... loading ...
اٹھارہ جون کو ایران میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں سات امیدوار حصہ لے رہے ہیں اِس انتخابی معرکے کی خاص بات یہ ہے کہ اصلاح پسندوں کے آٹھ سالہ اقتدارکے بعداب قدامت پسندصدرآنے کے قوی آثار ہیں نئے صدر کے لیے ڈھیروں مسائل منہ کھولے انتظار کررہے ہیں ایک طرف جوہری ڈیل کی بحالی پر امریکا و یورپی ممالک کو رضا مند کرنا ہے تاکہ مسلسل گرتی اقتصادیات کی بحالی ہو سکے دوسرا غربیت کم کرنے کے لیے ایرانی تیل کے خریدار تلاش کرنا ہے سعودی عرب سے مخاصمت میں ایران نے وسائل بے دریغ ضائع کیے ہیں ابھی یہ سلسلہ روکنا ہوگا۔
سابق صدر احمدی نژاد اورموجودہ وزیرِ خارجہ جواد ظریف چند وجوہات کی بنا پر انتخابی عمل سے باہر ہوچکے ہیں حالانکہ وہ الیکشن میں شرکت کے خواہشمند تھے جواد ظریف کی متنازع گفتگو نے سیاسی کردارکو بریک لگائی ہے سابق اسپیکر علی لاریجانی کو بھی انتخابی عمل میں شریک ہونے سے روک دیا گیا ہے وجہ یہ ہے کہ ایران کا انتخابی نظام کچھ مختلف ہے یہاں کسی بالغ کے ووٹ دینے پرتو کوئی قدغن نہیں البتہ صدارتی امیدواربننے کے لیے مختلف پابندیاں ہیں امیدوار کے طور پر سامنے آنے کے لیے چندمراحل سے گزرنا پڑتا ہے جن کے بغیر صدارتی دوڑ میں شریک نہیں ہو اجا سکتا یہ ایک قسم کی چھلنی ہے جس سے گزرکر ہی صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا سوچاجا سکتا ہے امیدواربننے کا ہر خواہشمند خود کو بارہ رُکنی کونسل کے پاس اپنانام درج کراتا ہے اورپھر یہ کونسل امیدوارکے کوائف وغیرہ کی سخت جانچ پڑتال کرتی ہے اورمخصوص معاملات اور ملک کے طے کردہ اصولوں پر پورا اُترنے والے کو انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دیتی ہے یہ کونسل وسیع اختیارات کی حامل ہے اور براہ راست رہبرِ اعلٰی کو ہی جواب دہ ہے موجودہ صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کے لیے 590 کے قریب امیدواروں نے بطور امیدوار کونسل کے پاس اپنانام درج کرایا لیکن جانچ پڑتال کے بعد صرف سات امیدوار ہی الیکشن لڑنے کے اہل قرارپائے اب تک کی اطلاعات کے مطابق ابراہیم رئیسی کو اپنے مدمقابل چھ امیدواروں پر واضح سبقت حاصل ہے ابراہیم رئیسی نے گزشتہ صدارتی انتخاب 2017 میںبھی حصہ لیا لیکن ناکام رہے موجودہ صدرحسن روحانی کل ڈالے گئے ووٹوں کا پچھتر فیصد لیکر کامیاب ہوگئے موجودہ صدر حسن روحانی کے الیکشن میں حصہ نہ لینے کی وجہ یہ ہے کہ وہ دوبار صدر منتخب ہو کر مدت گزار چکے ہیں آئین کے مطابق کوئی بھی لگاتار صدارتی انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتا ۔
سات امیدواروں میں سے ابراہیم رئیسی عدلیہ کے سابق سربراہ کے طور پر اچھی شہرت کے حامل ہیں دوسرے امیدوار سعید جلیلی جوہری مزاکرات کے حوالے سے معروف ہیں تیسرے امیدوار محسن رضائی پاسدارانِ انقلاب کے سابق کمانڈر ہیں چوتھے امیدوار عبدالناصر ہیماتی مرکزی بینک کے سابق گورنر ہیں پانچویں امیدوار محسن مہرالی زادہ سابق صوبائی گورنر رہے ہیں چھٹے امیدوارعلی رضا زکانی سابق رُکن اسمبلی ہیں جبکہ ساتویں میدوار قاضی زادے ہاشمی ہیں اصلاح پسند اور قدامت پسند وں کی کشا کش کے تناطر میں ساتوں امیدواروں کے ماضی پر نگاہ ڈوڑائیں تو ایک بات بڑی واضح نظر آتی ہے کہ امیدواروں کو صدارتی چُنائو میں حصہ لینے کی اجازت دیتے وقت طے شدہ معیارکو سختی سے پیشِ نظر رکھا گیا ہے البتہ اِس بار اجازت دیتے ہوئے قدامت پسند یعنی سخت مذہبی رجحان رکھنے والوں کو ترجیح دی گئی ہے ابراہیم رئیسی کے علاوہ بھی چار مزیدامیدواروں کا تعلق قدامت پسند طبقے سے ہے شاید اِس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ صدرحسن روحانی کا تعلق اصلاح پسندگروپ سے ہے جنھوں نے امریکا اور یورپی ممالک کے ساتھ جوہری معاہدہ کیا اور ایران پر عائد پابندیاں ختم کرانے کی کوششوں کے ساتھ سعودی عرب سے خراب تعلقات معمول پر لانے کے لیے بھی بات چیت شروع کرائی ماہرین کو خدشہ ہے کہ ابراہیم ریئسی کی کامیابی سے ایران جوہری اور میزائل پروگرام کو ترقی دینے کے لیے سودے بازی کی بجائے امریکا اور یورپی ممالک کی طرف دیکھنے کی بجائے چین پر انحصار بڑھاسکتا ہے ۔
آٹھ کروڑ سے زائد نفوس پر مشتمل ایران میں ووٹروں کی تعدادپانچ کروڑہے ملک کا ہر شہری معیشت کی دگرگوں صورتحال سے پریشان ہے ایک طرف مہنگائی اور بے روزگاری خوفناک حد تک بڑھ گئی ہے تو دوسری طرف ملک کی کرنسی قدر کھو رہی ہے اِسی بنا پرخارجی عوامل سے ذیادہ تمام امیدوارمعیشت کی بحالی کے منصوبے پیش کر رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایک قدامت پسند صدر عالمی پابندیاں ختم کر اسکے گا؟ ایرانی ووٹروں کا خیال ہے کہ اصلاح پسند صدر کو دوبار مواقع دینے کے بعد اب قدامت پسندکو موقع ملنا چاہیے ممکن ہے عدالتی سربراہ رہنے کے ناطے ممکن ہے وسائل کی منصفانہ تقسیم سے عام آدمی کے مسائل کم کرنے میں کامیاب ہو جائیں لیکن تیل کی قیمتیں مسلسل گراوٹ کا شکار ہیں طرفہ تماشہ پابندیوں کی وجہ سے تیل پیدا کرنے والے دنیا کے چوتھے بڑے ملک ایران سے اُس کا دیرینہ دوست بھارت بھی خریداری سے گریزاں ہے چینی سرمایہ کاری کے معاہدوں سے کچھ معاشی سنبھالا مل سکتا ہے اور جوہری معاہدے کی بحالی کے بعد امریکا کی طرف منجمد سات ارب ڈالر ملنے کا گرین سگنل خوشخبری سے کم نہیں لیکن اِس سے 12.5شرح نمو کا ہدف دوبارہ حاصل کرنا آسان نہیں نہ ہی بے روزگاری کی موجودہ شرح جو 12فیصد سے تجاوز کرنے لگی ہے میں فوری کمی کا امکان ہے علاوہ ازیں عالمی طاقتوں کا میزائل پروگرام کو مزاکرات کا حصہ بنانے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بہتر بنانے جیسے مطالبات پورا کرنابھی کافی مشکل ہے جی سیون جوہری ہتھیاروں کے عدم حصول کو یقینی بنانا چاہتا ہے اِ س لیے قدامت پسند صدر کے لیے عالمی طاقتوں کے مطالبات مسائل کی دلدل بڑھانے کا موجب بن سکتے ہیں۔
حکومتی امور کے لیے صدر کا عہدہ ہونے کے باوجود ایران میں دراصل اختیارات کا مرکز رہبرِ اعلٰی ہے جسے سپریم لیڈ ر کا لقب بھی حاصل ہے ایرانی انقلاب کے بانی آیت اللہ خمینی ملک کے پہلے رہبرِ اعلٰی بنے اب آیت اللہ خامنائی کے پاس رہبرِ اعلٰی کا منصب ہے جس کا معاون اسی اراکین پر مشتمل ایک اِدارہ ہے جسے رہبرِ اعلٰی کے انتخاب کا بھی اختیار ہے صدر کے پاس کچھ ذیادہ اختیارات نہیں ہوتے ایران میں امیدواروں کے درمیان مزاکرے جوبن پر ہیںاور تمام امیدوار معاشی حالت بہتر بنانے کے بلند وبانگ دعوے کررہے ہیں انتخابی عمل سے باہر کیے جانے پر احمدی نژاد کی طرف سے انکشافات کا الگ سلسلہ جاری ہے حال ہی میں اسرائیلی امور پر نظر رکھنے والے عہدیدار کے متعلق انھوں نے کہا ہے کہ وہ اسرائیلی کے لیے جاسوسی کرتا رہا ہے ایک ایسا ملک جس کے سائنسدان قتل اور معاشی زبوں حالی کا ہر آن خطرہ ہے آیا نیا قدامت پسند صدر خطرات کی روک تھام کر سکے گا یا رویے میںلچک کے زریعے ملک کو معاشی دلدل سے نکال پائے گا ؟اِس کا جواب ابراہیم رئیسی کی پالیسیوں کو دیکھ کر ہی دیا جا سکتا ہے امریکی عسکری ماہرین تو غیر مُبہم الفاظ میں کہتے ہیں کہ ایران ایک کھوکھلی طاقت ہے جو جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی ایک کھوکھلی طاقت کو دنیا کے لیے اہم بنانا ابراہیم ریئسی کے لیے کڑے امتحان سے کم نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔