وجود

... loading ...

وجود

افغانستان میں امریکا کا چھوڑا ہوا ورثہ

منگل 13 جولائی 2021 افغانستان میں امریکا کا چھوڑا ہوا ورثہ

(مہمان کالم)

تھامس گبنز نیف

افغانستان میں بگرام ایئر بیس تقریباً 20 سال تک امریکی جنگ کا مورچہ رہی ہے، اس کے جڑواں رن وے سے اڑنے والے جنگی جہاز طالبان پر بمباری کرتے تھے، امریکی فوجی اور زخمی بھی یہیں سے اڑ کر امریکا پہنچتے تھے مگر سالہا سال کی تیاریوں کے باوجود امریکی فوج وہاں سے کسی جوش و خروش کے بغیر خاموشی سے روانہ ہو گئی۔ بظاہر افغان حکومت بھی اس امر سے بے خبر تھی کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے۔ کئی ہفتوں سے طالبان کے حملے جاری ہیں جن میں افغان سکیورٹی فورسز کے لوگ مارے گئے ہیں اور سینکڑوں فوجی ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ ملک بھر کے جنگجو سردار اور نئے ملیشیا کمانڈرز اپنے ہم وطنوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ ملک بچانے کے لیے ان کے ساتھ شامل ہو جائیں۔ سرکاری فوج، طالبان جنگجو، وار لارڈز اور شہری ملیشیا کی ممکنہ محاذ آرائی شدید تشدد اور غارت گری کی نشاندہی کر رہی ہے۔ صدر جو بائیڈن کے بقول امریکی فوج اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ ختم کرنے کے لیے 31 اگست تک افغانستان کو مکمل طور پر خالی کر دے گی۔ بگرام کے نئے مکین افغان فوجی ہوں گے جنہیں امریکا کی شروع کردہ جنگ ورثے میں ملے گی۔ اس کے علاوہ انہیں فوجی ہتھیار، گاڑیاں اور اسلحہ بھی ملے گا جس سے افغانستان کا مستقبل غیر یقینی صورتِ حال کا شکار ہو جائے گا مگر اس میں سے اتنا امریکی اسلحہ چوری ہو کر طالبان کے ہاتھ لگ چکا ہے یا انہوں نے اس پر قبضہ کر لیا ہے کہ اگر وہ یہ کہیں کہ ان کے پاس روسی کلاشنکوف سے زیادہ امریکی M16 ہیں تو ان کی بات کو جھٹلانا آسان نہیں ہوگا حتیٰ کہ افغانستان کی جنگ کی نگرانی کرنے والے امریکی انسپکٹر جنرل بھی یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ گزشتہ بیس سال کے دوران افغان فورسز کو مضبوط کرنے کے لیے امریکا نے کتنا اسلحہ وہاں بھیجا ہے۔ امریکا جو کچھ پیچھے چھوڑ کر گیا ہے اس سے کئی دہائیوں کے نقصان کا اندازہ ہو رہا ہے کہ افغان سویلین سمیت دونوں طرف کتنا جانی نقصان ہوا ہے اور کتنے لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ امریکی جرنیلوںکی بار بار ناکام ہونے والی سٹریٹیجی بھی اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہے‘ جو کہتے تھے کہ ہر چیز شیڈول کے مطابق اور بہترین انداز میں ہو رہی ہے۔
حشمت اللہ گل زادہ‘ جو امریکی فوج کے ساتھ بطور ٹرک ڈرائیور کام کرتا رہا ہے‘ بگرام ایئر بیس پر ایک سال پہلے کھولی گئی اپنی دکان کے کائونٹر پر بیٹھا تھا۔ فرش سے چھت تک دکان انواع و اقسام کی اشیا سے بھری ہوئی تھی۔ بگرام‘ جو انگوروں کی بیلوں سے لدا ہوا قصبہ ہے اور جس کی معیشت پچھلے 40 سال سے 2 سپر پاورز کی چھوڑی ہوئی اشیا پر چلتی رہی‘ میں گل زادہ جیسے دکانداروں کے صبر اور برداشت کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ جون کے آخر میں جب امریکی فضائیہ کے آخری کارگو جیٹ یہاںسے اڑانیں بھر رہے تھے گل زادہ جیسے لوگوں کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ امریکی واقعی ہمیشہ کے لیے یہاں سے چلے جائیں گے۔ وہ کہتا تھا ’’اگر امریکی چلے گئے تو یہاں کاروبار مندا پڑ جائے گا‘‘۔ کھڑکی کے پاس ریڈ رپ جیسا ہائی کیفین والا انرجی ڈرنک پڑا تھا جس نے ہزاروں امریکی اور نیٹو فوجیوں کو گشت کے دوران اور بکتر بند گاڑیوں کے اندر طویل عرصے تک جگائے رکھا جاتا تھا۔
گل زادہ کہتا ہے کہ 2001ء میں افغانستان پر امریکی جارحیت کے بعد ریڈ رپ افغان نوجوانوں میں مقبول ہونے والا واحد انرجی ڈرنک تھا جو 120 افغانی یا 1.5 ڈالر کا مل جاتا تھا۔ کابل میں لگے ہوئے بل بورڈ سے بھی اس انرجی ڈرنک کی مقبولیت عیاں تھی۔ دکان کے فرش پر بسکٹس، کیکس، شیمپو کی بوتلوں کی قطاریں پڑی تھیں اور ان کے ساتھ ویلسرو کی پٹیوں کے ڈھیر تھے جو زخموں سے خون کے بہائو کو روکنے کے لیے باندھی جاتی ہیں۔ جو بھی امریکی فوجی یا کنٹریکٹر یہاں سے گزرتا ہے‘ ایک پٹی ضرور خریدتا ہے۔ ان کا استعمال بہت آسان ہے اور ان کی مدد سے بہت سی قیمتی جانیں بچائی گئی ہیں۔ افغان جنگ میں امریکا کے بیس ہزار سے زائد فوجی زخمی ہوئے تھے (جبکہ 1897 امریکی فوجی براہ راست طالبان کے ساتھ جنگ میں اور 415 دیگر وجوہات کی بنا پر مارے گئے) شریان بند پٹیوں سے سڑک کنارے نصب بم پھٹنے سے یا باقاعدہ حملوں میں زخمی ہونے والوں کی جان بچانے میں بڑی مدد ملی۔ اسے بازو یا ٹانگ پر باندھ کر کستے جاتے ہیں حتیٰ کہ خون بہنا رک جاتا ہے۔ گل زادہ اپنی دکان پر یہ پٹی ریڈ رپ انرجی ڈرنک سے بھی25 سینٹ کم قیمت پر فروخت کرتا ہے۔ عام طور پر ادویات سپلائی کرنے والے ہی یہ پٹی خریدتے ہیں۔ دکاندار بتاتے ہیں کہ اس کے علاوہ امریکی فوج کے زیر استعمال سٹریچرز بھی فروخت ہوتے ہیں جنہیں میدان جنگ سے مرنے یا زخمی ہونے والے فوجیوں کو لانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
چھٹیوں کے موقع پر ایئر بیس میں قائم ا سٹاف آفس کے کارنر کو سجایا جاتا تھا۔ بگرام ایئر بیس پر ہزاروں فوجی مقیم تھے اس لیے یہاں کئی فاسٹ فوڈ ریستوران اور شاپس تھیں۔ یہاں ایک بدنام زمانہ فوجی جیل بھی تھی جسے بعد میں افغان حکومت کے حوالے کر دیا گیا تھا؛ تاہم جوںجوں امریکی فوج میں کمی ا?تی گئی بگرام ایئر بیس کے کئی حصوں کو آہستہ آہستہ منہدم کیا جاتا رہا۔ جب اخری امریکی فوجی دستہ یہاں سے روانہ ہوا تو انہوں نے بکتر بند گاڑیاں اور 15 ہزار سے زائد ایسے فالتو آلات تلف کر دیے جن کے بارے میں انہیں یقین تھا کہ افغان شہری انہیں منافع کمانے کے لیے فروخت کر دیں گے؛ تاہم ہر چیز کو تلف یا تباہ نہیں کیا گیا۔ ایک دکان پر فوجیوں کے زیر استعمال رہنے والے بوٹوںکا جوڑا پڑا تھا۔ یہ ان 80 ہزار فوجیوں کی نشانی تھی جو گزشتہ دو عشروں سے افغان سرزمین پر گشت کرتے رہے تھے۔ ان کے نمایاں پرنٹس سے طالبان کو جنوبی افغانستان کے صحرائی علاقے میں پٹرولنگ کرنے والے امریکی فوجیوںکا پتا چل جاتا تھا۔ کارنیگل جیسی خطرناک وادی میں مشکل چڑھائیاں چڑھنے اور برفیلے پانی والی ندیوں میں سے گزرنے کی وجہ سے یہ بوٹ پھٹے ہوئے تھے۔ امریکی فوجی یہ بوٹ پہن کر ہمیشہ اپنی نظریں زمین پر ہی رکھتے تھے۔ پٹرولنگ کرتے ہوئے ایک کے بعد دوسراقدم اٹھاتے ہوئے امریکی فوجی نیچے دیکھتے تھے کہ کہیں ان کے قدموں کے وزن سے زمین میں نصب کوئی بم یا بارودی سرنگ پھٹ نہ جائے۔
آخرکار سالہا سال کی جنگ کے دوران امریکی فوجی جن جن مقامات پرگھومے تھے‘ ان میں سے کئی ایک اب طالبان کے قبضے میں ہیں۔ آج کل طالبان ایک ایک انچ آگے بڑھتے ہوئے کابل کی طرف گامزن ہیں اور اپنی فوجی طاقت سے ایک ایک کرکے کئی اضلاع فتح کرتے جا رہے ہیں؛ اگرچہ افغان سکیورٹی فورسز نے ان میں سے کئی پر دوبارہ بھی قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے مگر ابھی تک ان کے حملوں کی شدت کو توڑا نہیں جا سکا۔ اب جبکہ افغان طالبان بگرام ایئر بیس سے پچاس میل سے بھی کم فاصلے پر رہ گئے ہیں‘ بگرام ایئر بیس کے قریب قائم ان دکانوں میں خوف کا ایک خاص احساس جاگزیں نظر ا?تا ہے۔ جسم کے دفاع کے لیے استعمال ہونے والی بلٹ پروف پلیٹس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دکان دار نے بتایا کہ اب یہ پلیٹس برائے فروخت نہیں ہیں۔ یہ ہمارے اپنے لیے ہیں کیونکہ ا?نے والے دنوںمیں یہاں شدید جنگ ہونے والی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں تبدیلی وجود جمعه 29 نومبر 2024
سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں تبدیلی

انتقام کی فصل وجود جمعه 29 نومبر 2024
انتقام کی فصل

بی جے پی کی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم وجود جمعه 29 نومبر 2024
بی جے پی کی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم

خواتین کا عالمی دن مسرت اور سیمل کی یاد وجود جمعرات 28 نومبر 2024
خواتین کا عالمی دن مسرت اور سیمل کی یاد

ہندوتوا کا ایجنڈا، مسلمان اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ وجود جمعرات 28 نومبر 2024
ہندوتوا کا ایجنڈا، مسلمان اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر