... loading ...
سندھ اسمبلی میں پیش کیا جانے والا سال 2021-22کا بجٹ مجموعی لحاظ سے ایک بہت اچھا بجٹ قرار دیا جاسکتاہے۔کیونکہ جس طرح سے وفاقی حکومت نے اپنے محدود سائل او ر آمدن کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ٹیکس فری بجٹ قومی اسمبلی میںپیش کرکے ملکی اور غیر ملکی معاشی ماہرین سے خوب داد سمیٹی ہے بلکہ اسی مصداق سندھ حکومت بھی ایک اچھا اور متوازن صوبائی بجٹ پیش کرنے پر زبردست مبارک باد کی مستحق ہے۔ خاص طور پر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی بھرپور دلچسپی نے سندھ کے حالیہ بجٹ میں کئی معاشی اشارے اور تخمینے خوب سے خوب تر بنانے میں اہم ترین کردار نبھایا ۔ویسے بھی سید مراد علی شاہ صوبائی وزارت خزانہ کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں ، اس لیے وہ ایک اچھے بجٹ کے لیے درکار تمام ضروری لوازمات سے غیر معمولی آگاہی رکھتے ہیں۔یہ ہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ اُن کی معاشی قابلیت کی جھلک سندھ حکومت کے شاندار صوبائی بجٹ سے پوری طرح مترشح ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حالیہ صوبائی بجٹ میں ایک بار پھر سے پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے شہری سندھ بالخصوص کراچی کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی تو۔میرے خیال میں بجٹ کا یہ نقص سراسر سیاسی ہے ،جس پر سید مرادعلی شاہ کی معاشی مہارت و انتظامی قابلیت کو کسی بھی سطح پر قصور وار نہیں ٹھرایا جاسکتا۔ دراصل سندھ کے بجٹ میں کراچی کو نظر انداز کرنے یا نوازدینے کا تما م تر اختیار پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کے پاس ہے اور سچی بات یہ ہے کہ گھوڑا گھاس سے یاری کرے گا تو کھائے گا کیا۔
واضح رہے کہ کراچی کے عوام کا سب سے بڑا مسئلہ پانی ہے ۔یعنی پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں پینے کے لیے صاف پانی عنقا ہے جبکہ یہاں ڈوبنے کے لیے بارش کا پانی وافر مقدار میں دستیاب ہوتاہے۔ لیکن سندھ حکومت نے کمال ’’سیاسی چالاکی ‘‘ سے حالیہ بجٹ میں کراچی کے لیے فراہمی و نکاسی آب کی نہ تو کوئی بڑی اسکیم کا اجرا کیاہے اور نہ ہی پہلے سے جاری اسکیموں کے لیے رقم مختص کی ہے۔ بالکل اسی طرح صحت کے نظام میں بھی سندھ حکومت کسی بھی قسم کی تبدیلی لانے میں بُری طرح سے ناکام رہی ہے ۔مثال کے طور پر عباسی شہید ہسپتال کی توسیع کا منصوبہ بھی پیپلزپارٹی کے کئی بجٹ گزرنے کے بعد بھی، ابھی تک التوا کا شکار ہے۔ نیز گزشتہ13برسوں میں کراچی کے صرف ایک ہسپتال کو جنرل ہسپتال کا درجہ دیا گیاہے ۔جو لیاری جنرل ہسپتال ہے جبکہ سندھ حکومت کے سامنے اپویشن کی جانب سے بارہا یہ تجاویزپیش کی گئی تھیں کہ سرکاری ہسپتال نیو کراچی، کورنگی،لیاقت آباد اور اورنگی ٹان کو بھی جنرل ہسپتال کا درجہ دے دیا جائے لیکن سندھ سرکار کی جانب سے سندھ حکومت کے زیرانتظام چلنے والے ان ہسپتالوں کو جنرل ہسپتالوں کا درجہ دینے سے صاف ’’سیاسی انکار‘‘ کر دیا گیا ۔حد تو یہ ہے کہ محکمہ تعلیم میں کراچی کے طول عرض میں جاری پرانے منصوبے ، جن میں کئی تو نصف سے زیادہ مکمل ہوچکے تھے نیز کچھ تکمیل کے آخری مراحل میں تھے اور جن پر اَب تک کروڑوں روپے خرچ بھی ہو چکے ہیں ، بغیر کسی انتظامی وجہ کے ان پر بھی اچانک کام روک دیا گیا ہے۔ شاید پیاسے کراچی کے لیے تعلیم ایک اضافی شئے ، جس کاہونے یا نہ ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھ کے کُل ترقیاتی بجٹ کا صرف 3.2فیصد حصہ کراچی کیلئے مختص کیا گیا جسے اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔دوسری جانب سندھ کے 5 بڑے شہروں کراچی،حید رآباد، میر پو ر خا ص،سکھر اور نو اب شاہ کیلئے جو تر قیا تی اسکیمیں رکھی گئی ہے اس پر جو رقم خرچ ہو گی وہ ٹو ٹل تر قیا تی بجٹ کا صرف 15فیصد ہے ۔لیکن ضروری نہیں ہے کہ یہ 15 فیصد بجٹ بھی درج بالا 5 شہروں پر خرچ کرنے کی نوبت آئے کیونکہ سندھ حکو مت کا برسہا برس پرانا ’’سیاسی طر یقہ واردات‘‘ یہ رہا ہے کہ وہ اگرذرائع ابلاغ کو دکھانے اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے 100ارب روپے کی ترقیا تی اسکیمیں سندھ کے شہروں کے لیے صوبائی بجٹ میں مختص کرتی ہے تو اس میں سے نصف سے زیادہ ترقیاتی اسکیمیں غیر منظو ر شدہ ہو تی ہیں اور ’’ہذا من فضل ربی‘‘ وہ تمام ترقیاتی اسکیمیں ما لی سال کے اختتام تک بدستور غیر منظور شدہ ہی رہتی ہیں۔یہاں تک ان کی رقم واپس سندھ حکومت کے خزانے میں چلی جاتی ہے۔یعنی سندھ حکومت کی طرف سے پیش کئے گئے صوبائی بجٹ کے ’’سیاسی دانت‘‘ دکھانے کے لیے اور ہوتے ہیں اور کھانے کے لیے اور ۔ بدقسمتی سے کھانے والا بجٹ تو کراچی کے حصے میں کبھی آیا ہی نہیں۔
حالانکہ مقدس اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبا ئی حکو مت پا بند ہے کے وہ صوبا ئی ما لیا تی کمیشن کا اجرا کر ے۔جس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ صوبا ئی حکو مت صرف اس رقم کا بجٹ بنا سکتی ہے جس فنڈ کو وہ خو د جمع کر تی ہے۔جبکہ صوبائی حکومت اس بات کو بھی یقینی بنانے کی بھی پابند ہے کہ قومی ما لیا تی کمیشن سے حا صل ہو نے والی رقم صوبائی مالیا تی کمیشن کے ذریعے تمام اضلا ع کو یکساں بنیادوں پر منتقل کی جائے۔مگر مصیبت یہ ہے کہ چونکہ آسمانی اٹھارویں ترمیم کی اس شق کا براہ راست معاشی فائدہ شہری سیاست کو پہنچتا ہے ،اس لیے الہامی اٹھارویں کی اس شق پر عمل پیرا ہونا ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ یاد رہے کہ سندھ کے مالیاتی بجٹ کے یہ ہی وہ ’’سیاسی نقائص ‘‘ ہیں،جس کی وجہ سے سے کراچی کی عوام کو اپنا ’’سیاسی دال دلیا ‘‘چلانے کے لیے بہ امر مجبوری وفاقی بجٹ کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ خبر گرم ہے کہ حالیہ وفاقی بجٹ میں کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے لیے 739 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔جبکہ وفاقی حکومت 98 ارب روپے علحیدہ سے بھی دے گی جبکہ سرکاری و نجی شعبے کے اشتراک سے 509 ارب شامل ہوں گے۔اس کے ساتھ سندھ کے 14 سے زائد اضلاع کی ترقی کیلیے 444 ارب روپے سے 107 منصوبے مکمل ہوں گے۔اچھی بات یہ ہے کہ بجٹ تقریر میں شوکت ترین نے عندیہ دیا ہے کہ سکھر حیدرآباد موٹر وے اور سیالکوٹ کھاریاں موٹر وے پر کام شروع کردیا گیا ہے، مین لائن (ایم ایل) ون منصوبے کا آغاز جولائی میں ہوجائے گا۔اَب دیکھنا یہ ہے کہ سندھ کے صوبائی بجٹ سے راندہ درگاہ ہونے والے اہالیانِ کراچی وفاقی حکومت کے بجٹ سے کس قدر معاشی فیض پاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔