... loading ...
دوستو، کل ہم تربوز کھاتے ہوئے سوچ رہے تھے کہ اس ملک میں جتنے بھی غیرشادی شدہ نوجوان ہیں(یعنی کنوارے) انہیں میٹرک لیول سے ایک نیا نصاب ’’مابعدالبیویات‘‘ پڑھایا جائے، یعنی بیویوں کے بعد کی زندگی۔۔کیوں کہ ہمارے خیال میں میٹرک سے ہی نوجوانوں میں عشق کا کیڑا کلبلانے لگتا ہے اور یونیورسٹی لیول تک پہنچنے تک وہاں کی ہرلڑکی ’’تیری بھابھی ہے‘‘ کا روپ دھار چکی ہوتی ہے۔۔ جب میٹرک لیول سے ہی نوجوان نسل کو بیویوں یعنی بیگمات کے ’’مضر‘‘ اثرات کا پتہ لگے گا تو پوری امید ہے کہ ان کی آنے والی زندگی پرسکون گزرے گی۔۔
اب آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ تربوز کھاتے ہوئے کون سوچتا ہے؟؟ جس طرح آم اور پائے کھانے کے کچھ اصول ہوتے ہیں، اسی طرح تربوز کھانے کا بھی اصول ہوتا ہے، شہری لوگ جتنی دیر میں چھری، پلیٹ اور نمک ڈھونڈتے ہیں،ہم ایسے پینڈو لوگ اتنی دیر میں پورا تربوز کھاجاتے ہیں، ساتھ ساتھ سوچوں کا دریا بھی روانی سے بہتا رہتا ہے، جس میں کچھ ایسے ہی خیالات کی آمدورفت جاری رہتی ہے جیسی اوپر بیان کرچکے ہیں۔۔تربوز کو کسی چنگے بھلے انسان کے منہ سے تشبیہ دے کر بیڑا غرق کیا جاسکتا ہے، تربوز کا نہیں اس شخص کا۔۔بچپن میں ہمیں یادپڑتا ہے کہ ہمارے محلے میں جس کا تربوز میٹھا نکل آئے، پورے محلے میں اس کے چرچے ہوتے تھے۔۔ویسے تو شادی کے چار یا پانچ سال بعد ہر بیوی کی شکل تربوز یا خربوزے کی طرح ہوجاتی ہے، اس میں بعض مواقع پر استثنا بھی ہے، کیوں کہ کچھ کی شکل پپیتے جیسی بھی ہوجاتی ہے، لیکن تینوں میں قدرمشترک پلپلاہٹ ہی ہے۔۔ہندی فلموں میں آپ نے ہیروئنز کو توبہ شکن ملبوسات میں موج مستیاں کرتے دیکھا ہوگا، اور افسوس بھی کرتے ہوں گے اورسوچتے ہوں گے کہ یہ ناریاں ہندوستان میں اسی طرح چلتی پھرتی ہوں گی۔۔ تو اس پر زیادہ کف افسوس ملنے کی ضرورت نہیں۔۔ کیوں کہ آپ کو شاید،پھیکے خربوزے، پلپلے امرود، سوکھے ہوئے کینو ، بھربھرے سیب ، اور اندر سے سفید تربوز کھانے کا اتفاق نہیں ہواہوگا، ایسا ہی معاملہ ہندوستانی ناریوں کے ساتھ ہے۔۔
یہ بات سوفیصد سچ ہے کہ ہمارے معاشرے میں مرد دوسری شادی کا نام لیتے بہت ڈرتا تھا،پھر خواتین نے محنت کی اور اب نوجوان پہلی شادی سے بھی ڈرنے لگے ہیں۔۔جیف بیزوس اور بل گیٹس کا شمار دنیا کے امیر ترین انسانوں میں ہوتا ہے، ایک بار ایک مشترکہ انٹرویو میں ٹی وی میزبان نے دونوں سے ایک ہی سوال کیا کہ۔۔۔ آپ اتنی زیادہ دولت کمانے میں کیسے کامیاب ہو گئے؟ ۔۔دونوں کی آنکھیں نم ہوگئیں، دونوں کے ہی لبوں پہ پنجابی شعر مچلنے لگا۔۔۔تُوں کی جانڑے یار فقیرا ،بوہٹی بندہ کھا جاندی اے ۔۔۔میزبان پنجابی نہیں جانتا تھا۔ میزبان نے شعر کا اُردو میں ترجمہ پوچھاتو جیف بیزوس نے بِل گیٹس سے کہا کہ تُم بتاؤ، بِل گیٹس نے جیف سے کہا کہ ۔۔ تُوں دس ۔۔بالآخر جیف کی ضد پر بِل گیٹس نے بتایا کہ ۔۔ ہم اصل میں اتنی زیادہ محنت کر کے طلاق کے لیے پیسے اکھٹے کر رہے تھے ۔۔۔ایک بار باباجی کے گھر محفل جمی ہوئی تھی، اچانک باباجی نے ٹھنڈی سانس لی اور کہنے لگے۔۔پتر،لاسٹ سین چیک کرتے رہنے کا بھی اپنا ہی سواد ہے۔۔ہم نے لقمہ دیا۔۔لیکن باباجی آپ کے دور میں تو واٹس ایپ ایجاد ہی نہیں ہوا تھا، پھر لاسٹ سین کا کیا سین ہے؟؟باباجی مسکراکر بولے۔۔ بس دروازے کے سامنے سے گزرتے ہوئے اندازہ لگالیتے تھے کہ جھاڑو دئیے کتنی دیر ہوچکی!!!۔۔۔ایک کنفرم ’’زن مرید‘‘ بتارہے تھے کہ ۔۔ میں اپنے گھر رہتا تھا میری تنخواہ 30 ہزار تھی میں 20 ہزار اپنی تنخواہ میں سے گھر دیتا تھا پھر بھی ابا جی سے مجھے گالیاں پڑتی تھی۔پھر میری شادی ہوگئی۔۔میں عید پر اپنے سسرال چلا گیا اور 5 ہزار اپنے سسر کے ہاتھ میں رکھا تو سسر نے نا صرف میرا منہ ماتھا چوما۔مجھے گلے سے بھی لگایا بلکہ میرے چارپائی پنکھے کے آگے بھی بچھائی۔۔
ذکر باباجی کے گھر جمی محفل کاہوتو پھر ایک واقعہ ہی کیوں، روزانہ درجنوں ایسے واقعات سننے کو ملتے ہیں کہ ہمارے قہقہے ہی نہیں تھمتے، اور آفرین ہے باباجی پر کہ وہ کبھی کوئی واقعہ سنا کر ہنسے ہوں، ان کے چہرے پر گھمبیرسنجیدگی طاری رہتی ہے، اور اسی خوفناک سنجیدگی کے عالم میں ہمارا ہنس ہنس کر بیڑہ ہی غرق ہوجاتا ہے۔۔ایک باردیکھا باباجی ٹینشن میں نظر آئے، پوچھنے پر بتانے لگے کہ زوجہ ماجدہ سے جھگڑا ہوگیا ہے۔ اور جھگڑا بھی ایک بار نہیں باربار ہواہے، یعنی مختلف ایشوز پر وقفے وقفے سے دن بھر ہلکی پھلکی جھڑپیں جاری رہیں۔۔ پوچھنے پر باباجی نے اسٹارٹ لیا۔۔میں ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ بیگم میرے پاس آ کر بیٹھیں اور پیار سے پوچھنے لگیں کہ ٹی وی پہ کیا ہے؟ میں نے کہا،دھول مٹی۔ اور پھر لڑائی شروع ہوگئی۔۔تھوڑی دیر بعد زوجہ ماجدہ چائے لے آئیں، جھگڑا اپنی جگہ،شوہر کی خدمت اپنی جگہ، میں نے بھی خاموشی سے چائے کا کپ پکڑا اور چائے پینا شروع کردی، زوجہ ماجدہ سمجھیں کہ میں نارمل ہوگیاہوں تو بڑی چاؤ سے بولیں۔۔چلیں آج مجھے ایسی جگہ لے جائیں جہاں ہم مدتوں سے نہیں گئے۔ میں اسے اپنے والدین سے ملانے لے گیا۔ اور پھر لڑائی شروع ہوگئی۔۔رات زوجہ ماجدہ نے فرمائش کردی کہ مجھے مہنگی جگہ ڈنر کرائیں، میں انہیں پٹرول پمپ لے گیا، اور پھر لڑائی شروع ہوگئی۔۔زوجہ ماجدہ نیا سوٹ پہن کر آئینے میں دیکھ رہی تھیں۔کہنے لگیں۔۔ ماڈل پہ کتنا اچھا لگ رہا تھا۔ میں تو کتنی موٹی، بھدی اور بے ڈول لگ رہی ہوں۔ پلیز میری تعریف میں کچھ کہیں تاکہ میرا موڈ خوشگوار ہو۔ ۔میں نے کہا،تمہاری نظر بڑی تیز اور پرفیکٹ ہے۔ اور پھر لڑائی شروع ہوگئی۔۔ سبزی والے نے خراب سبزی دی، زوجہ ماجدہ کہنے لگیں ، جب پتہ ہے کہ یہ کھلا دھوکا دیتا ہے پھر بھی باربار اسی کے پاس جاتے ہیں اور سبزی اٹھالاتے ہیں۔۔میں نے کہا، تمہارے میکے بھی تو جاتا ہوں۔ ۔ اور پھر لڑائی شروع ہوگئی۔۔زوجہ ماجدہ لنچ کرانے کے بعد کہنے لگیں۔۔ میں بھی گھر میں ایک ملازم کی طرح کام کرتی ہوں، مجھے بھی ہر ماہ تنخواہ چاہیے۔۔میں نے کہا،ضرور ، تنخواہ ہر ماہ ملے گی، لیکن ایک شرط پر۔۔ زوجہ ماجدہ نے کہا۔۔وہ کیا شرط ہے؟؟ میں نے کہا، اگر کام پسند نہ آئے تو ملازم بدل لیا جائے گا۔۔اور پھر لڑائی شروع ہوگئی۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ جب عقل آتی ہے تو شادی ہوجاتی ہے،محبت کی عمر آتی ہے تو بچے پالنے پڑتے ہیں،جب آرام کا وقت آتا ہے تو بیماریاں گھیرلیتی ہیں، جب دنیا کی سمجھ آنے لگتی ہے تو دنیا سے جانے کا وقت ہوجاتا ہے۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔