... loading ...
ایک مشہور مقولہ تو یہ ہے کہ عوام کو وہی حکومت ملتی ہے، جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں۔ مگر کیا ایسی بھی حکومت!!1947 ء میں ہم اچھے بھلے چلے تھے، ہمارے قائد کردار میں ہمالہ کی بلندیوں کو چھوتے تھے۔ اُن کی گفتگو میں عہدِ آئندہ کی چاپ سنائی دیتی تھی۔ مگر پھر کیا ہوا؟ ہمارا واسطہ کن لوگوں سے آ پڑا؟ یہ بھی کوئی انتخاب ہے،جو پرویز مشرفوں ، زرداریوں ، شریفوں اور عمران خانوں کے درمیان کرنا پڑے؟ ملک کی دانش کو شاید لقوہ ہو گیا ہے جو ان رہنماؤں کے مابین انتخاب کی لڑائی میں جمہوریت اور آمریت کی خوشنما بحثیں چھیڑتے ہیں۔ افسانوی استعارے ڈھونڈتے ہیں۔ نئے نئے اسالیب تراشتے ہیں۔ آخر ان میں فرق کیا ہے؟ یہ ایک دوسرے کے مقابل مگر ایک جیسے لوگ ہیں۔ ان میں فرق اہداف کا نہیں بس طریقۂ کار ہے۔ اُن دانشوروں پر ترس کھانا چاہئے جو ان کے درمیان خود کو تقسیم کرتے ہیں، اور اپنی دانش کو صرف کرتے ہیں۔
ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور قادر مندوخیل کی لڑائی ابھی حافظوں سے محو نہ ہوئی تھی کہ پارلیمنٹ مچھلی بازار بن گیا۔ شاعر اور ڈراما نگار شیرڈن کبھی برطانوی پارلیمنٹ کا حصہ رہا تھا۔ ایک دفعہ پارلیمنٹ کے ماحول سے اُکتا کر بولا: ایوان کے آدھے ارکان گدھے ہیں۔
اس پر ایک نیا ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ ایوان زیریں کے ارکان نے اسے اپنی توہین سمجھتے ہوئے معافی کا مطالبہ داغ دیا۔شیرڈن کے ہاں طنز کمال کا تھا، کھڑا ہوا اور کہا: میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں، ایوان کے آدھے ارکان گدھے نہیںہیں”۔ شیرڈن ہماری پارلیمنٹ میں ہوتا تو کیا کہتا؟ معلوم نہیں آدھے کا تکلف گوارا بھی کرتا یا نہیں۔کیا یہ وہ لوگ ہیں، جو قوم کی نمائندگی کرتے ہیں؟دانشور بحث یہ کررہے ہیں کہ حکومت نے اپوزیشن والے تیور اختیار کرلیے۔ حالانکہ حکومت کارویہ ایوان کو چلانے کے لیے مناسب ماحول کی فراہمی ہوتا ہے۔ وہ ایوان کی کارروائی چلانے کے لیے قدرے وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپوزیشن کو بہلائے رکھتی ہے۔ اس کے برعکس حکومت نے خود اپوزیشن کے تیور اختیار کرلیے۔ وہ اپوزیشن کی اپوزیشن بن کر سامنے آگئی۔ سوال یہ ہے کہ ان تمام میں حکومت اور اپوزیشن کا فرق کتنا دکھائی دیتا ہے۔ یہی لوگ کبھی ایک صف میں تو کبھی دوسری صف میں دکھائی دیتے ہیں۔ عمران خان کی تحریک انصاف سے وابستہ ارکان ان ہی جماعتوں سے آئے ہیں۔ یہ مسئلہ جماعتی فرق سے مختلف نہیں ہوتا۔ نہ یہ ارکان حکومت یا اپوزیشن کی تفریق میں خود کو مختلف بنا پاتے ہیں۔ضروری نہیں کہ جو آج یہاں سے گالی دے رہا ہے، کل بھی یہیں دکھائی دے، وہ کل وہاں بیٹھ کر یہاں کے لوگوں کو گالی دے سکتا ہے۔ افتخار عارف موسم اور انسانوں کے مزاج کے اس رمز کو تو بیان کررہے ہیں :۔
یہ بہ ہر لحظہ نئی دھن پہ تھِرکتے ہوئے لوگ
کون جانے کہ یہ کب تیرے ہیں کب تیرے نہیں
ْ پی ٹی آئی کی اُٹھان ایک خاص ماحول میں ہوئی ہے۔ مگر گالیوں کی ثقافت صرف اُسی کا طرہ امتیاز نہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا نواز لیگ بے نظیر بھٹو کے متعلق کس طرح زباں دراز رہی۔ تب ہمارے شیخ رشید نواز شریف کی ضرورت تھے۔ اُن کے فحش اور ذومعنی فقرے بے نظیر بھٹو کو اسمبلی میں تنگ کیے رکھتے۔ آج رانا ثناء اللہ کو ہم نواز لیگ کے لشکر میں دیکھتے ہیں، کبھی وہ پیپلزپارٹی کے پیارے ہوتے تھے، اُن کے شریف خاندان اور خود محترمہ مریم نواز کے متعلق ماضی کے الفاظ سنیں تو باحیا لوگ کانوں کو ہاتھ لگالیں۔یہ صرف رانا ثناء اللہ تک موقوف نہیں۔ ارکانِ اسمبلی کی اکثریت دُہرے کرداررکھتی ہے یا پھر ماضی کے بوجھ تلے دبی ہے۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ یہ لوگ پارلیمنٹ کا حصہ بنائے جانے کے لیے کیا معیار رکھتے ہیں؟ ایک سادہ انتخابی عمل جسے سرمائے کے منتر پر حرکت دیا جاتا ہے۔ ہر چیز خرید کر اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا جاتا ہے۔ ایک ناقابل اعتبار نظام سے کبھی قابل اعتبار بندوبست حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ مسئلہ صر ف آمریت کا نہیں یہاں جمہوریت کا بھی ہے۔ یہ قوم آمرانہ دور میں جمہوریت اور جمہوری دور میں آمریت کی دعائیں مانگنے لگتی ہے۔ حالانکہ ان تمام نظاموں سے ایک جیسے ہی لوگ برآمد ہوتے ہیں۔ پھر کسی بھی نظام میں فریقین بھی ایک ہی جیسے ثابت ہوتے ہیں۔ اس عمومی کیفیت میں کسی بندوبست کی محبت میں مبتلا ہونا درحقیقت ایک قومی جُرم جیسا دکھائی دیتا ہے۔
پی ٹی آئی کے ارکان درحقیقت نواز لیگ ، پیپلزپارٹی اور مشرفی بندوبست کی اولادیں ہیں۔ یہ تمام جماعتیں ایک داغدار ماضی رکھتی ہیں۔ نوّے کی دہائی کی سیاست نے ہمیں آج کا یہ انگڑ کھنگڑ اور کاٹھ کباڑ دیا ۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے جو اتحادی سیاست کی گئی اس میں شامل تمام جماعتوں نے اپنے بہترین کو نہیں بدترین کو اُبھارا۔ جب قومی سیاست کی بنیادی قدر ایسے کردار کی تلاش ہو جس میں زیادہ بڑا غنڈہ اور زیادہ بڑا شر انگیز انتخاب میں ترجیح پاتا ہو، تو پھر پارلیمان میں ایسے ہی مناظر نظر آئیں گے۔ ہم اکثر اس کی توجیہہ یا توضیح یہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ جیسا معاشرہ ویسی اسمبلی یا پھر جیسے عوام ویسی حکومت۔ مگر پاکستان میں یہ توجیہہ بھی پوری طرح درست نہیں۔ یہ بغیر غوروفکر کے محض پامال فقروں (کلیشے) سے معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش ہے۔ درحقیقت پاکستان میں نمائندگی کا کوئی بھی نظام نمائندگی کے لیے قابل اعتبار نہیں۔ یہاں کوئی بھی نظام ایسا نہیں جوواضح طور پر رائے عامہ کی درست نمائندگی کرسکے۔ یہ جبر، حرص اور مخصوص بندوبست سے پہلے سے طے شدہ افراد کومسلط کرنے کاانتہائی کنٹرولڈ نظام ہے۔ اس میں جن افراد کو آگے بڑھایا جاتا ہے اُن کا کردار مسلمہ اخلاقی اُصولوں کا آئینہ دار نہیں ہوتا۔ بلکہ ان افراد کا معیار ہی یہ ہوتا ہے کہ اُن کا کوئی معیار نہیں ہوتا۔ تاکہ مفادات کے اس پورے کھیل میں جس قسم کی فضا درکار ہو، افراد بھی ویسا ہی کردار ادا کرسکیں۔ تین دن اسمبلی میں بُرے دکھائی دینے والے بچے ایک دن بالکل اچھے بچوں کی طرح دکھائی دینے لگے۔ کیایہ چابی بھرے کھلونے ہیں؟ درحقیقت یہ رویہ ہمارے نمائندہ طرزِ انتخاب کے اُن امراضِ خبیثہ کی نشاندہی کرتا ہے جس میں عوام کو بہتر اور بدتر کے بجائے بدترین میں سے اپنے لیے مناسب بدتر کا انتخاب دیتا ہے۔ پھر یہ انتخاب بھی اگر مخصوص طاقتوں کی مرضی کے مطابق نہ ہوتو اسے تبدیل کرنے کے طور طریقے موجود ہوتے ہیں۔ اس نظام کی یہ ساری غلاظت اسمبلی میں مختلف شکلوں میں دکھائی دیتی ہے۔ اسے حکومت یا اپوزیشن کی صفوں میں بانٹ کر دیکھنے کی ضرورت نہیں۔
وزیراعظم عمران خان ایک یاسیت اور یبوست زدہ ماحول میں نرگسیت کی شکار شخصیت ہے۔ اپنی ذات کی گھمن گھیری میں میں وہ صحیح اور غلط کی تشریح کرتے ہیں۔ اُن سے یہ بعید نہیں تھا کہ وہ وزیراعظم منتخب ہو نے کے بعد اپوزیشن کی جانب سے اُنہیں تقریر سے روکنے کا انتقام نہ لیتے۔ وہ آج بھی اس غم میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں کہ قومی اسمبلی میں اُنہیں خطاب کیوں نہیں کرنے دیاجاتا۔ وہ موجودہ بندوبست کو بچانا بھی اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے۔ اس ماحول میں وہ اپنی حکومت کو اپوزیشن کی اپوزیشن بنائے پھرتے ہیں۔ اُنہیں لعن طعن کرنے والے عزیز ہیں۔ اُن کے گرد ایسے لوگ زیادہ پزیرائی پاتے ہیں جو سیاسی مخالفین کے لیے گرم گفتار ہو۔چنانچہ کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومتی بینچوںسے یہ تماشا کیوں لگا۔ درحقیقت یہ ہلڑ بازی فریقین کے فرق کو نہیں بلکہ ان کے درمیان کوئی فرق نہ ہونے کو ظاہر کرتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭