وجود

... loading ...

وجود

سندھ کے سیاسی و انتظامی مسائل اور اُن کا قانونی حل ؟

جمعرات 17 جون 2021 سندھ کے سیاسی و انتظامی مسائل اور اُن کا قانونی حل ؟

کیا ہی اچھا ہو،اگر مغربی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر ایوان ِ اقتدار تک پہنچنے والا سیاست دان، اپنے دورِ حکمرانی میں ’’عوامی خدمت ‘‘ کے سنہری اُصول کو اپنی ترجیح اوّل بنالے ۔مگر یہ خواب اُس وقت تک حقیقت کا روپ دھار نہیں سکتا ،جب تک عوام اپنے ’’سیاسی نمائندہ ‘‘کا انتخاب زبان ، نسل ، برادری اور قومیت کی پیش نظر رکھ کر کرتے رہیں گے۔بدقسمتی سے گزشتہ چالیس برسوں میں سندھ کی سیاست میں فیصلہ کن حیثیت اور فوقیت ’’خدمت ‘‘ کے بجائے ’’عصبیت ‘‘ کی سیاست کو ہی حاصل رہی ہے۔زیادہ نہیں تو کم ازکم تین دہائیوں تک اُردو بولنے والے صرف زبان کی بنیاد پر اپنے ’’عوامی نمائندے ‘‘ منتخب کرکے ایوانِ اقتدار میں بھیجتے رہے مگر جواب میں انہیں جو ’’سیاسی فصل ‘‘ تیار حالت میں حاصل ہوئی اُس میں پھل اور پھولوں کے بجائے ’’کانٹے ‘‘لگے ہوئے تھے۔
مگر دوسری جانب سندھی بولنے والوں نے بھی لسانی تعلق کی وجہ سے جن ’’اپنوں ‘‘ کو اپنے قیمتی ووٹ کی طاقت سے منتخب کروا کر صوبہ کا مالک و مختار بنایا ،افسوس صد افسوس کہ انہوں نے بھی دیہی سندھ کے لیے کچھ نہ کیا اور نہ ہی کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کراچی اگر پینے کے پانی سے محروم ہے تو اندرون ِ سندھ میں بھی ہر طرف خاک ہی اُڑرہی ہے۔ بنیادی صحت کی سہولیات جہاں کراچی کے ہسپتالوں میں عنقا ہیں تو وہیں دیہی سندھ میں بھی غریب لوگ کتے اور سانپ کے کاٹنے سے سسک سسک اس لیے مر جاتے ہیں کہ ہسپتالوں میں ادویات ہی دستیاب نہیں ہوتیں۔بے روزگاری اور بے کاری کا طوفان کراچی کے نوجوانوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے تو اندرونِ سندھ کا نوجوان بھی جاگیرداروں کی اوطاق میں بے کسی و لاچاری و تصویر بنا کسی بے جان پتھر کے بت کی مانند کھڑا نظر آتاہے۔حد تو یہ ہے کہ رشوت کا بازار کراچی ، حیدرآباد سمیت سندھ کی ہرچھوٹی بڑی تحصیل ،قصبہ اور یونین کونسل میں بھی یکساں گرم ہے۔
دراصل سندھ میں حقیقی تقسیم زبان،نسل اور علاقے کی بنیاد پر نہیں بلکہ ’’کلاس ‘‘کے حساب سے ہے ۔یعنی اَپر اور متمول کلاس سے تعلق رکھنے والے افراد شہری سندھ سے ہوں یا دیہی سندھ سے ، وہ صوبہ کے تما م وسائل، نوکریاں اور انتظامی اختیارات پر قابض ہونا اپنا ’’سیاسی حق ‘‘ سمجھتے ہیں۔ جبکہ درمیانی اور نچلے طبقہ کے افراد خواہ اُن کا واسطہ شہر سے ہو یا گاؤں سے۔بہرکیف اُن کی قسمت میں ’’کاتبانِ سیاست ‘‘ نے انتظامی اور سیاسی استحصال کا شکا ر ہونا لکھ دیا ہے۔یوں جان لیجئے کہ سندھ کے شہروں اور گوٹھ ،دیہات میں رہنے والے آپس میں بقائے باہمی کے مسلمہ اُصول کے تحت اَمن و آشتی کے ساتھ رہنا چاہتے ہی نہیں بلکہ رہ بھی رہے ہیں۔ لیکن سیاسی رہنما اپنی اپنی سیاست کو پروان چڑھانے کے لیے ہمیشہ ہی شہری اور دیہی سندھ کے عوام کے درمیان زیادہ سے زیادہ دُوریاں اور اختلافات پیدا کرنے کے در پر رہتے ہیں۔
حالات اتنے نازک اور بدتر ہو چکے ہیں کہ اَب تو چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس گلزار احمد بھی اپنے ریمارکس میں کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ’’ سوائے سندھ کے پورا ملک ترقی کر رہا ہے،ایک طویل عرصے سے آپ کی حکومت ہے صوبے میں لیکن کیا ملا شہریوں کو؟، سندھ میں کوئی حکومت نہیں، یہاں لندن، دبئی اور کینیڈا سے حکم چلتا ہے، صوبے کا اصل حکمران یونس میمن ہے۔سندھ حکومت کا ایک ہی منصوبہ ہے صوبے کو بد سے بدتر بنائو، جولوگ ایک نالہ صاف نہیں کرا سکتے وہ صوبہ کیسے چلائینگے،جب واٹر بورڈ صارفین کو پانی کیوں نہیں دیتا، ختم کریں ایسا ادارے کو‘‘۔سندھ حکومت کے وکیل کو مخاطب کرکے کہے جانے والے یہ ریمارکس سندھ کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اور اُس کی حکومت کے لیے ایک چارج شیٹ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اگر یہ ہی الفاظ چیف جسٹس آف پاکستان کے بجائے کوئی اور شخص کہتا تو اُس پر باآسانی ’’سیاسی جانب داری ‘‘ کا الزام دھرا جاسکتاتھا۔ لیکن پاکستان کے سب سے بڑے اور خالص انتظامی ادارے کے سربراہ کی جانب سے صوبہ سندھ کے انتظامی معاملات پر عدم اعتماد اور سخت سرزنش کا اظہار لمحہ فکریہ ہے۔
واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے مذکورہ ریمارکس سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں مختلف زیر سماعت مقدمات کے دوران دیئے گئے۔ معزز چیف جسٹس کا اپنے ریمارکس میںمزید کہنا تھا کہ’’ کسی نے کل ویڈیو کلپ بھیجا ہے بوڑھی عورت کو کس طرح سے اسپتال لے جایا جارہا تھا ،جائیں اندرون سندھ میں خود دیکھیں کیا ہوتا ہے؟ سب نظر آجائیگا کہ ہو کیا رہا ہے یہاں۔ پتا نہیں کہاں سے لوگ چلتے ہوئے آتے ہیں جھنڈے لہراتے ہوئے ،شہر میں داخل ہوتے ہیں اور کسی کو نظر نہیں آتے۔ کم از کم 15، 20 تھانوں کی حدود سے گزر کر آئے ہوں گے کسی کو نظر نہیں آیا۔ ابھی تو وہاں رک گئے تھے، کل یہاں بھی آجائیں گے‘‘۔چیف جسٹس صاحب کا اشارہ گزشتہ دنوں قوم پرست جماعتوں کی صفوں میں چھپے ہوئے شرپسند عناصر کی طرف سے بحریہ ٹاؤن پر ہونے والی یلغار سے تھا۔یاد رہے کہ بحریہ ٹاؤن کے واقعہ نے جب پاکستان کے اعلیٰ عہدوں پر براجمان افراد کو اس قدر تشویش میں مبتلاء کردیا ہے تو اَب آپ خود ہی اندازہ لگالیں اس حادثے کے رونما ہونے کے بعد اہلیان کراچی کے عدم تحفظ اور اندیشوں کا عالم کیا ہوگا؟۔
علاوہ ازیں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کنٹونمنٹ علاقوں اور ڈی ایچ اے سمیت شہر کے دیگر علاقوں میں پانی کی فراہمی سے متعلق کراچی رجسٹری میں سماعت بھی کی۔ چیف جسٹس نے ایم ڈی واٹر بورڈ کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ’’ جب ٹینکر میں پانی آتا ہے تو گھروں کو کیوں نہیں ملتا؟ ڈی ایچ اے کی سڑکیں بھی تباہ حال ہیں۔ واٹر بورڈ صارفین کو پانی کیوں نہیں دیتا؟ ہاکس بے کی طرف نئی سوسائٹیز بن رہی ہیں سارا پانی وہاں ڈائیورٹ ہورہا ہے۔ کراچی والے کیا کریں گے؟ کراچی کو پانی کیسے ملے گا؟۔ سب پانی چوری میں ملوث ہیں‘‘۔ چیف جسٹس نے ایم ڈی واٹر بورڈ کو جھاڑ پلاتے ہوئے مزید کہا کہ’’ آپ شہریوں کو پانی نہیں دیتے تو کیوں بیٹھے ہوئے ہیں؟ اس ادارے کے رہنے کا کیا مقصد؟ ختم کریں ایسا ادارہ‘‘۔یہ سب وہ سوالات اور اعتراضات ہیں ،جو سندھ کی عوام کے اذہان میں برسوں سے پنپ رہے ہیں لیکن ان سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے جس قدر سیاسی ہمت اور انتظامی طاقت درکا ہے ، وہ شاید صرف اعلیٰ عدلیہ کے پاس ہی ہے ۔اس لیے اہلیانِ سندھ عدلت عظمی سے قوی اُمید رکھتے ہیں اگراُس نے عوامی مسائل کا’’قانونی تذکرہ ‘‘چھیڑ ہی دیا ہے تو یقینا ایک قدم مزید آگے بڑھاتے ہوئے مسائل کے حل کے لیے کوئی مستقل سیاسی و انتظامی بندوبست بھی فرمادیا جائے ۔
؎۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر