... loading ...
1982ء میں ماہرِ معاشیات مینکر اولسن ایک معمہ سلجھانے کے لیے نکلے۔ جاپان اور مغربی جرمنی دوسری جنگ عظیم میں تباہ و برباد ہو گئے تھے مگر اس کے بعد دونوں ممالک نے حیرت انگیز معاشی ترقی کی۔ دوسری طرف برطانیہ جنگ میں فاتح ٹھہرا تھا، اس کے تمام ادارے محفوظ اور اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہے مگر جنگ کے خاتمے کے بعد اس کی معاشی ترقی سست پڑ گئی جس کی وجہ سے وہ دیگر یورپی ممالک سے پیچھے رہ گیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ اپنی کتاب ’’The Rise and Fall of Nations‘‘ میں اولسن نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جرمنی اور جاپان نے حیرت انگیز ترقی اس لیے کی کیونکہ ان کا پرانا نظام یکسر تباہ ہو گیا تھا۔ یہ تباہی بذاتِ خود اور امریکا کی قابض فوجوں کی موجودگی دراصل ان تمام مفاداتی گروہوں کو نابود کرنے کا باعث بنی جو جدت کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ نئے تجربات کرنے کی راہ میں حائل ہونے والے تمام پرانے وتیرے خس و خاشاک کی طرح بہہ گئے اور جنگ کی تباہ کاری نے نئے تجربات کی راہ ہموار کر دی۔
کچھ ا س سے ملتی جلتی صورتِ حال آج بھی ہمارے سامنے ہے۔ کووڈ نے جس طرح امریکی طرزِ زندگی کو ہلا کر رکھ دیا ہے اس کی مثال ماضی کے کسی بحران میں نہیں ملتی مگر اس نے بہت سی حقیقتوں کو نئے انداز میں بھی اجاگر کیا ہے جس سے معاشی ترقی اور سماجی احیا کے راستے ہموار ہو گئے ہیں۔ لاکھوں کروڑوں امریکی شہریوں کو کورونا کی عالمی وبا کے دوران شدید معاشی نقصان اور انزائٹی کا سامنا کرنا پڑا ہے مگر عوام کی ایک بڑی اکثریت نے اس وقت کو اپنے آپ کو بدلنے اور نئے تقاضوں کے مطابق تیارکرنے کے لیے بھی استعمال کیا ہے تاکہ جونہی زندگی اپنی پرانی ڈگر پر آئے تو وہ نئے مواقع کی تلاش میں تیزی سے اس میں دوبارہ شامل ہو جائیں۔
پچھلے کئی عشروں سے امریکا میں کاروباری سرگرمیاں سست رفتاری سے جاری تھیں مگر 2020ء میں یہاں 4.4 ملین نئے بزنس شروع ہو جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔ Udemy ایک آن لائن کورس کروانے والا ادارہ ہے‘ اس کا کہنا ہے کہ 2019ء میں 14 فیصد امریکیوں نے کوئی اضافی ٹریننگ لی تھی مگر 2020ئ میں 38 فیصد امریکی ورکرز نے کوئی نہ کوئی اضافی ٹریننگ لی ہے۔ سالہا سال سے بچتوں کے بجائے اخراجات کرنے کی ترجیحی روایت چل رہی تھی مگر 2020 میں امریکی شہریوں نے کھربوں ڈالرز اپنے قرضوں کا بوجھ کم کرنے کے لیے مارکیٹ میں جھونک دیے ہیں۔ ایسا 1980ء کے بعد کبھی نہیں دیکھا گیا تھا اور اب وہ اس قابل ہو گئے ہیں کہ جیسے ہی زندگی کی سرگرمیاں بحال ہوں وہ کھلے دل سے خریداری کر سکیں۔ شاید سب سے بڑی تبدیلی عوام کے ذہنوں میں آئی ہے۔ لوگوں میں یہ احساس بڑی شدت سے جاگزیں ہو گیا ہے کہ انسان کی زندگی نہایت مختصر ہے۔ پچھلے ایک سال سے عوام کی اکثریت ایک سست رفتار زندگی گزار رہی ہے جس میں ان کی گھریلو تعلقات کی جڑیں بہت گہری ہو گئی ہیں۔ کروڑوں امریکی اب ایسی زندگی گزارنے کے لیے تیار نظرآتے ہیں جو سماجی اقدار کے ساتھ جڑی ہوئی ہو۔ معیشت بھی اب اڑان بھر چکی ہے۔ اس سال عالمی معاشی ترقی 6 فیصد سے زائد رہنے کی توقع کی جا رہی ہے اور 2022ء میں یہ شرح اس سے بھی زائد رہنے کی امید ہے۔ ٹام گنبل‘ جو لاسال نیٹ ورک کے نام سے ا سٹاف کی بھرتی کرتے ہیں‘ نے اپریل میں دی ٹائمز کو بتایا تھا کہ ’’یہ گزشتہ 25 سال کے دوران کی بہترین جاب مارکیٹ ہے۔ کووڈ سے پہلے کے مقابلے میں ہمارے پاس 50 فیصد زیادہ ڈیمانڈز ہیں‘‘۔ سرمایہ کار دھڑا دھڑ نئے بزنس میں سرمایہ لگا رہے ہیں۔ اس سال کی پہلی سہ ماہی میں نئے بزنس میں 69 بلین ڈالرز آئے ہیں جو 2018ء میں بننے والے ریکارڈ سے 41 فیصد زیادہ ہے۔
ہم پہلے ہی یہ دیکھ رہے ہیں کہ جدت کے اس نئے دو رمیں سوسائٹی تین طریقوں سے اپنے توازن کو از سر نو ترتیب دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ اول: اب طاقت کا سرچشمہ آجر سے ورکر کی طرف شفٹ کر گیا ہے، مثال کے طور پر اس سال مارچ میں امریکی مینوفیکچرنگ جس تیزی سے بڑھی ہے اس کی پچھلی چار دہائیوں میں مثال نہیں ملتی۔ کمپنیاں نئے ورکرز کے لیے ماری ماری پھر رہی ہیں۔ اپریل 2020ء اور مارچ 2021ء کے دوران بیروزگاری کی شرح 5 فیصد سے کم ہو کر صرف 1.2 فیصد رہ گئی ہے۔ اب ورکرز ڈرائیورنگ سیٹ پر براجمان ہیں اور انہیں اس بات کا بخوبی ادراک بھی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران آج ملازمتیں چھوڑنے والوں کی شرح اپنے عروج پر ہے کیونکہ ورکر کو یہ اعتماد ہے کہ انہیں اس سے بہتر ملازمت مل جائے گی۔ سرمایہ کار اپنے ورکرز کو واپس بلانے کے لیے معاوضے میں اضافے کے ساتھ ساتھ دیگر مراعات بڑھانے کا لالچ بھی دے رہے ہیں۔
دوم: اب شہروں اور نواحی قصبات میں بھی ایک نیا توازن جنم لے رہا ہے۔ کووڈ نے ایک نیا ٹرینڈ دیا ہے کہ اب لو گ نیویارک اور سان فرانسسکو جیسے شہروں کو چھوڑ کر ہڈسن ویلی جیسے دیہی مقامات کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔ اکثریت تو ملازمت کے حصول کے لیے جا رہی ہے مگر دوسرے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ ایسا اس لیے کررہے ہیں کہ ان کے لیے زیادہ مواقع اورگنجائش پیدا ہو، وہ ایک سست رفتار زندگی گزار سکیں، وہ اپنے آبائی علاقوں میں اپنے خاندان کے قریب رہ سکیں اور اپنے قریبی ہمسایوں کے ساتھ باہمی تال میل بڑھا سکیں۔
سوم: اب ملازمت اور گھریلو زندگی میں بھی ایک نیا توازن قائم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ سٹین فورڈ کے اکانومسٹ نکولس بلوم کو امید ہے کہ اب جبکہ کووڈ اپنے آخری دموں پر ہے‘ اس سے پہلے صرف 5 فیصد لوگ گھر پر رہ کر کام کرتے تھے‘ اب یہ تعداد بڑھ کر 20 فیصد ہو جائے گی۔ اگرچہ اس سے بہت سی خواتین پر دبائو بڑھ گیا ہے، لاکھوں امریکی شہری‘ جو دفاتر سے دور رہ کر بھی کام کر سکتے ہیں‘ اب یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں گھر پر رہ کر کام کرنا، رات کے وقت اپنے بچوں کے ساتھ مل کرکھانا کھانا اچھا لگتا ہے اور وہ سفری تکالیف سے بھی بچ جاتے ہیں۔ اب ہمارا کام کا جنون دھیما پڑتا جا رہا ہے اور گھریلو زندگی میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔
1910ء میں ماہر تعلیم ہنری وین ڈائک نے لکھا تھا ’’یورپ امریکی جذبات کو انرجی یعنی توانائی کے حوالے سے جانتا ہے‘‘۔ حالیہ برسوں میں یہ توانائی معدوم پڑتی جا رہی تھی کیونکہ اب امریکی نقل وحرکت کرنے اور نئے بزنس شروع کرنے سے گریز کر رہے تھے مگر کووڈ نے اس تحرک، نقل وحرکت اور جدت پسندی کو پھر سے بحال کر دیا ہے۔ حال ہی میں لیبر کی پیداواری شرح میں خاطر خواہ اضافہ ہوگیا ہے۔ اب امریکی شہری اپنی فیملی کے ساتھ رہتے ہوئے دولت کمانے کے نت نئے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں۔ چیپ مین یونیورسٹی کے پروفیسر آف اربن ا سٹڈیز جوئیل کاٹکن نے نشاندہی کی ہے کہ جوں جوں امریکی آبادی بکھر اور پھیل رہی ہے امریکا کے ساحلی اور اندرونی شہروں میں حائل معاشی اور ثقافتی خلیج مزید سکڑتی جائے گی۔ جب زیادہ سے زیادہ تارکین وطن دیہی علاقوں میں آباد ہو ں گے، ان کی موجودگی سے مقامی لوگوں کو ترجیح دینے کی روایت ماند پڑ جائے گی تو ایک معاشی مسابقت دیکھنے کو ملے گی۔ عوام کی ذاتی زندگی اب تنہائی اور اپنی کمیونٹی سے دوری جیسے عمومی مسائل کی طرف متوجہ ہو رہی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ دریافت کا یہ قومی سفر ہمیں کہاں لے جائے گا مگر اب یہ سفر شروع ضرور ہو چکا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔