... loading ...
(مہمان کالم)
نارمٹسو اونیشی
جنوبی لبنان میں واقع ایک فرانسیسی فوجی کیمپ کی مسجد میں وردی میں ملبوس 6 فوجیوں نے اس وقت اپنے سر جھکا لیے جب ان کے امام نے قرآنی آیات سے مزین سفید دیوار کے سامنے نماز کی امامت شروع کی۔ حال ہی میں جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے بعد 6 فرانسیسی فوجی‘ جن میں پانچ مرد اور ایک خاتون شامل تھی‘ ملٹری کیمپ میں اپنی ڈیوٹی پر واپس آ گئے جہاں انہوں نے ماہِ رمضان کے روزے رکھے تھے۔ وہ کبھی کبھار اپنے مسیحی ساتھیوں کے ساتھ مل کر بھی اپنا روزہ افطار کرتے تھے۔ ان کے اپنے وطن فرانس میں‘ جہاں اسلام کو بطور مذہب معاشرتی طور پر کافی مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ پوری قوم منقسم ہے اور ان فوجیوں کے بقول‘ یہاں اپنے مذہب پر عمل کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ 31 سالہ سیکنڈ ماسٹر انوار‘ جو آج سے 10 سال پہلے فوج میں شامل ہوا تھا اور فرانسیسی فوج کے قوانین کے مطابق اپنے نام کے پہلے حصے سے ہی پہچانا جا سکتا ہے۔ ماضی کے دو عشروں کے دوران جب مسلمان اپنی قوم میں ایک عظیم تر کردار ادا کرنے کے خواہاں تھے تو فرانسیسی حکام نے ملکی سیکولر ازم کی روشنی میں اپنی طرف سے سرتوڑ کوشش جاری رکھی کہ سماجی زندگی میں اسلام کی ترویج کی راہ میں ہر ممکن رکاوٹیں ڈالی جائیں۔ 2004ء میں ایک قانون پاس کیا گیا جس کے تحت سرکاری ا سکولوں میں عبایا کو مذہبی شعار کے طور پر پہننا ممنوع قرار دے دیا گیا اور آنے والے برسوں میں فرانس میں بسنے والے مسلمانوں کے ساتھ حکومت اور عوام کے طرزِ سلوک کے حوالے سے انتہائی تکلیف دہ بحث شروع ہو گئی۔ یورپ میں سب سے زیادہ مسلمان فرانس ہی میں آباد ہیں۔
فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون کی طرف سے ایک نئے قانون کی توقع کی جا رہی ہے جس کے بعد ملک میں موجود مساجد پر نہ صرف حکومتی کنٹرول زیادہ سخت ہو جائے گا بلکہ نئی مساجد کا قیام بھی مشکل تر ہو جائے گا؛ تاہم فرانس کے ہی ایک اہم ادارے میں صورتِ حال اس کے بالکل برعکس ہے اور وہ ہے فرانسیسی فوج۔ فرانس کی مسلح فواج میں سیکولر ازم کی لبرل تشریحات کی روشنی میں دیگر مذاہب کی طرح اسلام کے بارے میں بھی نرم اور معتدل جذبات پائے جاتے ہیں۔ 2005ء میں فرانسیسی فوج میں مسلمانوں کے امام کو بھی ایک پادری جیسا مقام اور احترام دیا گیا تھا، پورے ملک کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں واقع فوجی کیمپوں میں مساجد قائم کی گئی تھیں جن میں جنوبی لبنان کا دیر کیفا فوجی کیمپ بھی تھا جہاں اقوام متحدہ کے امن مشن پروگرام کے تحت مدد کے لیے فرانس کے 700 فوجی تعینات ہیں۔ مسلمان فوجیوں کے لیے حلا ل کھانے کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ اسلامی تہواروں کے موقع پر مسلمان فوجیوں کو چھٹی کی سہولت میسر ہے۔ کام کا شیڈول اس طرح ترتیب دیا جاتا ہے تاکہ فوج میں شامل مسلمانوں کو جمعہ کی نماز پڑھنے کا موقع مل سکے۔ فوج فرانس کا ایک ایسا قومی ادارہ ہے جہاں مسلمان فوجی دیگر مذہبی عقائد کے حامل اپنے عسکری ساتھیوں کے ساتھ بڑی کامیابی سے رچ بس گئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ باقی ماندہ فرانس میں بھی اسی ماڈل پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ کئی تجزیہ کاروں نے اس کا موازنہ امریکی فوج کے ساتھ کیا ہے جو باقی ماندہ امریکی سوسائٹی سے ا?گے نکل گئی ہے جہاں سیاہ فام امریکیوں کے ساتھ مساوی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔
ایک ایسا ملک‘ جہاں حکومتی اداروں میں اپنے مذہبی خیالات کا اظہار ممنوع قرار دیا گیا ہو‘ جہاں اسلام کے ساتھ اپنی محبت کے اظہار کو سوسائٹی اور قوم کے اتحاد کے لیے ایک خطرہ سمجھا جاتا ہو‘ خاص طور پر اس وقت جب 2015 ء میں یہاں مذہب کے نام پر متعدد بار حملے ہوئے ہوں‘ ایسے میں کسی فوجی کیمپ میں اسلام کے غیر متنازع مقام اور مرتبے کا اندازہ لگانا خاصا مشکل کام ہے۔ 22 سالہ کارپورل لی لیا جس نے عبایا پہن کر اپنی جمعہ کی نماز ادا کی تھی‘ نے مجھے بتایا ’’جب میں نے اپنے والدکو یہ بتایا کہ ہمارے فوجی کیمپ میں ایک مسلمان عالم بھی ہے تو انہیں میری بات کا یقین نہ آیا۔ انہوں نے مجھ سے تین مرتبہ پوچھا کہ کیا میں یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہہ رہی ہوں؟ ان کا خیال تھا کہ وہ عالم یقینا کوئی کیتھولک یا پروٹسٹنٹ پادری ہوگا‘‘۔
29 سالہ سارجنٹ اظہر نے بتایا کہ میں مسلمان ہونے کے ناتے امتیازی سلوک کا سامنا کرتے ہوئے جوان ہوا ہوں۔ جب میں فوج میں بھرتی ہونے سے پہلے ایک ریستوران میں کام کرتا تھا تو مجھے اپنے مذہبی عقائد پر عمل کرنے میں بہت زیادہ امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ فوج میں رہتے ہوئے میرے لیے اپنے مذہب پر عمل کرنا آسان ہو گیا ہے اور کوئی میری وفاداری پر شک بھی نہیں کرتا۔ چونکہ فوج میں ہر طرح کے لوگ ایک ساتھ رہنے پر مجبور ہوتے ہیں اس لیے باقی معاشرے کے مقابلے میں ہم ایک دوسرے کو زیادہ بہتر انداز میں جانتے اور سمجھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ’’فوج میں ہر مذہب، ہر رنگ اور ہر نسل کے لوگ ہوتے ہیں‘ اس لیے سب کو کھلے ذہن اور سوچ کے ساتھ اکٹھے رہنے کا موقع مل جاتا ہے مگر سویلین زندگی میں ایسا دیکھنے میں نہیں آتا‘‘۔
اس میں سب سے بنیادی کردار سیکولر ازم کا ہے جس میں چرچ اور ریاست دونوں جدا جدا ہوتے ہیں اور عرصے سے یہ فرانس کے سیاسی نظام کی روایت رہی ہے۔ 1905ء کے ایک قانون کے تحت ہر مذہب کے پیروکاروں کو مساوی حقوق کی ضمانت حاصل ہے مگر جوں جوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسلام رومن کیتھولک کے بعد فرانس کا دوسرا بڑا مذہب بن گیا ہے‘ اس لیے سیکولر ازم اس بات کی ضمانت بن کر سامنے آیا کہ عوامی زندگی میں مذہب کا کوئی کردار نہیں ہوگا حتیٰ کہ پورے فرانس میں کسی فرد کے مذہبی عقائد کو موضوعِ بحث بنانے کی اجازت نہیں ہے۔
سیکولر ازم کے بارے میں ایک معروف مورخ فلپ پورٹیر کہتے ہیں کہ فرانس میں یہ وتیرہ رہا ہے کہ مذہب کو تمام سماجی عوامل کے مطابق ڈھال لیا گیا ہے‘ خاص طور پر اسلام کا مقابلہ کرنے کے لیے سیکولر ازم کی تعلیمات اور تشریحات کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس فوج میں ہر فوجی جوان کے مذہبی عقائد کو اپنے ادارے کی روایات اور چلن کے مطابق ڈیل کیا جاتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’تنوع کو قبول کیا جاتا ہے کیونکہ تنوع ہی ہمارے اتحاد اور یگانگت کی بنیاد بن سکتا ہے۔ دیگر فرانسیسی اداروں کے برعکس فرنچ آرمی میں یہ شعور پروان چڑھایا گیا ہے کہ اگر آپ فرد کے مذہبی عقائد اور نظریات کے ساتھ کمپرومائز نہیں کرتے تو معاشرے میں یگانگت اور رواداری کو فروغ دینا ممکن نہیں ہو گا‘‘۔ فوجی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ سوسائٹی کے دیگر شعبوں کے برعکس ہم نے فوج میں سیکولر ازم کو سیاسی رنگ دینے سے احتراز کیا ہے
لبنان کے دیرکیف فوجی کیمپ ا کے امام جین جیکس کہتے ہیں کہ ’’درست اپروچ تو یہ ہے کہ سیکولرزم کو ایک نظریے کے بجائے ایک اصول کے طور پر لیا جائے۔ جب یہ نظریہ بن جاتا ہے تو ناگزیر طور پرمعاشرے میں عدم مساوات کا باعث بنتا ہے‘‘۔ اسی فوجی اڈے کے مسیحی پادری کارمین کہتے ہیں کہ ہماری فوج اس بات کا ثبوت ہے کہ سیکولرازم اس وقت تک بہت اچھاکام کرتا ہے جب تک اس کا غلط استعمال نہ کیا جائے۔ ’’ہم آج کل فرانس میں سیکولرزم کا اتنا ذکر کیوں کرتے ہیں؟اس سے اکثر مسائل پیدا ہوتے ہیں‘‘۔
2019ء میں فرانسیسی وزارتِ دفاع کی ملٹری میں سیکولر ازم کے بارے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں یہ تجزیہ پیش کیا گیا تھا کہ مذہبی آزادی فوج کی سماجی شناخت یا کارکردگی کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتی۔ معاشرے میں جس طرح سیکولرازم کی تشریح کی جاتی ہے اس کے برعکس یہ رپورٹ ایک ایسے پْرامن سیکولر ازم کو فروغ دیتی ہے جو ہر وقت خود کو ملک کے معاشرتی حقائق کے رنگ میں ڈھالنے میں مصروف رہتا ہے۔ وزارتِ دفاع میں ایک مشیر برائے عسکری اخلاقیات ایرک جرمین کہتے ہیں کہ ’’فوج سیکولرازم کے جس لبرل ماڈل پر یقین رکھتی ہے وہ انٹیلی جنس اور فائن ٹیوننگ کا سیکولرازم ہے‘‘۔ فوج میں مسلمانوں کی شمولیت دراصل فرانس کی اسلامی دنیا کے ساتھ پیچیدہ تعلقات کی عکاسی کرتی ہے۔ پیرس میں قائم نیشنل کنزرویٹری آف آرٹس اینڈ کرافٹس کے مسلم اینڈ فرنچ ملٹری کے ایک ماہر ایلی مین سیٹول کہتے ہیں کہ فرانسیسی نوآبادیات سے تعلق رکھنے والے مسلمان نوجوان 1840ء سے فرانسیسی فوج میں بطور فوجی اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ گزشتہ صدی کے شروع میں ایسے بہت سے اقدامات کیے گئے جن سے مسلمانوں کی مذہبی ضروریات پوری ہوسکتی ہوں مثلاً فوج میں تین سال کے لیے ایک مسلمان امام کا تقرر ہوتا ہے تاکہ مسلمان فوجی باجماعت نماز ادا کر سکیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد فرانس کی نوآبادیات میں جنم لینے والی آزادی کی تحریکوں کی وجہ سے اسلام کے بارے میں ایک بد اعتمادی کی فضا پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں تمام کوششیں معطل ہو کررہ گئیں۔
اس مسئلے کو 199کی دہائی میں نظرانداز کرنا ممکن نہ رہا کیونکہ 1996ء میں لازمی فوجی خدمات کا اعلان کر دیا گیا تھا اور جب ورکنگ کلاس کے علاقوں سے فوج میں بھاری تعداد میں بھرتیاں شروع ہوگئیں تو فرنچ نوآبادیوں سے آئے مسلمان تارکین وطن کے بچوں کی کافی تعداد فرانسیسی فوج میں نظر آنے لگی اور اب فرانس کی فوج میں ان کی تعداد 15سے 20 فیصد تک جا پہنچی ہے جو فرانس میں مسلمانوں کی کل آبادی کے تناسب سے دو سے تین گنا زیادہ ہے۔ ایلی مین سیٹول کہتے ہیں ’’مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے غیرمنصفانہ سلوک نے مسلمان فوجیوں میں یہ احساس پیدا کر دیا کہ انہیں سیاسی اور مذہبی طور پر امتیاز ی سلوک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہیں کوئی متبادل کھانا نہیں دیا جاتا جس کی وجہ سے مسلمانوں میں تلخی اورعلیحدگی کے جذبات پید ا ہونا شروع ہوگئے۔ یہاں تک کہ کئی مرتبہ لڑائی تک کے مواقع بھی پیدا ہوگئے‘‘۔
1880ء سے کیتھولک،پروٹسٹنٹ اور یہودی علما فرنچ فوج میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں مگر ایک صد ی بعد تک بھی فوج میں کوئی مسلمان امام نہیں تھا جو فرنٹ لائن مسلمان فوجیوں کی امامت کر سکے، اس کے لیے انہیں کیتھولک پادری سے رابطہ کرنا پڑتا تھا۔ ڈیفنس منسٹری نے 1990ء میں ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں اس امر کی نشاندہی کی گئی تھی کہ اگر فوج میں شامل مسلمان فوجیوں کے ساتھ منصفانہ سلوک نہ کیا گیا تو ایک داخلی تقسیم پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ جن خدشات کو مسٹر سیٹول نے اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات کا نام دیا ہے ان کے باوجود 2005ء میں فرنچ فوج میں مسلمان اماموں کی بھرتی شروع ہو گئی تھی اور یہ وہی وقت تھا جب فرانسیسی سماج اس کے بالکل برعکس سمت میں سفر شروع کر چکا تھا۔ مسلمان طالبات کے لیے سکول میں پردہ ممنوع قرار دے دیا گیا۔ اس سے باقی مذاہب کے پیروکاروں کے مقابلے میں مسلمانوں کا معاشرے میں ضم ہونے کا عمل شروع ہو گیا۔ 2019ء میں کل 36 امام فوج میں فرائض سرانجام دے رہے تھے جو تمام مذہبی علما کا 17 فیصد بنتے ہیں۔ فوج میں 125کیتھولک پادری، 34 پروٹسٹنٹ پادری اور 14 یہودی ربی ہیں۔ جمعہ کی نماز میں شامل ہونے والے تمام فوجی جن کی عمریں 20اور 40سال کے درمیان ہوتی ہیں تارکین وطن کے بچے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے والدین یا دادا، دادی کی زبانوں سے نماز کے بارے میں سنتے سنتے جوان ہوئے ہیں جو مساجد کی باقاعدہ تعمیر سے پہلے عارضی عبادت گاہوں میں نماز پڑھا کرتے تھے۔ کئی فوجیوں کی مائیں یا دیگر خواتین رشتے دارپردہ کرنے کی وجہ سے آج بھی شک کی نظروں سے دیکھی جاتی ہیں۔
41سالہ سارجنٹ محمد آج سے بیس سال پہلے یعنی پہلے امام کی بھرتی سے بھی دو سال پہلے فوج میں بھرتی ہوئے تھے۔ انہیں اچھی طرح یاد ہے کہ امام کی بھرتی کے بعد ان کے لیے فوج میں اپنی مذہبی عبادات کی ادائیگی میں کس قدر آسانی پیدا ہو گئی تھی۔ شروع میں مسلمان فوجیوں کو نماز کی ادائیگی کے لیے بڑے بڑے کمرے دے دیے جاتے تھے مگر اب وہ مسجد میں جا کر نماز پڑھتے ہیں۔ سارجنٹ محمد نے بتایا کہ فوج میں اسے رمضان کے ا?خر پر عید الفطر منانے کے لیے باتنخواہ چھٹی مل جاتی ہے۔ محمد نے بتایا کہ ان کے والد نے 35سال تک فوج میں خدمات انجام دی ہیں اور ہرسال عید کے موقع پر اْن کی 8گھنٹے کی تنخواہ کٹ جاتی تھی۔ ان کے والد چالیس سال پہلے الجزائر سے فرانس آئے تھے اور وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان کے بچے اس طرح فوج میں رہ کر اپنی نماز پڑھ سکیں گے۔ ’’گزشتہ چالیس سال میں فوج میں حیران کن تبدیلیاں آئی ہیں ‘‘ سارجنٹ محمد کاکہنا ہے کہ سب سے زیادہ تبدیلی یہ دیکھنے میں آئی ہے کہ فوج میں مسلمانوں کے انضمام کی وجہ سے اسلام کے بارے میںعزت اور احترام کے جذبات پروان چڑھے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایک فوجی کا اصل جذبہ اور کمائی ہی یہ ہوتی ہے کہ اس کی خدمات اور قربانیوں کا اعترا ف کیا جائے۔ اور جب آپ ہمارے مذہب کو احترام اور قبولیت دیتے ہیں تو یہ ایسے ہی ہے کہ آپ ہمارے فیول ٹینک کو بھر دیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔