے ہیں اور ان کے ذریعے اپنی دلیل کو مضبوط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
سوشل میڈیا کسی بھی معاشرے کا سب سے بڑا آئینہ بن کر سامنے آیا ہے۔ روایتی میڈیا میں ایڈیٹر کا ادارہ اور ادارے کی پالیسی سمیت بہت سے عوامل کی وجہ سے سماج کی عکاسی محدودتر ہو جاتی ہے۔ سماجی میڈیا ان قیود سے آزاد ہے اور یہ عفریت آدم بو کی صدائیں نکالتا جب مختلف پلیٹ فارمز پر نمودار ہوتا ہے تو گالیوں کے نیزوں اور طعنوں کے نشتر تک محدود نہیں رہتا بلکہ سیدھا نیتوں پر حملہ آور ہو جاتا ہے۔
یہ صورتحال صرف سیاست کے موضوع تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ ہر شعبے میں پھیلا ہوا ہے۔ کی بورڈ کے جدید ہتھیاروں سے لیس جب سوشل میڈیا مجاہدین انٹرنیٹ کے گھوڑے پر سوار جتھوں کی صورت میں نکلتے ہیں تو فتح و شکست سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ صرف گردن زنی کی نیت سے آتے ہیں اور میدان کارزار میں کشتوں کے پشتے لگا دیتے ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ یہ سب کچھ عملی زندگی میں نہیں بلکہ ورچوئل ورلڈ میں وقوع پذیر ہوتا ہے جس کی وجہ سے خون بہنے کی نوبت نہیں آتی۔
سوشل میڈیا کو وجود میں آئے اتنا عرصہ ہو چکا ہے کہ اب اس کے بہت پہلو انسان کی فطرت ثانیہ بنتے جا رہے ہیں۔ گروہی نفسیات جس طرح معاشرے پر غالب ہے، اسی طرح سوشل میڈیا پر بھی عریاں ناچ رہی ہے۔ اپنے گروہ کو ہر صورت حق پر ثابت کرنا اور مخالف کو جہنم کی وعید سنانا ایک معمول بن چکا ہے۔ اصولی طور پر گروہ کی صورت میں سوچنا قدرت کی اس نعمت کی توہین ہے جسے ہم عقل کہتے ہیں مگر یہ توہین سماجی میڈیا کے صفحات پر بکھری پڑی ہے۔
سیکولر اور دائیں بازو کے درمیان جاری مستقل کشاکش اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ یہ دونوں طبقے ایک دوسرے سے لڑنے کے اسقدر عادی ہو چکے ہیں کہ اگر کوئی بہانہ نہ ملے تو بیچین ہو جاتے ہیں اور ایسا نکتہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جسے لے کر وہ اپنے تیر و تفنگ ایک دوسرے پر تان سکیں۔
جب نیت ہی جھگڑے کی ہو تو بہانہ تلاش کرنا کون سا مشکل کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں کے بیچ زوروں کا رن پڑا رہتا ہے اور معمولی سی باتوں پر اسقدر شوروغوغا برپا ہوتا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔
ابتدا میں سوشل میڈیا کو عوام کی آواز قرار دیا جاتا تھا مگر اب بہت سی ریاستیں اس کی حدت محسوس کر رہی ہیں۔ یہ میڈیم انتشار کی قوت بنتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے ممالک اس دیو کو ریگولیشنز کی زنجیروں میں جکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر سوشل میڈیا کمپنیز ریاستوں سے بھی طاقتور ہو گئیں تو ورچوئل کالونائزیشن کا نیا دور شروع ہو گا۔ لیکن اس موضوع پر کسی اور نشست میں بات کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔