... loading ...
پی چدمبرم
سب جانتے ہیں کہ کورونا وائرس نے ساری دنیا کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے اور خاص طور پر بھارت اس وائرس سے بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔ عوام کو کورونا وائرس کے مہلک اثرات سے بچانے کے لیے دنیا بھر میں ویکسین تیار کرنے کے لیے کوششیں کی گئیں، بھارت نے بھی اسی کوشش کے تحت دو ویکسین تیار کیں اور پھر ویکسین مہم کا آغاز کیا گیا، لیکن ویکسین مہم میں جو رکاوٹیں آئیں اور جس طرح حکومت اور عوام الجھن کا شکار ہوئے‘ اس نے تاریخ میں اپنے بدنما نقوش چھوڑے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی نے 7 جون کو قوم سے خطاب کیا‘ ٹی وی پر کیے گئے اس خطاب میں مودی نے اپنی دو غلطیوں کو سدھارا۔ میں سمجھتا ہوں کہ غلطیوں کو تسلیم کرنے سے متعلق مودی کا یہی انداز ہے، دوسری طرف اپنے حصے کے طور پر ریاستی حکومتوں اور اپوزیشن جماعتوں کو مودی حکومت کی غفلت و تساہل کو بے نقاب کرنے کا سلسلہ جاری رکھنا چاہئے کیونکہ جو حالات پیدا ہوئے ہیں‘ وہ بھی انتہائی بدتر حالات ہیں اور انہیں بہتر بنانا ضروری ہے۔
(1) مرکزی حکومت نے یہ سمجھا تھا کہ کورونا وائرس کی پہلی لہر واحد لہر ہوگی اور اس کے بعد دوسری لہر نہیں آئے گی، ایسے میں ویکسین مہم بڑے سکون کے ساتھ چلائی جائے گی۔ اسی لیے آپ اور ہم سب نے دیکھا کہ ویکسین مہم کی رفتار بڑی سست رہی اور اس سست روی کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ مرکزی حکومت نے ماہرین وبائیات اور ماہرین طب نے دوسری لہر کا جو انتباہ دیا تھا، اسے بری طرح نظرانداز کردیا یہاں تک کہ اس نے ویکسین مہم میں تیزی لانے کی ضرورت کو بھی پس پشت ڈال دیا یعنی اس نے یہ مناسب ہی نہیں سمجھا کہ ویکسین مہم میں تیزی پیدا کی جائے کیونکہ وہ اچھی طرح اس بات کو نظرانداز کرچکی تھی کہ دوسری لہر آنے والی ہے۔
(2) حکومت اندرونِ ملک تیار کردہ ویکسین کے بارے میں بہت زیادہ پْرجوش تھی، خاص طور پر اس نے ان دو ویکسین کے تیار کنندگان کے مفادات اور ان کے منافع کے تحفظ میں غیرمعمولی جوش کا مظاہرہ کیا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے دوسری ویکسین کے ہنگامی حالات میں استعمال کی اجازت دینے سے اپنے قدم پیچھے ہٹا لیے اور ان ویکسین تیار کرنے والی کمپنیوں کی بھارت میں آمد یا رسائی کی بڑی سختی کے ساتھ حوصلہ شکنی کی۔
(3) حکومت نے سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا، پونا کو پہلا آرڈر 11 جنوری 2021ء کو دیا تھا۔ اس کے برعکس امریکا، برطانیا، یورپ اور جاپان میں ویکسین تیار کرنے والی کمپنیوں کو مئی‘ جون 2020ء میں اپنے آرڈرز دیے گئے تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مودی حکومت نے صرف 1کروڑ دس لاکھ ویکسین(ڈوز) کا آرڈر دیا تھا۔ بعد میں بھارت بائیوٹیک کو ویکسین کا آرڈر دیا گیا لیکن یہ آرڈر کب دیا گیا اور کتنی تعداد کے لیے دیا گیا، اس کا پتا ہی نہیں۔
(4) سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا نے کیپٹل گرانٹ یا سبسڈی طلب کی‘ اس کے باوجود سربراہی کے لیے ان دونوں کمپنیوں کو پیشگی ادائیگی کی گئی۔ جہاں تک پیشگی ادائیگیوں کی منظوریوں کا سوال ہے، 19 اپریل 2021ء کو ہی 3000 کروڑ روپے سیرم انسٹیٹیوٹ ا?ف انڈیا (پونا) کے لیے اور حیدرا?باد میں واقع بھارت بائیوٹیک کے لیے 1500 کروڑ روپے منظور کیے گئے۔
(5) حکومت کی غفلت و تساہل کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں ویکسینز کے تیار کنندگان کی امکانی پیداوار کا درست اندازہ نہیں لگا سکی۔ یہاں تک کہ آج تک اس بات کا انکشاف نہیں ہوا کہ یہ دونوں کمپنیاں فی ماہکتنی ویکسین تیار کررہی ہیں۔
(6) حکومت نے ویکسین اندازی کی پالیسی کے معاملے میں کسی بھی ریاستی حکومت سے صلاح و مشورہ نہیں کیا بلکہ اس نے یکطرفہ فیصلے کرتے ہوئے ویکسین پالیسی کو نہ صرف قطعیت دی بلکہ اس پر عملدرآمد بھی کیا لیکن جس طرح عمل درآمد کیا گیا‘ اس کے نقائص کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے پْرزور انداز میں یہ کہا ہے کہ حکومت کی ویکسین سے متعلق پالیسی من مانی یا نامعقول ہے۔
(7) مرکزی حکومت نے ویکسین کی خریداری کو غیرمرکوز کرتے ہوئے 18 سال سے لے کر 44 سال عمر کے حامل گروپوں کو ویکسین دینے کے لیے سارا بوجھ ریاستی حکومتوں پر ڈال دیا اور یہ مودی حکومت کی سب سے بڑی غلطی ہے۔ یہاں تک کہ ویکسین کی خریداری کے ٹینڈرز سے متعلق بھی کافی الجھنیں پیدا کی گئیں۔
(8) حکومت نے مرکزی حکومت، ریاستی حکومتوں اور پرائیوٹ ہسپتالوں کے لیے ویکسین کی مختلف قیمتیں مقرر کرتے ہوئے ایک اور بڑی غلطی کا ارتکاب کیا۔ قیمتوں میں فرق کے باوجود ویکسین کی کثیر تعداد سرکاری ہسپتالوں کو جس قیمت پر دی جارہی ہیں، انہی قیمتوں پر پرائیوٹ ہسپتالوں کو بھی فروخت کی جارہی ہے۔ اس غلطی کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ملک میں ویکسین کی قلت پائی جاتی ہے یہاں تک کہ بعض ریاستوں میں ویکسین مہم کو معطل کردیا گیا ہے۔ یہ تنازع ہنوز جاری ہے کیونکہ مرکزی حکومت نے پرائیوٹ ہسپتالوں کو اس بات کی اجازت دے دی ہے کہ وہ کووی شیلڈ، سپوٹنک اور کوویکس کے لیے بالترتیب 780، 1045 اور 1410 روپے فی ڈوز وصول کریں۔
(9) حکومت نے ویکسین کے لیے رجسٹریشن کی جو شرط رکھی ہے وہ امتیازی عمل ہے۔ سپریم کورٹ نے صاف کہا ہے کہ کووڈ سے متعلق اصرار نے معاشرے میں ایک ڈیجیٹل تقسیم پیدا کردی ہے اور یہ امتیاز پر مبنی ہے۔ چلیے! ان غلطیوں کو پرے رکھتے ہیں۔ ویکسین کی تیاری اور سپلائی میں ایسا لگتا ہے کہ بہتری آئی ہے، اس کے علاوہ روسی ساختہ ویکسین ’’سپوٹنک V‘‘ کی درآمد سے بھی مدد ملی ہے اور 6 جون سے یومیہ ویکسین دیے جانے کے اوسط میں بھی بہتری دیکھی گئی ہے۔ 6 جون سے یومیہ 30 تا 40 لاکھ ویکسین ڈوز لگائی جارہی ہیں لیکن اس رفتار سے بھی یہی امکان پایا جاتا ہے کہ اس سال کے آخر تک صرف 60 کروڑ ویکسین ڈوز لگائی جا سکیں گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ حکومت کے مقرر کردہ ہدف کے لیے خطرناک ہوگا کیونکہ حکومت نے سال کے ختم ہونے تک ملک کے 90 تا 100 کروڑ بالغوں کو فی کس دو ڈوز لگانے کا ہدف مقرر کررکھا ہے۔
مودی حکومت کے لیے جون 2021ء سے قبل آئندہ اقدامات مکمل کرنا ضروری ہیں: سب سے پہلے ہر ملکی تیار کنندہ کے لیے ویکسین کی تیاری کا ایک پائیدار شیڈول بنائے۔ (دو یا تین یا اس سے زیادہ) جولائی اور دسمبر 2021ء کے درمیان فی ماہ ویکسین کی تیاری کا جائزہ لیا جائے۔ ساتھ ہی اس میں سپوٹنکV کی درآمدات کو شامل کیا جائے۔ اگر حکومت دوسری کمپنیوں کو بھی ویکسین کی تیاری کا لائسنس دیتی ہے تو اس سے ان پر دباو? میں کمی ا?ئے گی۔ عالمی aادارہ صحت نے فائزر، بایون ٹیک ، ماڈرنا ، جانسن اینڈ جانسن اور سائنوفارم کی جن ویکسینز کی منظوری دی ہے‘ ان کی خریداری کے لیے فوری آرڈرز دیئے جائیں۔ تیسرا ویکسین کی خریداری کی مکمل ذمہ داری لی جائے (وزیراعظم مودی نے قوم سے اپنے خطاب میں 75 فیصد خریداری پر رضامندی کا اظہار کیا تھا) اور ان ویکسینز کو ضرورت کے لحاظ سے ریاستوں میں تقسیم کیا جائے۔ ساتھ ہی ہر ریاست میں ویکسین مہم کی رفتار کو بڑھایا جائے۔ اسی طرح حکومت ، ویکسین کی امکانی قلت پر قابو پانے کے لیے اقدامات کرے اور بالخصوص ریاستی حکومتوں کے ساتھ مشورہ کرتے ہوئے پالیسیاں طے کرے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں ہیلتھ انفراسٹرکچر میں اضافہ کریں، اس میں بہتری لائے اور ہسپتالوں میں بستروں کی تعداد بڑھائیں۔ مذکورہ اقدامات کوئی راکٹ سائنس نہیں ہیں ، بلکہ اس کے لیے اچھی منصوبہ بندی درکار ہے۔ ویسے بھی مودی حکومت نے منصوبہ بندی کمیشن ختم کرکے کوئی اچھا کام نہیں کیا۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ قابل افراد کے ایک گروپ کا تقرر کرے تاکہ کسی بھی ہنگامی حالات میں وہ بہتر منصوبہ بندی کرتے ہوئے عوام کو اس وبا کے اثرات سے محفوظ رکھ سکیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ بی جے پی کی مرکزی حکومت کیا کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔