وجود

... loading ...

وجود

غلبہ اور زوال

بدھ 30 جون 2021 غلبہ اور زوال

جاپان ،بھارت اور آسٹریلیا کو اتحادی بنانے کے باجود ایشیا میں امریکی غلبہ زوال پذیر ہے حالات اِس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ افغانستان سے انخلا کے بعد خطے پرنظر رکھنے کے لیے کوئی ملک اڈے دینے کو تیا رنہیں قبل ازیں وسطی ایشیائی ریاستوں نے نہ صرف فضائی حدود استعمال کر نے کی جازت دی بلکہ مناسب ادائیگی کے عوض اڈے بھی دیے پاکستان نے 2001 میںگرائونڈ لائن آف کمیونی کیشن(GLOC )اور(ALOC)ئر لائن آف کمیونی کیشن کے معاہدوں کے تحت امریکا کو اپنی سرزمین پر اڈے فراہم کیے بلوچستان میں خضدار کے قریب واشک کا شمسی ایئر بیس اور سندھ میں جیکب آباد میں شہباز ایئر بیس امریکی استعمال میں رہے یہ سہولت غیر مشروط فراہم کی گئی وسطی ایشیائی ریاستوں کی طرح سہولیات کی فراہمی کے عوض مالی فوائد کا مطالبہ تک نہ کیا یہ وہ وقت تھا جب امریکا نے کبھی دہشت گردی اور کبھی جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا الزام لگاکر جس ملک کو چاہا تاراج کر دیاروس اور چین نے بھی کبھی اختلاف نہ کیا لیکن اب دنیا پر امریکی گرفت کمزور ہورہی ہے اور چاردہائیوں سے واحد سُپر طاقت کو حاصل غلبہ زوال پذیر ہے حالات اتنے نا موافق ہیں کہ کل کا اتحادی پاکستان بھی امریکا کوکوئی رعایت دینے پر آمادہ نہیں طالبان نے اڈے فراہم کرنے کی خبروں پر ناپسندیدگی ظاہر کی تو شاہ محمود قریشی نے واشگاف الفاظ میں ایسی سہولت دینے کی تردید کردی جب بے اطمنانی کا ارتعاش ختم نہ ہواتو عمران خان نے خود ایک امریکی ٹی وی ایچ بی اوکو انٹرویو دیتے ایسے کسی خیال کو بھی ارَد کر دیا جس پر دنیا بھونچکا رہ گئی کل تک ڈو مور جیسے مطالبات سے پریشان پاکستان اچانک کیسے اتنا شیر ہو گیا کہ اب سر تسلیمِ خم کرنے کی بجائے آزاد روش پر چلنے لگا ہے اِس کی وجہ امریکا کی بجائے چین پر انحصار بڑھناہے ۔
آج کا امریکا اقتصادی ،سفارتی اور فوجی حوالے سے اپنی اڑھائی سوسالہ تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے اُس کے غلبے کی مدت اتنی محدود ہوگی یہ کسی کے وہم وگمان میں نہ تھا یہ زوال معیشت تک ہی محدود نہیں فوجی برتری تک وسعت اختیارکرچکا ہے پاکستان جیسے کئی آزمودہ دوست سعودی عرب ودیگر یکے بعد دیگرے واحد سُپر طاقت سے دور ہونے لگے ہیں ایسے حالات بنانے میں امریکی حماقتوں کا بڑا ہاتھ ہے افغانستان میں بھارتی کردار کی ضد نے چین کو قبل ازوقت مقابلے پر آنے کی راہ دکھائی اور پاکستان کو بھی خفا کر دیا کیونکہ پاکستان نے اپنا مستقبل چین سے وابستہ کر لیا ہے اِس لیے اب یہ توقع کم ہی ہے کہ پاکستان اور امریکا ماضی کی طرح ایک دوسرے پر فریفتہ ہوںسی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنس گزشتہ ماہ جب خفیہ دورے پر پاکستان آئے اور آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید سے ملاقات کے دوران اڈے دینے کامطالبہ کیامگر سویلین قیادت کی طرف سے ملاقات کا وقت ہی نہ مل سکا یہ واقعہ امریکا سے پاکستان کی دوری کو واضح کرتا ہے۔
2011 کے وسط میں پاکستان نے امریکا کے زیرِ استعمال ہوائی اڈے واپس لینے کا عمل شروع کیا پہلے شہبا زایئر بیس بند کیا گیا اور مہمند ایجنسی میں ہونے والے سلالہ حملے کے بعد نہ صرف شمسی ایئر بیس کی سہولت بھی واپس لے لی بلکہ پاکستان نے امریکا پر فضائی اور زمینی راستے استعمال کر نے پر بھی پابند لگا دی اب امریکا کی کوشش ہے کہ زمینی اور فضائی کمیونی کیشن کے حوالے سے پرانے معاہدوں کو بحال کر ایا جائے لیکن کامیابی نہیں مل رہی بلکہ دونوں ممالک میں دوری بڑھتی جا رہی ہے امریکا کی طرف سے پاکستان کی فوجی تربیت و امداد پر وقتاََ فوقتاََ پابندیاں لگائی گئیں تو دفاعی استعداد میں اضافے کے لیے پاکستان نے متبادل زرائع تلاش کر لیے ہیں خدمات کے باوجود امریکی دھمکیوں نے پاکستان کو بلکل ہی متنفر کر دیا ہے دہشت گردوں کی سرکوبی کا علمبردارامریکا اڈے لیکر چین و ایران پر نظر رکھناچاہتاہے لیکن پاکستان ایسا کچھ کرنے کی اجازت دینے پر تیار نہیں کیونکہ دونوں ملک ہی پاکستان کے قریبی اور ہمسایہ دوست ہیں ہوائی اڈے نہ دینے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دینا چاہتا دوسرایہ کہ پاکستان اب طالبان کے حمایتی یا مخالف گروہوں کولڑنے کے لیے میدان فراہم نہیں کرنا چاہتا اور وہ اقتدار کا فیصلہ کرنے کا حق افغانوں کو دینے کا خواہاں ہے اور چاہتا ہے کہ افغان اپنے لسانی یا نسلی مسائل کا حل بھی خود تلاش کریںلیکن امریکی خواہش ایسی نہیں وہ کسی نہ کسی صورت میں علاقے میں موجود رہنا چاہتا ہے۔
امریکی سویلین و عسکری قیادت دبائو ڈال کر ہوائی اڈے لینا چاہتی ہے لیکن شاید اُسے معلوم نہیں کہ حالات بدل چکے ہیں چین پر ہمسایہ ممالک تکیہ کرنے لگے ہیں جو امریکی اتحاد کی طرف قدم بڑھائے اُسے چین روکنے بھی لگا ہے بنگلہ دیش پر چین اسی نوعیت کا دبائو ڈال چکا ہے جبکہ کم وبیش تین دہائیوں سے خاموش روس نے بھی عالمی کردار بڑھانا شروع کر دیا ہے اور عالمی امور میں امریکا مخالف روش پرگامزن ہے حال ہی میں جو بائیڈن اور پوٹن کے درمیان ہونے والی ملاقات میں سفیروں کی دوبارہ تعیناتی پر اتفاق کے باوجودہنوز دونوں ممالک میں ایسے کئی تصفیہ طلب امور برقرارہیں جن کی موجودگی میں افہام وتفہیم کی منزل کا حصول ناممکن ہے روس اور چین کی پالیسیوں میں اتفاق کاجیسا عنصرتو پایا جاتا ہے وہ امریکا و روس میں عنقا ہے ترکی نے امریکی مخالفت کے باوجود روس سے میزائل خریداری کے معاہدے پر نظر ثانی نہیں کی جبکہ ایران پہلے ہی خطے میں امریکا مخالف بلاک کا پُرجوش حصہ ہے جس سے ماہرین یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ امریکی غلبے کا زوال شروع ہوگیا ہے اور جلد ہی عالمی منظر نامے پر واحد زمینی سُپر طاقت کے مدمقابل ایک سے زائد نئی طاقتیں آنے کا امکان ہے۔
حامد کرزئی کے بعد اشرف غنی ایک ایسا بوجھ ہیں جنھیں مملکت کے مسائل حل کرنے سے زیادہ اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے سے دلچسپی ہے انھوں نے بھارت کی نازبرداری سے ایک طرف چین اور پاکستان کو ناراض کیا تو ساتھ ہی روس اور ایران سے اچھے ہمسائیوں جیسے تعلقات بنانے کی بھی کبھی کوشش نہیں کی اسی بنا پر افغان سرزمین نہ صرف امریکا کے لیے تنگ ہوگئی ہے بلکہ اشرف غنی کو پے درپے ناکامیوں کی وجہ سے آرمی چیف کے ساتھ داخلہ و دفاع کے وزرا کو ہٹانا پڑا ہے لیکن چین ،روس ،ایران اور پاکستان نے کٹھ پتلی حکومتوں کے علاوہ طالبان سمیت تمام گروہوں سے تعلقات بہتر رکھے اسی لیے افغانستان میں زیادہ مخالفت کا سامنا نہیںجوں جوں امریکی انخلا کی تاریخ قریب آرہی ہے افغانستان میں ہتھیارپھینکنے والوں کی تعداد بڑھ گئی ہے اور طالبان کی پیش قدمی میں اچانک اضافہ ہو گیا ہے کابل ایئر پورٹ کی حفاظت کی زمہ داری ترکی کو سونپنے کی بظاہر چال چلی گئی ہے پھر بھی امریکا کے موافق حالات ہوتے دکھائی نہیں دیتے اور افغانستان کے ساتھ امریکا کی ایشیا میں کمزور ترین پوزیشن پر منتج ہو سکتا ہے جب افغان سرزمین پر بھارت کی موجودگی چین اور پاکستان دونوں کو قبول نہیں توپھر امریکی کیوں ضد کرتے ہیں سمجھ نہیں آتی ویسے بھی بڑے قبے ، بڑی آبادی اور بڑی سپاہ کے علاوہ اُس میں کوئی خوبی نہیں بھارت وہ میمنا ہے جسے دودھ پینے کے سوا کچھ نہیں آتا پہلے روس اور اب امریکا کی طرف ہونے میں یہی خصلت کارفرما ہے بھارت کی بے جا حمایت امریکی غلبے کو زیادہ تیزی سے زوال کی گہرائیوں میں پھینک سکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر