... loading ...
ایران کے صدارتی انتخاب میںابراہیم ریئسی کی کامیابی توقعات و اندازوں کے عین مطابق ہے راقم نے بھی اٹھارہ جون کے انتخابی عمل کے نتائج کی سولہ جون کو انھی صفحات پر نشاندہی کر دی تھی انیس جون شام کواعلان کیے گئے نتائج کے مطابق نئے صدر نے ڈالے گئے ووٹوں کا باسٹھ فیصد حاصل کیا یہ اِتنا نمایاں فرق ہے کہ کسی کو جیتنے والے پر اُنگلی اُٹھانے کی جرات نہیں ہوئی بلکہ ہارنے والے امیدواروں نے شکست تسلیم کرتے ہوئے نو منتخب صدر کو کامیابی پر مبارکباد دی ہے امریکا نے صدارتی انتخاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابی نتائج منصفانہ نہیں اسی طرح اسرائیل نے ابراہیم ریئسی کی کامیابی کے بعددنیا سے ایران کے جوہری پروگرام کو فوری طور پر روکنے کے عزم کی ضرورت پر زور دیا ہے یہ تنقید حیران کُن نہیں پھر بھی نئے صدرکو احتیاط سے چلنا ہوگا کیونکہ ملکی حالات کے تناظر میں مزید غلطیوں کی گنجائش کم ہے نو منتخب صدرملک کے سپریم لیڈر خامنہ ای کے اہم ساتھی ہیں ایران کی اندرونی صورتحال پر نظر رکھنے والے ابھی سے کہنے لگے ہیں کہ وہ ملک کے آئندہ سپریم لیڈر ہو سکتے ہیں بحرحل جب وہ اگست میں صدارتی زمہ داریاں سنبھالیں گے تو انھیں مسائل کا پہاڑ عبور کرنا ہو گا امریکا سے جوہری معاہدے کی بحالی ،عالمی پابندیوں اور معاشی بحران جیسے چیلنجز کا سامنا کر نا ہوگا ۔
ملک میں اصلاح پسند یعنی لبرل اور سخت مذہبی رجحان رکھنے والوں میں کھینچا تانی بڑھتی جارہی ہے لیکن ایسے لگتا ہے کہ حکمران طبقے کو اِس کی خاص پرواہ نہیں ایرانی قوانین میں کسی کو سزا دینے کی کافی گنجائش ہے اور کسی کو بھی سزا دینا بہت آسان ہے جب کو ئی ناقد ہو تو قانون میں مزید گنجائش بن جاتی ہے سزا دیتے ہوئے سیاسی ناقدین کے ساتھ صحافیوں سے بھی نرمی روا نہیں رکھی جاتی ابراہیم ریئسی جیسے سخت گیر رہنما کے صدر منتخب ہونے سے خدشہ ہے کہ سزا دینے کا عمل مزید تیز اور سخت ہوگا کیونکہ نو منتخب صدر خود کوانقلاب کے محافظ سمجھتے ہیں اسی لیے نو منتخب صدر کواندرونی یا بیرونی تنقید کی خاص پرواہ نہیں ہوگی بلکہ وہ سب سے پہلے ایران کی پالیسی اپناکر مخالفین کا ناطقہ بند کر سکتے ہیں لیکن انھیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ملک میں بڑھتی غربت و بے روزگاری پر قابو پانے کے لیے عالمی تعاون ناگزیر ہے محض چین کی بھاری سرمایہ کاری سے فوری حوصلہ افزا نتائج برآمد نہیں ہو سکتے بلکہ عالمی تعاون سے ذیادہ بہتر انداز میں مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے گزشتہ چند برسوں سے غربت و بے روزگاری کے ساتھ ملک میں بے گھرافراد کی تعداد میں بھی خوفناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے لوگ قبرستانوں اورشاہراہوں پر سونے پر مجبور ہو چکے ہیں روزگار کے ساتھ بے گھروں کو چھت دینا نئی قیادت کی صلاحیتوں کا امتحان ہوگا ۔
نو منتخب صدر ابراہیم ریئسی نے پہلی پریس کانفرنس میں امریکی صدر جوبائیڈن سے نہ صرف ملاقات کی خواہش سے انکار کیا ہے بلکہ میزائل پروگرام اور خطے کے عسکری گروپوں کی حمایت پر لچک ظاہر کرنے کا عندیہ بھی نہیں دیا مگر ساتھ ہی جو بائیڈن کو جوہری معاہدے میں شمولیت کا مشورہ دیتے اور پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہیں یہ مسائل ملے اور بات چیت کیے بغیر کیسے حل ہوں گے ؟ اِس کا جواب نومنتخب صدر ہی دے سکتے ہیں اختلافی امور کو حل کرنے کے لیے ملاقاتیں اور مزاکرات کی اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا اسی لیے مبصرین کہتے ہیں کہ ایران کو رویے میں لچک پیدا کرنا ہوگی وگرنہ ملک کودرپیش اندرونی خلفشار کا نہ صرف سامنا ہو سکتا ہے بلکہ بیرونی دبائو بھی کم نہیں ہو گا چین پر بڑھتا ایرانی انحصار ایک حد تک ہی عالمی تنہائی سے نکال سکتا ہے معاشی مسائل کے حل کے لیے دنیا سے تجارتی روابط بڑھانا اشد ضروری ہے لیکن طریقہ کار کیا اختیار کرناہے یہ طے کرنا نئی قیادت پر منحصر ہے ۔
سعودی عرب سے ایرانی تعلقات روز بروز بہتر ہورہے ہیں اور موجودہ صدر حسن روحانی کی طرح ابراہیم ریئسی بھی اِس حوالے سے پُرعزم ہیں اور دونوں ممالک میں تعلقات کی بحالی میں کوئی رکاوٹ نہیں دیکھتے جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ریاض اورواشنگٹن میں دوریاں پیدا ہونے لگی ہیں اورایران نئی صورتحال سے فائدہ اُٹھانا چاہتا ہے انسانی حقوق کے حوالے سے سعودیہ کو امریکی تنقید کا سامنا ہے بلخصوص ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان کافی دبائو میںہیںملک میں کئی تبدیلیوں کے باوجود وہ ابھی تک مغرب اور امریکا کی طرف سے تنقید کا ہدف ہیں شاید یہی نکتہ ایران کو سعودیہ سے قربت کا باعث بنا ہے اور دونوں ممالک کدورتیں ختم کرکے باہمی مسائل حل کرنے کے لیے لچک کا مظاہرہ کرنے لگے ہیں لیکن خطے میں عسکری گروپوں کی حمایت کے خاتمے یا کمی تک دونوں ممالک میں قریبی تعاون یا گرمجوشی پر مبنی تعلقات قائم ہونا مشکل ہے اِس لیے جب ابراہیم ریئسی سعودیہ سے تعلقات کی بحالی میں کسی قسم کی رکاوٹ دیکھنے سے انکاری ہیں تو انھیں یمن کے حوثیوں کے حوالہ سے سعودی تحفظات کو دور کرنا ہوگا اور باغیوں کی سرپرستی میں کمی کرنا ہو گی وگرنہ بگاڑ کا احتمال رہے گااور کسی وقت بھی بہتر ہوتے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیںسعودی عرب اور خلیجی ممالک عسکری گروپوں کی حمایت سے خطرہ محسوس کرتے ہیں اِس لیے سعودی عرب اور خلیجی ممالک سے تعلقات اور عسکری گروپوں میں سے ایران کو ایک کا نتخاب کرنا ہوگا صرف خواہش ظاہر کرنے سے تعلقات بہتر نہیں ہوسکتے بلکہ عملی طور پر بھی اخلاص کا یقین دلانا پڑتا ہے خطے میں نئے دوست بڑھانے کا عزم مستحسن، مگر ہمسایوں سے چپقلش ختم کرنا ذیادہ سود مند ہو سکتا ہے اِس کا نئی قیادت کو ادراک کرنا چاہیے۔
ایرانی ووٹروں کی توقعات پر پورا اُترنے کے لیے نئی قیادت کا امتحان شروع ہو چکا ہے حسن روحانی باوجود کوشش کے ملک کو معاشی گرداب سے نہیں نکال سکے پھر بھی امریکا سے سلسلہ جنبانی بحال کر نا اور سعودیہ سے روابط بڑھانا اُن کا بڑا کارنامہ ہے ملک کو درپیش اندرونی خلفشار و بیرونی معاشی پابندیاں ایسے مسائل ہیں جن کا نئی قیادت کو تدارک کرنا ہوگا نئے صدرکو عالمی پابندیوں کے خاتمے کے لیے سخت گیر رویے میں نرمی لانا ہو گی چند ایک ممالک کی طرف سے تفقید کا سامنا ہو سکتا ہے لیکن زیادہ تر ممالک نے نئی قیادت کوانتخاب جیتنے پر مبارکباددی ہے قیادت کا حق ایرانی ووٹروں کا حق ہے لیکن ووٹروں کے اعتماد کو درست ثابت کرنا قیادت کی زمہ داری ہے جس کے لیے ہمسایہ ممالک سے خوشگوار مراسم ضروری ہیں دستِ تعاون بڑھانے کا عندیہ دینے والے ممالک کا اعتماد بحال کرنا ترجیح بنانا ہوگی اب یہ نئی قیادت کا امتحان ہے کہ بڑھے دستِ تعاون سے کیسے فائدہ اُٹھانا اور ہمسایوں کا اعتماد کیسے بحال کرناہے؟ نئی قیادت کے لیے مثبت پہلو یہ ہے کہ ہمسایہ ممالک نے نئے انتخاب پر خوشی کا ظہار کرتے ہوئے مبارکباد ی پیغام بھیجے ہیں اگر نئے صدر نے جذبات و ہیجان سے نکل کر مسائل کو دیکھا تو یہ ایرانی عوام کے لیے سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔