وجود

... loading ...

وجود

دو ویکسین کے امتزاج سے علاج

اتوار 20 جون 2021 دو ویکسین کے امتزاج سے علاج

جب کووڈ پھیلا تو یہ واضح نہیں تھا کہ کیا ریسرچرز اس کی سنگل ڈوز ویکسین بنا پائیں گے مگر حیران کن طور پر اب مختلف قسم کی ویکسینز کی مدد سے امیونٹی کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک تو ویکسین کی سپلائی یقینی نہیں ہوتی اور اوپر سے ایک ویکسین کے استعمال سے خون میں کلاٹ بننے کے رسک کے بعد اب دنیا کے مختلف ممالک میں پبلک ہیلتھ کے حکام نے کووڈ کی مختلف ویکسینز کو ملا کر لگانے کے حوالے سے نئی گائیڈ لائنز جاری کر دی ہیں، مثال کے طور پر کینیڈا کی نیشنل ایڈوائزری کمیٹی برائے امیونائزیشن نے اپنی گائیڈ لائنز کو اَپ ڈیٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جن لوگوں نے پہلی ڈوز ا?سٹرازینکا کی لگوائی ہے وہ دوسری ڈوز بھی اسی کی یا اس کے بجائے فائزر کی یا ماڈرنا کی بھی لگوا سکتے ہیں۔ کمیٹی نے یہ بھی کہا ہے کہ فائزر اور ماڈرنا کو پہلی اور دوسری ڈوز کے طور پر بھی لگوایا جا سکتا ہے۔ فرانس سے فن لینڈ اور چین سے بحرین تک‘ تمام ممالک نے دو مختلف ویکسینز کو ملا کر لگانے کے بارے میں گائیڈ لائنز جاری کر دی ہیں۔ سنٹرز فار ڈیزیزز کنٹرول اینڈ پریوینشن نے بھی عبوری گائیڈ لائنز جاری کر دی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ہنگامی صورتِ حال میں اگر ایک ویکسین کی دونوں ڈوز دستیاب نہ ہوں تو دوسری ڈوز کسی مختلف ویکسین کی بھی لگائی جا سکتی ہے۔ یہ گائیڈ لائنز پریشان کن بھی ہو سکتی ہیں خاص طور پر جب پہلی گائیڈ لائنز میں دونوں ڈوز ایک ہی ویکسین کی لگوانے کے لیے کہا گیا ہو۔
کیا دو مختلف ویکسینز کو ملا کر لگانا محفوظ رہے گا، نیز یہ کہ کیا دو مختلف ویکسین لگانا زیادہ مفید ثابت ہو سکتا ہے؟ حال ہی میں 26 لوگوں پر ایک نئی سٹڈی کی گئی ہے جنہوں نے پہلی ڈوز ا?سٹرازینکا کی لگوائی تھی اور دوسری ڈوز فائزر کی لگوائی تھی۔ ان لوگوں کے خون کے ٹیسٹ کیے گئے تو پتا چلا کہ ان لوگوں کا امیون سسٹم بھی اتنا ہی طاقتور تھا جتنا ان لوگوں کا تھا جنہوں نے دونوں ڈوز فائزر کی لگوائی تھیں۔ نیشنل انسٹیٹیوٹ ا?ف ہیلتھ نے حال ہی میں کلینکل ٹرائلز شروع کیے ہیں جن میں کووڈ کی مختلف ویکسینز کے امتزاج کے نتائج کا جائزہ لیا جائے گا۔ برطانیہ میں آسٹرازینکا اور فائزر کے امتزاج کا ٹرائل پہلے ہی ہو رہا ہے اور ریسرچرز نے اس کے سائیڈ ایفیکٹس کے بارے میں ابتدائی ڈیٹا جاری بھی کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جن لوگوں نے دوسری ڈوز پہلی سے مختلف لگوائی تھی‘ ان میں بخار، سردی لگنے، تھکاوٹ اور سر درد کی شکایا ت ملی ہیں۔ جن لوگوں نے ایک ہی ویکسین کی دونوں ڈوز لگوائی ہیں ان میں کوئی سائڈ ایفیکٹ نہیں ملا۔ کیا اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ دو مختلف ویکسینز سے امیون سسٹم زیادہ متحرک ہو جاتا ہے اور زیادہ تحفظ ملتا ہے‘ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے تاہم اسی مہینے مزید نتائج آنے کی توقع ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ سائنسدانوں نے ویکسین کی ڈوز کے بارے میں غیر روایتی انداز میں تحقیق کی اور نہ ہی اس سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ تحقیق بعض وائرسز کے خلاف ہماری بہترین امید بھی بن سکتی ہے۔
گزشتہ دو عشروں کے دوران جب ویکسین کے بارے میں نئی نئی ٹیکنالوجی سامنے آئی ہے ایک ہی وائرس کے خلاف مختلف ویکسین کے استعمال کا ا?ئیڈیا تقویت پکڑ رہا ہے۔ سائنسدانوں نے اسے ہیٹرو لوگس پرائم بوسٹر کا نام دیا ہے اور اسے ایبولا، تپ دق اور کینسر کے خلاف ویکسین کی تیاری میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس اپروچ کی روشنی میں ماضی میں چوہوں پر ہونے والے تجربات کو کورونا کے دیگر وائرسوں پر بھی ٹیسٹ کیا گیا۔مارچ 2021ئ￿ میں چین نے چوہوں پر ایک سٹڈی شائع کی جس میں کووڈ کی چار مختلف ویکسینز کا ٹرائل کیا گیا جن میں سے ایک RNA سے بنائی گئی تھی اور ایک وائرل ویکٹر ویکسین تھی جس میں ا?سٹرازینکا اور جانسن اینڈ جانسن کی کورونا ویکسین کی طرح کووڈ کے خلاف امیون سسٹم کو تقویت دینے کے لیے ایک غیر متحرک کولڈ وائرس کو استعمال کیا گیا تھا۔ مکس اینڈ میچ کی اپروچ کیوں؟ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ جب ہم کسی وائرس کے مختلف حصوں کے خلاف امیون سسٹم کو متحرک کرنے کے لیے دو مختلف قسم کی ویکسینز کو یکے بعد دیگرے استعمال کرتے ہیں تو ہمارا جسم اس قدر ٹرینڈ ہو جاتا ہے کہ وہ حملہ ا?ور وائرس کے مختلف حصوں کی شناخت کرنے کے قابل ہو جاتا ہے اور اس کے خلاف زیادہ موثر انداز میں جسم کا دفاع کرتا ہے۔ اس ضمن میں ایک اور دلیل یہ ہے کہ دو مختلف قسم کی ویکسین کے استعمال سے ہمارے امیون سسٹم کے مختلف عناصر متحرک ہو جاتے ہیں مثلاً وائرل ویکٹر ویکسین ہمارے امیون سسٹم کے اس حصے کو متحرک کرتی ہے جو ایک ایسا لشکر تخلیق کرنے میں مدد دیتا ہے جسے ’’کلرٹی سیل‘‘ کہا جاتا ہے اور وہ حملہ ا?ور وائرس کے خلاف ہمارے جسم کا دفاع کرتا ہے۔ دوسری ویکسینز وائرس کے خلاف تیزی سے اینٹی باڈیز بناتی ہیں۔ دونوں امیون سسٹم وائرس کے خلاف اپنا اپنا رد عمل ظاہر کرتی ہیں جس کی بنا پر سائنسدان کہتے ہیں کہ اکیلے امیون سسٹم کے ردعمل کے بجائے دونوں کا امتزاج زیادہ بہتر اور مستند نتائج دے سکتا ہے۔
ویکسین ریسرچرز کئی عشروں سے اسی اپروچ پر اپنی تحقیق کو آAگے بڑھا رہے ہیں۔ یہ امر بخوبی واضح ہے کہ کووڈ ویکسینز اپنے طور پر ہی وائرس کے خلاف کافی موثر ہیں اس لیے انہیں کسی دوسری ویکسین کے ساتھ ملا کر لگانے کی ضرور ت نہیں پڑتی؛ تاہم سائنسدانوں کو اس بات کا مشاہدہ جاری رکھنا چاہئے کہ مکس اینڈ میچ کے جو ٹرائلز جاری ہیں ان کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں اور کیا اس اپروچ سے بہتر تحفظ کے بارے میں کوئی سگنل ملتے ہیں۔ اس ریسرچ سے دوسرے وائرسوں کے خلاف ویکسین بنانے میں بھی پیشرفت ہوسکتی ہے۔ اس وقت ویکسین بنانے کی کثیر جہتی ٹیکنالوجیز سامنے ا? چکی ہیں۔ جیسے جب لوگ مل کر کام کرتے ہیں تو زیادہ بہتر نتائج برآمد ہوتے ہیں اسی طرح مختلف ویکسینز کو ملا کر لگانے سے بھی زیادہ موثر نتائج مل سکتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر