وجود

... loading ...

وجود

چینی کمیونسٹ پارٹی ۔۔۔ یہ سو برس کا قصہ ہے

جمعرات 01 جولائی 2021 چینی کمیونسٹ پارٹی ۔۔۔ یہ سو برس کا قصہ ہے

سیاسی جماعتیں ہوں یا پھر انقلابی جماعتیں ۔بہر حال ایک بات طے ہے کہ عمریں دونوں کی مختصر ہی ہوتی ہیں۔یعنی زیادہ سے زیادہ 25 سے 30 برس ۔ عموماً دیکھنے میں یہ ہی آیا ہے کہ سیاسی جماعت کو اکثر و بیشتر اُس کا بانی رہنما اور اُس کا خاندان ہی ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا کر توڑ پھوڑ ڈالتا ہے ۔ نیز کبھی سیاسی جماعت کا ناقابل عمل گنجلگ منشور پوری جماعت کو ہضم کرجاتاہے ۔ جبکہ بعض اوقات درجہ دوئم کے کارکنان ہی اپنی سیاسی جماعت کے حصے بخرے اُدھیڑ کر رکھ دیتے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ تاریخ میں ایسی سیاسی و انقلابی جماعتیں بھی بے شمار ہو گرزی ہیں کو جو بدلتے ہوئے عالمی حالات کا شکار ہوکر بہت تھوڑی مدت میں ہی زیب ِ داستان سے قصہ پارینہ ہوگئیں ۔
لیکن دنیا کی سیاسی تاریخ میں ایسا تو شاذ و نادر ہی ہوا ہوگا کہ کوئی سیاسی یا انقلابی جماعت سو برس کا سنگ ِ میل اس چابک دستی سے عبور کرنے میں کامیاب ہوجائے کہ اُس جماعت کا منشور بھی قابل عمل رہے، کارکنان بھی ہمت ،جذبہ اور جوش سے عبارت رہیں ،جبکہ تمام چھوٹے بڑے رہنما بھی باہم یک جان ہوکر اپنی جماعت کوکئی دہائیوں تک اقتدار کی مسند جلیلہ پر پوری شان و شوکت سے متمکن رکھنے کے مشکل ترین ہدف کو باآسانی پالیں ۔ سردست دنیا بھرمیں ایک ہی ایسی سیاسی یا انقلابی جماعت ہے ،جس کے بارے میں مکمل دعوی کے ساتھ کہا جاسکتاہے کہ اُس جماعت میں مذکورہ بالا تمام سیاسی و انتظامی خوبیاں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ جی ہاں! وہ غیرمعمولی سیاسی و انقلابی جماعت کوئی اور نہیں بلکہ پاکستان کے دیرنہ دوست ملک چین کی برسراقتدار جماعت چینی کمیونسٹ پارٹی ہے۔ یکم جولائی 2021 کو یہ جماعت اپنے قیام کا صد سالہ جشن اِس فخریہ انداز میں منارہی ہے کہ عالمی اقتدار کے تاج کا حصول بھی اُس سے فقط دو، چار قدم کے فاصلے کی دوری پر رہ گیا ہے۔
کمیونسٹ پارٹی آف چائنا،جسے عرف عام میں چینی کمیونسٹ پارٹی بھی کہا جاتا ہے، یہ سیاسی جماعت بلاشرکت غیرے عوامی جمہوریہ چین کی بانی جماعت کے علاوہ گزشتہ کئی دہائیوں سے اکلوتی حکمران سیاسی جماعت بھی ہے۔یاد رہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی کو 1921 میں دو جگری دوستوں’’ چیف ڈوچی ‘‘اور لی دوظو ‘‘ نے دیگر 50 ہم خیال احباب کے ساتھ مل کر قائم کیا تھا۔اپنی مدتِ قیام کے تھوڑے عرصے بعد یہ جماعت چین کے طول وعرض میں مقبول ہوگئی اور 1949 کے دوران چینی کمیونسٹ پارٹی نے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چین میں برسوں سے برسراقتدار قوم پرست، کومتانگ حکومت کو برعظیم چین سے مکمل طور پر بے دخل کر دیا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی دنیا کی سب سے بڑی مسلح افواج، پیپلز لبریشن آرمی کو بھی کنٹرول کرتی ہے۔ یا یوںکہہ لیں پیپلزلبریشن آرمی کا ہرسپاہی باضابطہ طور پر اس جماعت کا رکن ہوتاہے اور دیگر جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد پیپلزلبریشن آرمی میں شمولیت اختیار نہیں کرسکتے۔
نیز اس جماعت کو آج بھی سرکاری طور پر روسی مارکسی رہنما لینن کے وضع کردہ جمہوری مرکزیت کے اصول کی بنیاد پر منظم کیا جاتا ہے۔چینی کمیونسٹ پارٹی کا سب سے طاقت اور بالائی ادارہ قومی کانگریس کہلاتا ہے جس کا اجلاس ہر پانچ سال بعد منعقد کیا جاتا ہے۔ جب قومی کانگریس کا سیشن نہ ہو رہا ہو تو مرکزی کمیٹی کو سب سے زیادہ بااختیار سمجھا جاتا ہے۔ لیکن چونکہ تیکنیکی طور پر قومی کانگریس کا اجلاس عام طور پر سال میں صرف ایک باربلایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے زیادہ تر فرائض اور ذمہ داریاںچینی کمیونسٹ پارٹی کے ذیلی ادارے ’’پولٹ بیورو‘‘ اورا سٹینڈنگ کمیٹیوں کے پاس ہوتی ہیں۔ جن کی نیچے مستقل کمیٹیاں بھی موجود ہوتی ہیں۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کا رہنما جنرل سیکریٹری کہلاتا ہے جوتمام تر سیاسی معاملات چلانے کا کلی اختیار بھی رکھتا ہے ۔اس وقت یہ عہدہ چینی صدر جناب شی جن پنگ کے پاس ہے۔ جنہیں اکتوبر 2012ء میں میں منعقد 18 ویں قومی کانگریس میں منتخب کیا گیا تھا۔
چینی کمیونسٹ پارٹی کے آئین کے مطابق، پارٹی مارکس ازم، لینن ازم ، ماؤ زے تنگ کے فکری نظریات، دنگ شاوپنگ کے سیاسی نظریہ اور شی جن پنگ کے رہنما اُصولوں پر سختی سے عمل پیرا ہے۔ چین میں کمیونسٹ پارٹی کے سالانہ اجلاس کو ملک کی سب سے اہم سیاسی سرگرمی تصور کیا جاتا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کے 100 سال پورے ہونے کے اہم ترین موقع پر صدر شی جن پنگ سنٹرل کمیٹی کے پلینری سیشن میں چین کے مستقبل کا پندرہ سالہ ترقیاتی منصوبہ پیش کرنے جارہے ہیں۔اس پندرہ سالہ ترقیاتی منصوبہ کو صدر شی جن پنگ نے وژن 2035 کا نام دیا ہے۔اہل مغرب خاص طور پر امریکا اس منصوبے سے شدید پریشان اور خوف زدہ ہے۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ امریکی ذرائع ابلاغ کی جانب سے پروپیگنڈ اکیا جارہاہے کہ چینی صدر شی جن پنگ وژن2035 کے منصوبے کو اپنی نگرانی میں آگے بڑھانا چاہتے ہیں ۔اگر چینی کمیونسٹ پارٹی کے حالیہ اجلاس میں اس فیصلہ کی باقاعدہ توثیق کردی جاتی ہے تو پھر شی جن پنگ عملاً چین کے تاحیات صدر بن جائیں گے۔ویسے بھی چینی کمیونسٹ پارٹی نے 2018 میں صرف دو بار صدر بننے کی پابندی ختم کردی تھی اور اس طرح چینی صدر شی جن پنگ کے عہدہ صدارت پر تاحیات برقرار رہنے میں کسی بھی قسم کی آئینی یا قانونی رکاؤٹ حائل نہیں ہے۔
یہاں اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صدر شی جن پنگ کا تاحیات صدر بننا یا نہ بننا ، جب سراسر چین کا داخلی کا معاملہ ہے تو پھر آخر کیوں امریکا یا اس کے اتحادی اس حوالے سے بار بار عالمی ذرائع ابلاغ میںاپنی تشویش اور پریشانی کا اظہار کررہے ہیں؟۔دراصل مغربی مفکرین کا اجماع ہے کہ گزشتہ چند برسوں میںچینی مفادات دنیا بھر میں جس تیزی اور سرعت کے ساتھ فروغ پذیر ہوئے ہیں، اُس میں سب سے زیادہ عمل دخل صدر شی جن پنگ کے غیر معمولی تجارتی فہم، سیاسی قابلیت اور منفردسفارتی حکمت عملی کا ہے۔اس لیے وہ سمجھتے ہیں طویل عرصے تک چین میں قیادت کے تبدیل نہ ہونے سے چین کو تجارتی ،سفارتی اور عسکری معاملات میں غیر معمولی استحکام میسر آ جائے گا۔ جس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے چین کسی بھی وقت اچانک دنیا کی نئی عالمی طاقت ہونے کا باضابطہ اعلان کرسکتاہے۔
علاوہ ازیں بعض تجزیہ کاروں کو تو یہ بھی اندیشہ لاحق ہے کہ صدر شی جن پنگ اپنا اقتدار مستحکم کرنے کے بعد سب سے پہلے تائیوان کو کسی اچانک اور غیر متوقع مہم جو ئی کے ذریعے اپنے قبضہ میں کرنے کی کوشش کریںگے اور بعدازاں اُن کا اگلا ہدف بھارت کی سرحد سے متصل قدیم چینی علاقے تبت ، ہماچل پردیش، لداخ وغیرہ کو مکمل طور پر اپنے زیر نگیں لینا ہوگا ۔کیونکہ جدید چین کے عظیم رہنما ماؤزے تنگ اکثر عوامی اجتماعا ت میں سامعین کو اپنا دایاں ہاتھ کھول کر دکھاتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ ’’میری ہتھیلی تبت اورہماچل پردیش،لداخ ،سکم ،ناگالینڈ اور میزا رام انگلیاں ہیں اور یہ مٹھی اَب اُس وقت ہی بند ہوگی جب یہ سارے علاقے چین کے قبضے میں آ جائیں گے‘‘۔یاد رہے چینی سب کچھ بھول سکتے ہیں لیکن وہ کبھی بھی اپنے عظیم رہنما ماؤزے تنگ کی واضح ہدایات کو فراموش نہیں کرسکتے ۔ لہٰذا چاہے ساری دنیا اُلٹ پلٹ جائے لیکن چینی قیادت لازمی ماؤ کی زبان سے اداہوئے ایک ایک حرف کو عملی جامہ پہنا کر ہی اگلی دہائی میں قدم رکھنا چاہے گی۔تازہ ترین معروضی حالات بھی واضح اشارہ کررہے ہیں کہ چین کی جانب سے بھارت کے ساتھ اپنی متصل سرحد پر ہونے والے اچانک اور غیر معمولی نقل و حرکت کسی بھی وقت بھارتی افواج کا کڑا امتحان لے سکتی ہے۔
یکم جولائی 2021 کے بعد عالمی دنیا چین کو ایک نئے اور بہروپ میں ملاحظہ کرے گی۔ ماضی میں چین اپنی طاقت اور قوت کا اظہار فقط معاشی و تجارتی میدان میں کیا کرتا تھا۔ لیکن نیا چین اپنے حریف ممالک اور اُن کے اتحادیوں کے لیے عسکری محاذ پر بھی اَن گنت مشکلات پیدا کرتا ہوا دکھائی دے گا۔ دراصل گزشتہ پانچ ہزار سال سے دو جانور چین اور چینی قوم کی سب سے بڑی اور بنیادی شناخت رہے ہیں ۔ مثلاً معصوم ،سیدھا سادا ، گول مٹول ،ہنستا مسکرا تا ’’پانڈا ‘‘ چین کا قومی جانور کہلاتا ہے۔ جبکہ غصے سے پھنکارتا ، آگ برساتا اور آسمان کی وسعتوں میں اِدھر ،اُدھر پرواز کرتا ہوا’’ڈریگن ‘‘ چین کا مذہبی پرندہ ہے۔خوش قسمتی سے ابھی تک دنیا نے جس چین کا سامنا کیا تھا، وہ ’’پانڈا‘‘ کی عادات، اطوار اور دل موہ لینے والی خوبیوں سے مرقع تھا۔ مگر بدقسمتی سے آئندہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو ’’ڈریگن ‘‘ جیسا طاقت ور، غصیلا اور جارح مزاج چین اپنے مقابلے پر کھڑا نظر آئے گا۔ اَ ب آپ خود ہی اندازہ لگالیں کہ جو چین ’’پانڈا ‘‘ کے معصومانہ روپ میں ساری دنیا کی معیشت پر غلبہ پانے میں کامیاب رہاہے ، اَب جب کہ وہی چین ’’ڈریگن ‘‘ کی جون بدلے گا تو اُس کے سامنے کون سا حریف کتنی دیر تک ٹِک سکے گا؟۔میرے خیال میں اِس مسئلہ کی بابت ہم سے زیادہ چین کے حریفوں کو سوچنا اور فکر کرنا چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر