وجود

... loading ...

وجود

اہداف کا انتخاب

بدھ 07 جولائی 2021 اہداف کا انتخاب

امریکا وچین سے تعلقات میں توازن قائم کرنا وقت کی ضرورت ہے لیکن ہمارے رویے میں بے نیازی یا لاپرواہی ہے چند برس قبل تک پاکستان امریکی مفادات کابڑا پاسبان تھا مگراچانک چین کی طرف جھکائو بڑھانے سے خطرات کم نہیںہوئے حالانکہ خارجی اہداف کے انتخاب کا یہ عمل بتدریج ہوتا تو عالمی اقوام کی طرف سے ذیادہ سخت ردِ عمل سے محفوظ رہتے مگر پالیسی سازوں کی نظر میں شاید اہداف سے ذیادہ اور معامالات ہیں لیکن یہ بے نیازی قومی مفاد کوزک پہنچا سکتی ہے وزارتِ خارجہ کی ذمہ داری صرف اہداف کا انتخاب ہی نہیںاہداف کے حصول کا لائحہ عمل ترتیب دینا اور پھر اُن پر عملدرآمد بھی ہے لیکن اِس حوالے پاکستان کی سفارتکاری نہایت کمزور ہے اور کچھ کرنے کی بجائے خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ نے تک محدودہے اسی بناپر عالمی معاملات میں باربار سُبکی اُٹھانا پڑتی ہے ۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی میں چاہے دشمن ملک کے طور پر ہی سہی بھارت کو اہم مقام حاصل ہے جس کی وجہ مسئلہ کشمیر ہے جو تقسیم ہندسے ہنوز حل طلب ہے دونوںممالک ایک دوسرے پر اندرونی معامالات میں مداخلت کے الزامات عائدکرتے ہیں مسئلہ کشمیر پر دو مکمل جنگیں ہوچکی ہیں اور کارگل کی طرز محدود جھڑپیں بھی ہوتی رہتی ہیں لیکن باربار جارحیت کے باوجود بھارت کو سفارتکاری میں برتری حاصل ہے اور پاکستان تمام تر امن پسندی کے باوجود دفاعی مقام پر صفائیاں دے رہا ہے پاکستان کے لیے خارجی پالیسی کے اہداف کا انتخاب کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بھارتی ریشہ دوانیوں کو نظر انداز کرنا ممکن نہیںلیکن کچھ عرصے سے پاکستان اِس حوالے سے زمہ داریوں کی ادائیگی میں قاصر دکھائی دیتا ہے اسی وجہ سے بھارت کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کی جرات ہوئی حالانکہ قبل ازیں فوجی ادوار میں بھی اُسے ایسا کرنے کی کبھی جرات نہیں ہوئی جونہی امریکا سے تعلقات میں ہم نے بگاڑ پیداکیا اُس نے کشمیر ہڑپ کرنے جیسا انتہائی فیصلہ کرنے کا حوصلہ ملا یہ فیصلہ پاکستان کی سفارتی ناکامی اور کمزورخارجہ پالیسی کی تصدیق کرتاہے ۔
بھارت کو عالمی دبائو کی پرواہ نہیں اقوامِ متحدہ کی طرف سے ایک سے زائد قراردادیں منظور ہونے اور کئی دوطرفہ معاہدوں کی موجودگی میں بھارت کے یکطرفہ اقدامات درست نہیں لیکن حالات اِس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ کشمیرکو ضم کرنے کے بعد پاکستان کوبھی سبق سکھانے اور توڑنے کی دھمکیاں دینے لگا ہے نیوی کمانڈرکلبھوشن کی گرفتاری ،کے پی کے ،بلوچستان ،سندھ میں جاری شورش اور تخریبی سرگرمیوں میں بھارتی ہاتھ عیاں حقیقت ہے جوہر ٹائون لاہور دھماکے کی ماسٹر مائنڈبدنامِ زمانہ خفیہ ایجنسی را ہے جس میں کوئی ابہام نہیں بھارت کے سفاکانہ کردار کو بے نقاب کرنے میں سُستی کا تاثر ملتا ہے اسی بناپر اہداف کے انتخاب کے باوجود اہداف کا حصول نہیں ہوتا بھارت تخریب کاری کے باوجود بالاتر اور ہم ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے صفائیاں دے رہے ہیں ستم طریفی تو یہ ہے کہ پاکستانی سفارتخانوں میں بھی اِس حوالے سے کچھ خاص ہلچل نظر نہیں آتی اگر پاکستانی سفارتخانوں میں کشمیرمیں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بھارتی تخریب کاریوں کو بے نقاب کرنے کے لیے خصوصی کائونٹر بنائے جائے اور حکومتی نمائندوں سے روابط بڑھانے سے مظلوم کشمیریوں کے حق میں نہ صرف عالمی رائے عامہ ہموار بلکہ بھارت پر عالمی دبائو بھی بڑھ سکتا ہے ضرورت اِس امر کی ہے کہ خارجہ پالیسی کے اہداف کے انتخاب میں عالمی طاقتوں سے تعلقات میں توازن پیداکیا جائے ۔
سرد جنگ کے دوران دنیا دو بلاکوں میں منقسم تھی پھر روس کی شکست و ریخت سے عالمی صورتحال ہی بدل گئی مگر اب حالات پھر کروٹ لینے لگے ہیں اور سرد جنگ کا ماحول بننے لگا ہے عصرِ حاضر کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے پاکستان نے بھی تیاری کی ہے ایسا نظر نہیں آتا بلکہ حکومت جذباتی فضا بنارہی ہے امریکی خاموشی کے باوجودبچوں کی طرح تنقید کے نشتر چلائے جا رہے ہیں یہ رویہ کسی طور دانشمندانہ نہیں اِس میں شائبہ نہیں کہ عالمی طاقتوں کے انتخاب میں پاکستان کی ترجیح اب امریکا نہیں چین ہے لیکن کیا بہتر کہ ہوتاکہ دیگر طاقتوں کو ناراض کیے اور دشمن بنائے بغیر ترجیحات کا حصول یقینی بنایا جاتا بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے جو سرد جنگ کے ایام میںروس کا چہیتا رہا جو نہی روس زوال کا شکار ہواپالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے امریکا کا منظورِ نظر ہو گیا ابھی حال ہی میں کورونا کی بدترین لہر کے باوجود کامیاب سفارتکاری کے زریعے پابندیوں سے محفوظ رہاہمیں بھی جذباتیت سے نکل کر خارجہ پالیسی کے اہداف کا انتخاب کرتے ہوئے حصولِ اہداف کی کوشش کرنی چاہیے ۔
ایف اے ٹی ایف ہو یا اب چائلڈ سولجر ایکٹ کا معاملا ہو یا توسیعی رعایت کے بدلے یورپی یونین کی طرف سے توہینِ رسالت کے قوانین کی تبدیلی کی بات ہو اِس میں ہماری جذباتیت کا بڑا عمل دخل ہے بروقت ، تحمل اوردلیل سے مکالمہ اچھے نتائج دیتا ہے امریکا کو بے وجہ نہ للکارتے تو جارج ڈبلیوبش کا 2008میں پاس کیا جانے والا چائلڈ سولجر پریونشن آج لاگو نہ ہوتا ایف اے ٹی ایف اور توہینِ رسالت کے قوانین میں تبدیلی کے مطالبات نہ ہوتے اسلامو فوبیا ایک حقیقت ہے جس کی وجہ سے یورپی اقوام کے ساتھ کئی اور ممالک جیسے کینڈاوغیرہ میں مسلمان بدترین تعصب کے سائے میں زندگیاں بسر کر نے پر مجبور ہیں جس کا عمران خان اظہاربھی کرتے رہتے ہیں لیکن جب تک ہم زبانی کالامی سے آگے نہیں بڑھیں گے اور جامع ڈائیلاگ کی طرف نہیں آئیں گے تب تک لاکھ نعرے لگائیں یا سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بنائیں بات نہیں بنے گی لیکن اِس حوالے سے خارجہ پالیسی کے اہداف میں مکمل خاموشی ہے ۔
پاکستان روایتی گولہ بارود اور چھوٹے ہتھیاروں میں خودکفالت کے بعد میزائل ٹیکنالوجی سے لیکر طیارہ سازی تک کے مراحل میں داخل ہو چکا ہے لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ دفاعی صنعت میں کامیابیوں کے بعدسب سے لڑائی مول لے لی جائے دانشمنداقوام ایسی حماقتوں کا مظاہرہ نہیں کرتیں ہمیں بھی عالمی طاقتوں کو مخالف بنانے کی بجائے زیادہ سے زیادہ طرفدار بنا نا ہوگا تاکہ سرمایہ کاری میں اضافہ ہو اور پیداواری عمل بڑھے جو برآمدات کو فروغ دینے کا باعث بنیں تحقیقی علوم میں ترقیافتہ ممالک کی برتری ایک حقیقت ہے تحقیقات تک رسائی حاصل کرنی ہے تو مخالفتیں بڑھانے کا عمل روکنا ہو گا پاکستان کی خارجہ پالیسیوں کے اہداف کا انتخاب کرتے ہوئے ملک کے معاشی مسائل کو نہ بھولاجائے یہ درست ہے کہ بھارت اور کشمیر کو خارجہ پالیسی کے اہداف میں اہم حثیت حاصل ہے مگر دیگراقوام سے بات چیت اور ملاقاتوں کا عمل منقطع کرنا مسائل کا موجب بن سکتا ہے آج عرب بھائی مسلمان ہو کر بھارت کے ہمنوا ہیں ہمیں تو ہمیں عالمی طاقتوں کی مخاصمت اور تجارتی جنگ میں حصہ دار بننے کی کیا ضرورت ہے پاکستان کی خارجہ پالیسی مرتب کرتے وقت زمہ داران ملک کو درپیش داخلی و خارجی چیلنجز سے صرفِ نظر نہ کریں اوراہداف و ترجیحات کے تعین تک محدود رہنے سے آگے بڑھیں تبھی دہشت گردی کے لیبل سے چھٹکارہ مل سکتا ہے کشمیر کے حوالے سے عالمی مدد حاصل ہو گی علاوہ ازیں ایف اے ٹی ایف سمیت چائلڈ سولجر کا الزام دھل سکتا ہے سرمایہ کاری ہونے سے پیداواری عمل میں اضافہ ہو گا تو برآمدی اہداف کا حصول مشکل نہیں رہے گا شرط یہ ہے کہ اہداف کے انتخاب کے ساتھ عالمی طاقتوں کی مخالفت مول لیے بغیرکام کیا جائے ملک معاشی ودفاعی لحاظ سے مضبوط ہوگا تو عالمی سطح پر آواز میں زیادہ وزن ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خود کو بدلیں! وجود جمعه 10 جنوری 2025
خود کو بدلیں!

امریکہ میں مقیم مسلمانوں میں بے چینی وجود جمعه 10 جنوری 2025
امریکہ میں مقیم مسلمانوں میں بے چینی

پروفیسر اسٹیوارٹ اور ہماری عدالتیں ہمارا مان وجود جمعه 10 جنوری 2025
پروفیسر اسٹیوارٹ اور ہماری عدالتیں ہمارا مان

فلسطینیوں کی نسل کشی وجود جمعرات 09 جنوری 2025
فلسطینیوں کی نسل کشی

وزیر اعظم کی اجمیری چادر:نیاز و ناز کا کتنا حسین منظر ہے وجود جمعرات 09 جنوری 2025
وزیر اعظم کی اجمیری چادر:نیاز و ناز کا کتنا حسین منظر ہے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر