... loading ...
افغانستان سے قابض غیر ملکی فوج کا انخلا جاری ہے۔ صوبہ پروان کے علاقے بگرام کا معروف فوجی اڈہ کابل انتظامیہ کی تحویل میں دے دیا گیا ہے۔ افغان آزادی پسندوں نے بھی پیش قدمی تیز کردی ہے۔ کابل کی فورسز جنگ سے گریزاں ہیں۔ وہ اسلحہ رکھ کر گھروں کی راہ لے رہے ہیں۔ انہیں ہر لحاظ سے امن اور تحفظ حاصل ہے۔ ملک کا ایک وسیع و غالب حصہ طالبان کے تصرف میں ہے۔ البتہ شمال کے گروہ جنگ کے لیے پر تول رہے ہیں۔ یہ ان کا خاصا رہا ہے۔ ان ہی کی وجہ سے افغانستان وحدت کے بحران سے دوچار ہے۔ جنرل رشید دوستم نے کابل کی فوج میں طالبان کے حامی حلقوں کی طرف اشارہ کیا ہے اور چھان بین کا کہا ہے۔ اُن کے زیراثر اشرف غنی سے فوج، بیوروکریسی اور حکومتی حلقوں میں انتقامی عمل بعید نہیں۔ ایسا ڈاکٹر نجیب اللہ نے بھی کیا تھا، جو پرچم پارٹی اور شمال کے جنگجوئوں کے کٹھ پتلی بنے ہوئے تھے۔ اقلیت کی سرایت، بالادستی اور کابل پرحکمرانی کے خلاف پشتون جنرل، جنرل شاہنواز تنئی نے نجیب، پرچم پارٹی کے فارسی زبان بولنے والے جنرلوں اور رہنمائوں کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے فوجی بغاوت کردی تھی، جو ناکام ہوگئی۔ اس کے بعد ڈاکٹر نجیب حکومت نے فوج، بیوروکریسی اور حکومت میں شامل چھ سو پشتون افسروں اور رہنمائوں کو انتقام کا نشانہ بنایا۔ وہ نوکریوں سے برخاست کیے گئے، جیلوں میں ڈالے گئے، کئی کا ماورائے عدالت قتل کیا گیا، کئی فرار ہوگئے۔ یوں میدان ڈاکٹر نجیب، پرچمی جماعت کے فارسی زبان بولنے والے جنرلوں اور دوسرے جنگجوئوں کے لیے صاف ہوگیا۔ ڈاکٹر نجیب چار و ناچار استعفیٰ دینے پر راضی ہوگئے، بینن سوان امن اور انتقالِ اقتدار پلان تسلیم کرلیا۔ مگر اس سے قبل ڈاکٹر نجیب کے ذریعے کابل شمال کی شوریٰ نظار، گلم جم اور دوسری ملیشیائوں کے سپرد ہوچکا تھا۔ پیش ازیں ببرک کارمل اور ڈاکٹر نجیب ماسکو سے افواج نہ نکالنے اور مزید فوجیں بھیجنے کی التجائیں کرتے۔ ببرک کارمل کو ماسکو نے صدارت سے ہٹاکر ڈاکٹر نجیب کو حکمران بنایا۔ راندۂ درگاہ کیے جانے کے بعد ببرک کارمل سچ زبان پر لائے، وہ چلاّتے رہتے کہ افغان دوسروں کے آلۂ کار کبھی نہ بنیں۔ پھر انہیں اعصابی عارضہ لاحق ہوا، اور ذلت اور گمنامی کی موت مرے۔ شمال کے آگے سربسجود ڈاکٹر نجیب اللہ بھی مکافاتِ عمل کا شکار ہوئے۔ وہ جن کا ہر حکم بجا لاتے اُن ہی لوگوں نے انہیں کابل سے فرار نہ ہونے دیا۔ نہ ماسکو مدد کو پہنچا، نہ بھارت کسی کام آیا۔ وہ اقوام متحدہ کے دفتر میں طویل عرصہ پناہ گزین رہے، یہاں تک کہ طالبان نے پھانسی دے دی۔
یہی مشق کابل کے موجودہ صدر اشرف غنی دہرا رہے ہیں۔ برسوں پہلے حامد کرزئی جب صدر تھے، انہوں نے قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے قیام کی راہ روکنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ اپنی اسکیم کے تحت واشنگٹن جاکر تب کے امریکی صدر بارک حسین اوباما کو طالبان سے بات چیت اور قطر میں دفتر کی اجازت نہ دینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ کرزئی کی مخالفت پر قطر دفتر عارضی طور پر بند ہوا تھا۔ قطر میں دفتر کھولا گیا تو حامد کرزئی نے احتجاجا قطر سے افغان سفیر خالد احمد زکریا بلالیا تھا۔ دوسری بون کانفرنس میں امریکہ اور جرمنی نے سیاسی دفتر کے نمائندوں کو مدعو کرنے کا فیصلہ کیا تھا، مگر حامد کرزئی کی مخالفت کی وجہ سے وہ شریک نہ ہوسکے۔ وہ دوسرے ممالک کے اندر امن کانفرنسوں میں طالبان کی شرکت روکنے کی کوشش کرتے۔ کرزئی، عبداللہ عبداللہ اور دوسرے، حزبِ اسلامی کے ساتھ مذاکرات کے بھی خواہاں نہ تھے۔ یہ ضرور ہے کہ حامد کرزئی اپنی دوسری مدتِ صدارت میں کئی حوالوں سے امریکیوں کے آگے کھڑے رہے۔ رات کے اوقات میں آپریشن، چھاپوں، شہری آبادیوں پر بمباری، شہریوں کو بلاجواز عقوبت خانوں میں ڈالنے، بگرام میں کابل حکومت کی دسترس سے باہر امریکی قید خانوں کی موجودگی جیسے مسائل پر کڑھتے اور احتجاج کرتے اورکہتے کہ امریکی اور نیٹو افواج کی موجودگی سے فائدہ افغانستان کی اقلیتی آبادیوں کو حاصل ہے جبکہ پشتون غالب آبادی والے علاقے تکلیف اور عذاب میں مبتلا ہیں۔ کرزئی یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ افغانستان غیروں کے قبضے میں ہے۔
صدر بننے سے پہلے اشرف غنی بھی کہا کرتے کہ حلف اٹھاتے ہی وہ طالبان سے رو برو بالمشافہ ملاقات کریں گے، مگر انہوں نے وعدہ ایفا نہ کیا۔ البتہ اسلام آباد کا دورہ کیا، جی ایچ کیو گئے۔مقصد طالبان پر اسلام آباد کے ذریعے دبائو ڈالنے کی بے کار کوشش تھی۔ اشرف غنی نے اقوام متحدہ، یورپی یونین اور وا شنگٹن سے افواج کے عدم انخلا کے لیے منتیں شروع کردیں، نیز اقوام متحدہ سے طالبان سربراہ ہبتہ اللہ اخوندزادہ اور دوسرے رہنمائوں کے نام بلیک لسٹ میں ڈالنے کی درخواستیں کیں۔ ان تمام حربوں اور جتن کے باوجود طالبان نے امریکا کے ساتھ ایک میز پر مذاکرات کے مراحل طے کرہی لیے۔چناں چہ29فروری2019ء کو ہونے والے قطر معاہدے سے ان سب پر سکتہ طاری ہوا، لیکن باز پھر بھی نہ آئے اور معاہدے کو غیر مؤثر بنانے کی تدبیروں اور سازشوں میں لگ گئے۔ نکات پر عمل درآمد کو طوالت دی، اس کے ساتھ کمیونسٹ حکومتوں کی تقلید کرتے ہوئے شمال میں ملیشیائوں کی تنظیم و تربیت شروع کردی گئی۔ چناں چہ جوبائیڈن کے صدر بننے کے بعد واشنگٹن نے 11 ستمبر 2021ء تک انخلاء کا اعلان کر ہی دیا۔
کابل حکومت کے صدر اشرف غنی اور اعلیٰ مصالحتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے واشنگٹن کو منانے کی کوشش بھی کر لی۔ وفد لے کرچوبیس جون کو امریکاپہنچ گئے تھے۔امریکی صدر جو بائیڈ ن اور دوسرے حکومتی عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں۔ نائب صدر امر اللہ صالح، وزیر خارجہ حنیف اتمر، قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب اور اشرف غنی کی اہلیہ رو لا غنی بھی ہمراہ تھیں۔انہیں بہر حال کامیابی نہ ملی ۔
طالبان دوحہ معاہدے پر قائم ہیں۔ کابل اور شمال کی جماعتیں اور شخصیات اس راہ میں روڑے اٹکا رہی ہیں۔ سچ یہ ہے کہ امریکا نے بھی کابل حکومت کومعاہدے پر عمل کا پابند نہیں کیا ہے۔ وہ بغیر سیاسی دروبست کے، افغانستان سے نکل رہا ہے۔ اس لحاظ سے حالات کی ابتری کا ذمے دار امریکہ ہی ہے۔ دوحہ معاہدے کے تحت طالبان نے بین الافغان مذاکرات سے کبھی انکار نہیں کیا ہے۔ اس کے لیے اُن کی شرط معاہدے پر اُس کی روح کے مطابق عمل کرنا ہے۔ اِن دنوں بھی جب کابل کی حکومت شکست و ریخت سے دوچار ہے، قطر سیاسی دفتر پوری طرح فعال ہے اور مذاکرات کے تسلسل کی جانب توجہ دلا رہا ہے۔ عیدالفطر کے بعد جب بات چیت کا آغاز ہونا تھا، کابل حکومت کے نمائندے نہیں گئے۔ پچھلے دنوں جو چند افراد کابل کے موجود تھے انہوں نے بھی عدم دلچسپی دکھائی ہے۔ قطر دفتر کے ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم کہتے ہیں کہ اوّل تو کابل حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے ارکان کی تعداد مکمل نہیں ہے، دوئم کابل کی جانب سے مذاکراتی ٹیم کے کچھ لوگ طالبان کے خلاف لڑنے کے لیے جاچکے ہیں۔ یعنی اس پورے عرصے میں لیت و لعل اور تخریبی حربے استعمال ہوئے ہیں۔ قطر دفتر بڑی ذمے داری سے کہتا ہے کہ تمام غیر ملکی قونصل خانے، سفارت خانے اور ان کے اہلکار حفاظت میں ہوں گے، لہٰذا انخلاکے لیے دی گئی تاریخ کے بعد امریکی فوجیوں کی کسی بھی صورت موجودگی ردعمل کا باعث بنے گی۔ لہٰذا امریکا انخلا کے ساتھ تخریب کا سلسلہ ترک کردے۔ الغرض طالبان کو اقتدار ہاتھ میں لینے پر مجبور کیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔