... loading ...
بجٹ ایک ایسی دستاویزہے جسے سُننے کاسب کو اشتیاق رہتا ہے یہ سالانہ میزانیہ ہے جو موجودہ معاشی حالت بتانے کے ساتھ مستقبل میں بہتری کے متوقع اقدامات کا عکاس ہوتا ہے لیکن بجٹ کے زریعے عام طور پر حکومتیں جھوٹے اعدادوشمار پیش کرکے سرخروہونے کی کوشش کرتی ہیں اور سہولتیں دینے کی بجائے عوام کی جیبوں سے کچھ نکلوانے کی سعی کرتی ہیں پھر بھی سرکاری ملازمین کو بجٹ سے بڑی توقعات ہوتی ہیں مگر بجٹ کہانی سے سرکاری ملازمین تو ایک طرف کسان ،مزدور،اورصنعتکارکم ہی مطمئن ہوتے ہیں اکثر احتجاج اور مظاہرے ہوتے ہیں موجودہ بجٹ پر ابھی عوامی مظاہرے شروع نہیں ہوئے لیکن بجٹ سیشن کے دوران ایوانوں میںنعرے ،سیٹیاں، چیخیںاور ڈیسک بجانے کا آغاز ہو چکا ہے ملکی تاریخ میں ایوانوں کو مچھلی منڈی بنانے کی ایسی نظیر کم ہی ملتی ہے قومی اسمبلی میں لڑائی ،مارکٹائی ،گالی گلوچ اور ایوان میں کتبے لہرانے کا خوب مقابلہ ہوا تلخ کلامی اور شورشرابے سے بجٹ پر بحث کرنے کی بجائے اسپیکر ڈائس کے سامنے احتجاج پر زور دیا گیا دیگر ممالک کی پارلیمان میں بھی تنقید ہوتی ہے اور نوبت جھگڑے ومارپیٹ تک بھی پہنچ جاتی ہے لیکن ہمارے منتخب اراکین کا غصہ اور نفرت جنون کی شکل اختیار کرنے لگا ہے جس کا سدِ باب ہونا چاہیے کیونکہ غصے ونفرت کے جنون سے بجٹ کی خوبیاں و خامیاں نظر انداز ہورہی ہیں اپوزیشن لیڈر کی تقریرکے دوران شروع ہونے والا شورشرابہ سڑک چھاپ غنڈوں کو بھی مات دے گیا جس سے کسی کو اچھا پیغام نہیں ملا بلکہ اراکین کو اخلاقی اقدار سے آشنا کرنے کے اقدامات کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے۔
تعمیری تنقید جمہوریت کا حسن ہے لیکن قومی اسمبلی میں ایسا ماحول ناپید ہے چوتھے روز بھی تو شہباز شریف نے بطور اپوزیشن لیڈرسوا دوگھنٹے تک تقریرکی جو مکمل خاموشی سے سن لی گئی لیکن پہلے یہ نوبت کیوں آئی کہ اپوزیشن لیڈر تین دن تک تقریرہی نہ کر سکے کیا اپوزیشن کی بات سُننا بھی حکومت کو ناگوار ہے جمہوریت تورواداری اوربرداشت کا درس دیتی ہے لیکن اسمبلیوں میں بھی کیوں جمہوری ماحول نہیں بن رہا سوچنے والی بات ہے خرابی بسیار کے بعد حکومت اور اپوزیشن میں مفاہمت کا ایک فارمولا طے پایا ہے جس کے تحت دونوں طرف سے اجلاس کے دوران کسی طرح کی ہلڑ بازی یا ہنگامہ آرائی نہیں ہوگی مگرزہن میں رکھنے والی بات یہ ہے کہ قیادت کی نظروں میں نمبر بنانے کے خواہاں کم ہی کسی فارمولے کی پاسداری کرتے ہیں اس لیے دونوں طرف مزید احتیاط کرنے کی ضرورت ہے وگرنہ عام آدمی کواچھا پیغام نہیں مل رہا وقتی طورپراپوزیشن کی عدم موجودگی میں کی جانے والی قانون سازی پرحکومت نظر ثانی کرنے پر آمادہ ہوگئی اور جواب میں اپوزیشن نے ڈپٹی اسپیکر کے خلاف پیش تحریکِ عدمِ اعتماد واپس لے لی ہے مگر خدشات بددستور موجود ہیں اسپیکر اسد قیصر یہ تو کہتے ہیں کہ ایوان میں جو ہوا وہ جمہوریت کے لیے نیک شگن نہیں اور یہ کہ صرف اخلاقی طاقت ہے کسی کو اُٹھا کر باہر نہیں پھینک سکتا مگربطور اسپیکر اظہارِ خیال کی اجازت دیتے وقت انھیں جانے انصاف کرنا کیوں یادنہیں رہتا اگر حکومتی اور اپوزیشن اراکین سے انصاف کریںتو صورتحال اتنی خراب نہ ہو ۔
وزیرِ خزانہ ابھی تک سینٹ یا قومی اسمبلی کے ممبر نہیں بلکہ بجٹ پیش کرنے کے بعد اُنھیں کسی ایوان کا رُکن بننے کا مرحلے کا سامنا کر نا ہوگا جس کے حوالے سے قیاس آرائیاں جاری ہیں ماہرین کا کہنا ہے کہ ایوان کی رُکنیت حاصل کرنے کے دوران انھیں اپوزیشن کی طرف سے کئی رکاوٹوں کا سامنا کرناپڑے گا جس کے دوران عبدالحفیظ شیخ کی کہانی ایک بار پھر دُہرائی جا سکتی ہے بجٹ کہانی میں شوکت ترین نے اجناس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک خوراک میں خود کفیل نہیں رہا لیکن بہتری کیسے لانی ہے بجٹ سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا بجٹ میں بلکہ اربوں روپیہ کپاس اور گندم کی درآمد کے لیے مختص کیا گیاہے ترسیلاتِ زر میں اضافہ کسی حکومت کی کامیابی نہیں بلکہ ملک میں روزگار کے مواقع کم ہونے کی نشاندہی ہے اسی لیے شہری بیرونِ ملک جا کر روزگار حاصل کرنے پر مجبور ہیں حکومتی کامیابی تو یہ ہوتی کہ ملک میں روزگار کے مواقع بڑھانے کے ساتھ گردشی قرضے ختم کیے جاتے۔ نئے بجٹ میں ترقیاتی کاموں کے لیے نو سو ارب رکھے گئے ہیں لیکن رواں برس کے اختتام تک محض دو سوارب خرچ ہوئے ہیںاب سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگلے برس کے دوران نوسوارب کہاں اورکیسے خرچ ہوں گے؟
ملک میں رہائشی ضروریات پوری کرنے کے لیے حکومت نے مکانات کی تعمیر پر زور دے رکھا ہے جس سے زرعی رقبہ ختم ہوتا جارہا ہے حکومت اگر ہائوسنگ کالونیوں کے حوالے سے طریقہ کار بنا لے اور اجازت دیتے وقت بے آباد زمینوں کو ترجیح دینے کی پالیسی اپنا لے تو خوراک کے حوالے سے بڑھنے والی مشکلات کم ہو سکتی ہیں اقوامِ متحدہ نے کورونا کے بعد خشک سالی کو اگلی تباہ کُن وبا قرار دیتے متنبہ کیا ہے کہ پانی کی کمی اور خشک سالی کورونا وائرس کے مقابلے میں ذیادہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کے لیے تیار ہے اقوامِ متحدہ کی نمائندہ خصوصی مامی میزوتوری نے افریقہ ،وسطی اور جنوبی امریکہ ،وسطی ایشیا،جنوبی یورپ،میسیکو اور امریکہ میں ذیادہ تیزی سے موسمی تغیرات کا خدشہ ظاہر کیا ہے لیکن ہم نے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی بجائے زرعی زمین پر ہائوسنگ کالونیاں بنانے کو کامیابی سمجھ لیا ہے حالانکہ پاکستان گلوبل وارمنگ سے متاثر ہونے والے والے پہلے دس ممالک میں شامل ہے اِس لیے ہنگامی بنیادوں پر پینے اور زمینوںکو سیراب کرنے کے منصوبے بنانے کی ضرورت ہے بجٹ میں وفاقی اور پنجاب حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں دس فیصد تجویز کیاہے لیکن مہنگائی کے تناظر میں یہ اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے سندھ نے اِس حوالے سے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا ہے اورتنخواہوں وپنشن میں دگنا اضافہ کرنے کے ساتھ کم ازکم اُجرت پچیس ہزار کر دی ہے لیکن عین ممکن ہے وفاق کو صوبے کی یہ جرات بھی ناگوارگزرے۔
دراصل حکومت اور اپوزیشن کا خرابیاں دیکھنے کا پیمانہ الگ ہے لیکن ایک نُکتے پر دونوں متفق ہیں کہ ایک دوسرے کے لیے مشکلات بڑھانی اور زچ کرنا ہے یہی سوچ خرابی میں اضافے کا باعث ہے جب تک دونوں طرف حقیقت پسندانہ سوچ نمو نہیں پاتی تب تک نہ تو اسمبلیوں کا ماحول درست ہو سکتا ہے نہ ہی معاشی مضبوطی کی منزل حاصل ہو سکتی ہے مگر زمینی حقائق کی بجائے حکومت تصورات کی دنیا میں گم ہے حالانکہ تصوراتی کوششوں سے مسائل حل نہیں ہوتے جب تک عملی طور پر تحرک نہ ہو موجودہ حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ عمران خان سے لیکر کئی وزرا خاصے خوش گفتار ہیں یہ بولنے پر آتے ہیں تو ہر موضوع پر بے تکان بولتے ہیں لیکن اِس حکومت کے پاس کو ئی معاشی ماہر نہیں اسد عمر فیل ہونے پر نکالے جا چکے حفیظ شیخ کو سینٹ الیکشن میں ناکامی پر ہٹا دیا گیا اب شوکت ترین کومہارت دکھانے کی زمہ داری سونپی گئی ہے لیکن یہ شوکت ترین وہی ہیں جو مسلم لیگ ق کے دور میں بھی معیشت بحال کرنے کی نوید سناتے رہے پی پی دور میں بھی یہی زمہ داری نبھائی اب تحریکِ انصاف نے بھی انھی سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ جو شخص کئی حکومتوں میں رہ کر خرابیاں دور نہیں کر سکا اب موجودہ حکومت کے بقیہ دو برس میں کیا تیر مار لے گا ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔