وجود

... loading ...

وجود

جام مخالفت ،سرداررند کا استعفا اور بی این پی کا پنڈورا باکس

جمعرات 01 جولائی 2021 جام مخالفت ،سرداررند کا استعفا اور بی این پی کا پنڈورا باکس

ہفتہ 27جون 2021ء کو بلوچستان اسمبلی کے بجٹ سیشن اجلاس میں وزیراعلیٰ جام کمال نے حکومت کے پروگرام اور منصوبوں کو بڑی شائستگی،صراحت اور جامعیت کے ساتھ پیش کردیا ہے۔ متحدہ حزبِ اختلاف نے بجٹ اجلاس منعقدہ 18جون سمیت پورے سیشن کا مقاطعہ کیے رکھا۔ اسمبلی کے اندر اُس روز بہت ہی شرمناک رویّے دیکھنے کو ملے۔ یقیناً اس کے لیے حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں قصور وار ٹھیرتے ہیں۔ گاہے جام کمال خان کا لہجہ بھی تلخ ہوجاتا ہے۔ جام کمال کو افہام و تفہیم کی راہ اپنانی چاہیے تھی۔ انہیں بخوبی علم تھا اور ہے کہ حکومتی صفوں کے اندر سے بدخواہ ان کو چاروں شانوں چت کرنے کے خواہاں ہیں۔ اس ضمن میں اسپیکر عبدالقدوس بزنجوکردار و گفتار کے لحاظ سے مبرہن ہیں۔ اسپیکر چاہتے تو بجٹ والے دن رسوائی نہ ہوتی۔ پھر حزبِ اختلاف کے خلاف مقدمے میں جلدبازی ہوئی۔ بہتر ہوتا کہ معاملے کے گرد و پیش پر باریک بینی سے غور و خوض کے بعد کوئی قدم اٹھایا جاتا۔ چناں چہ ہوا یہ کہ حزبِ اختلاف کے اراکین جو پرچے میں نامزد کیے گئے تھے، خود چل کر زرغون روڈ کے بجلی گھر تھانہ پہنچ گئے۔ انہوں نے بجٹ اجلاس کے اگلے دن سے آج تک تھانے میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ حکومتی دائو کارگر نہ ہوسکا، اُلٹا وہ مشکل میں پھنس گئی۔ پولیس اراکینِ اسمبلی کو گرفتار کر نہیں سکتی جب تک اسپیکر اسمبلی ایکٹ 3اور6کے تحت تحریری اجازت نہ دے۔ جبکہ اسپیکر اپنی بچھائی ہوئی بساط پر کھیل رہے ہیں، اب حکومت یا جام کمال کریں تو کیا کریں؟ لہٰذا کئی حکومتی اراکین تھانے گئے، مگر حزبِ اختلاف اپنی بات پر قائم ہے۔ ادھر سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کی تھانے آمد جاری ہے۔ یہ صورتِ حال حکومت مخالف رجحان میں اضافے کا باعث بنی، حتیٰ کہ سردار یار محمد رند نے بھی تھانے جاکر جام مخالفت میں حصہ ڈالا۔ سردار رند نے 23جون کے اسمبلی اجلاس میں دنیا جہاں کی محرومیوں کا اظہار کیا، وزارت سے الگ ہونے کا اعلان کیا، اور25جون کو گورنر بلوچستان کو اپنا استعفیٰ بھیج دیا۔ اسپیکر عبدالقدوس بزنجو تو اسمبلی ہال کے خراب مائیک کے لیے بھی جام کو ذمہ دار ٹھیرانے کی کوشش کرچکے ہیں۔ گویا یہ سب کچھ جان بوجھ کر اور سازشی تھیوری کے تحت ہورہا ہے، اور ان سب تماشوں سے صوبہ ہر لحاظ سے منفی اثر لے رہا ہے اور عوام میں بے یقینی پھیل رہی ہے۔
حکومتی ایوانوں کے اندر نمائندوں کے ذاتی منافشات سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ جیسے صوبہ فی الواقع کسی آفت اور آزمائش میں مبتلا ہے۔ سردار یار محمد رند حکومت کا حصہ ہیں، اپنی جماعت کے پارلیمانی لیڈر ہیں، مگر اس کے باوجود انہیں اپنی جماعت کے اراکین کی حمایت حاصل نہیں۔ انہوں نے رونا کچھی میں سہولیات کا بھی رویا۔ دیکھا جائے تو سردار رند خود ایوانوں کا حصہ رہے ہیں، پرویزمشرف کی آمریت میں وفاقی وزیر تھے۔ اُس وقت فنڈز کی فراوانی تھی۔ پرویزمشرف کی شخصی حکومت میں وزراء موج میں تھے۔ لہٰذا تب ہی سردار یار محمد رند اپنے حلقے میں اچھے اسپتال تعمیر کرتے، تاکہ مریضوں اور حاملہ خواتین کو کوئٹہ لے جانے کی حاجت و ضرورت نہ پڑتی۔ سردار رند کو اپنی جماعت کے اراکینِ اسمبلی کی حمایت حاصل ہوتی تو اب تک سب اپنے استعفے گورنر کو بھیج چکے ہوتے، یا وہ خود مارچ2021ء کے سینیٹ انتخابات میں اپنے بیٹے کو امیدوار لانے کے بعد واپس دست بردار نہ کراتے۔ اسمبلی میں بعض دوسری باتیں اُن کی شخصیت کے شایانِ شان ہرگز نہ تھیں۔ رند قومی سطح کی جماعتوں کے ساتھ رہے ہیں، اس لحاظ سے وہ قومی سطح کے سیاسی رہنما ہیں، وہ رندقبائل کے متفقہ سربراہ بھی ہیں۔ اسمبلی اجلاس میں ایسی بے میل چھوٹی سطحی اور نفرت انگیز باتیں تو شاید ایک علاقائی لیڈر بھی نہ کرے۔ دراصل سردار رند اپنی آئندہ کی سیاسی راہیں مسدود کررہے ہیں۔ غرض اس پورے تناظر میں اگر جام کمال حزبِ اختلاف کو قریب لاتے ہیں تو یقیناً ان کی جماعت اور اتحادی محاذ قائم کرلیں گے۔ اور حقیقتِ حال یہ ہے کہ اپنے، بہت کچھ پر بھی اکتفا نہیں کرتے۔ حزبِ اختلاف بھی سمجھے کہ حکومتی حلقوں سے اگر کوئی ان سے وارفتگی و محبت کا اظہار کرتا ہے تو یہ صرف اور صرف جام کمال خان کے بغض میں ہورہا ہے۔ ان سطور میں پہلے بھی لکھا جاچکا ہے کہ وزیراعلیٰ متحدہ حزبِ اختلاف سے قربت پیدا کرنے کی پالیسی اپنائیں۔ جام کمال نے اسپیکر عبدالقدوس بزنجو کو منصب سے ہٹائے جانے کے تاثر کی اگرچہ نفی کی ہے، مگر یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ گھر کا یہ بھیدی سازشی تھیوری پر ہی گامزن رہے گا۔
ادھر ایڈووکیٹ زینت شاہوانی نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے اندر کا پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔ زینت شاہوانی بی این پی سے تعلق رکھنے والی رکن اسمبلی ہیں۔ پارٹی نے ان کی رکنیت مارچ2021ء کے سینیٹ انتخابات میں اپنے امیدوار ساجد ترین کو ووٹ نہ دینے کی پاداش میں معطل کردی ہے، جس پر زینت نے 26 جون کو پریس کانفرنس کے ذریعے ردعمل دیا، سوالات رکھ دیے اور پردہ فاش کیا ہے۔ اس انتخاب میں پارٹی کے دیرینہ کارکن اور رہنما ایڈووکیٹ ساجد ترین حیرت انگیز طور پر شکست سے دوچار کیے گئے۔ زینت شاہوانی کہتی ہیں کہ پارلیمانی بورڈ کا فیصلہ راتوں رات تبدیل کرکے ساجد ترین کے ووٹ پارٹی کے دوسرے امیدوار قاسم رونجھو کو ڈالے گئے۔ پارلیمانی بورڈ نے ساجد ترین کو پہلے اور قاسم رونجھو کو دوسرے نمبر پر رکھا تھا۔ خاتون رکنِ اسمبلی نے سوال کیا کہ ساجد ترین کو ملنے والے سیکنڈ ووٹ کہاں گئے؟ زینت شاہوانی نے پارٹی کی تحقیقاتی کمیٹی کو مسترد کردیا ہے اور جوابی وار کرتے ہوئے کہا کہ بی این پی کے دو ارکان نے2018ء کے سینیٹ الیکشن میں پارٹی امیدوار ہمایوں عزیز کرد کے بجائے کہدہ بابر کو ووٹ دیئے تھے، اور نقطہ اٹھایا کہ مارچ کے سینیٹ انتخابات میں پارٹی کی خاتون امیدوار کے بجائے ایک دن پہلے شامل ہونے والی نسیمہ احسان کو جتواکر سینیٹر بنایا گیا۔ زینت شاہوانی کی رکنیت معطل کرکے بی این پی نے حکمت سے کام نہیں لیا ہے۔ سینیٹ کے اس انتخاب میں بلوچستان اسمبلی کی متحدہ حزبِ اختلاف وحدت کے ساتھ نہ چلی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر