... loading ...
جنوب امریکی علاقے کے ریڈانڈین قبائل سے تعلق رکھنے والے ایک سردار نے کبھی کہا تھا کہ ’’ جب سفید آدمی پہلی بار ہماری سرزمین پر آیا تھا تو اس کے پاس بائبل تھی اور ہمارے پاس وافر رزق، قیمتی ہیرے جواہرات اور زرخیز اراضی تھی لیکن اَب سفید آدمی کے پاس ہماری تمام وسیع و عریض زرخیز اراضی ہے جبکہ ہمارے پاس صرف بائبل رہ گئی ہے‘‘۔ امریکیوںکے توسیع پسندانہ عزائم کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ریڈ انڈین قبیلہ کے سردار کے کہے گئے درج بالا جملہ پر ہزار بار غور وفکر کیا جائے۔ بلاشبہ امریکا ایک عالمی طاقت ہے لیکن امریکا کے عالمی اقتدار کی بنیادوں میں بے شمار مظلوم ریڈ انڈین قبائل ، محکوم اقوام اور غریب ممالک کا خونِ ناحق اور قیمتی وسائل کی چمک دمک شامل ہے۔بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ امریکی اپنے آپ کو دنیا کی سب سے زیادہ تہذیب یافتہ اور جمہوری قوم سمجھتے ہیں اور تمدن و جمہوریت کا یہ ہی تحفہ وہ ہر قوم کو زبردستی دینا چاہتے ہیں ، لیکن اس کے عوض میں وہ مفتوح ملک کے
عوام کے تمام وسائل کو اپنے تصرف میں لینا ہرگز نہیں بھولتے ۔
یقینا افغانستان میں بھی امریکا افغان عوام کے لیے جمہوری نظام کا نام نہاد تحفہ لے کر اُن کے انتہائی قیمتی اور قدرتی معدنی وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے ہی حملہ آور ہوا تھااور کسی حد تک افغانستان کے معدنی وسائل اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہا۔ مگر یہاں کوہستانی مزاج کے حامل طالبان کی جانب سے ہونے والی 19برسوں پر محیط طویل ترین مزاحمت نے امریکا کو شدید جانی و مالی نقصانات سے دوچار کیا ۔ اگر یہ کہا جائے کہ امریکا کو افغانستان میں معاشی فوائد سے کہیں زیادہ شدید ترین مالی خسارہ برداشت کرنا پڑا تو بے جا نہ ہوگا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ طالبان نے امریکی حکام سے بائبل تو کیا لینا تھی ، حد تو یہ ہے کہ انہوں نے امریکی تہذیب اور جمہوریت کو کسی بھی سطح اور درجے میں قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ یعنی افغانستان امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی افواج ہی رسوا ہوکر نہیں نکل رہی ہے بلکہ امریکی جمہوریت کا جنازہ بھی وہ اپنے کاندھوں پر اُٹھا کر ساتھ ہی لے کر جارہے ہیں۔
اگر بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو بخوبی سمجھ آجائے گا کہ افغانستان سے امریکا اور اس کی اتحادی افواج کا انخلاء جدید عسکری تاریخ کی اَب تک کی سب سے بڑی شکست ہے اور شکست بھی ایسی عبرت ناک کہ جس میں سارے مطالبات اور شرائط طالبان کے تسلیم کیے گئے ہیں جبکہ امریکا کی صرف ایک ہی خواہش کا احترام کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ اُنہیں افغان سرزمین سے بحفاظت انخلاء کی اجازت ہوگی ۔اس واحد مطالبے کے علاوہ عالمی سپر پاور امریکا کی کسی اور خواہش یا مطالبہ کو طالبان کی جانب سے ذرہ برابر بھی در خو اعتنا نہیں برتاگیا۔واضح رہے کہ اکتوبر 2001 میں امریکہ نے طالبان کو بے دخل کرنے کے لیے افغانستان پر حملہ کیا تھا اورطالبان کی شورش کا مقابلہ کرنے اور نام نہاد تعمیر نو کے لیے فنڈ کی خاطر اربوں ڈالر خرچ کیے۔امریکی حکومت کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، 2010 سے لے کر 2012 کے درمیان، جب امریکہ کے ایک لاکھ سے زیادہ فوجی افغانستان میں موجود تھے، تو اس جنگ پر آنے والی لاگت ایک کھرب ڈالر سالانہ تک بڑھ گئی تھی۔جب امریکی فوج نے اپنی توجہ جارحانہ کارروائیوں سے ہٹا کر افغان افواج کی تربیت پر مرکوز کی تو ان اخراجات میں تیزی سے کمی واقع ہوئی۔2016 سے 2018 کے درمیان سالانہ اخراجات 40 ارب ڈالر کے لگ بھگ تھے، اور 2019 (ستمبر تک) کے لیے خرچ کا تخمینہ 38 ارب ڈالر ہے۔امریکی محکمہ دفاع کے مطابق افغانستان میں (اکتوبر 2001 سے ستمبر 2019 تک) مجموعی فوجی اخراجات 778 بلین ڈالر تھے۔
اس کے علاوہ امریکی محکمہ خارجہ، امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) اور دیگر سرکاری ایجنسیوں نے تعمیر نو کے منصوبوں پر 44 ارب ڈالر خرچ کیے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2001 میں جنگ کے آعاز سے اب تک آنے والی مجموعی لاگت 822 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ لیکن اس میں پاکستان میں آنے والے اخراجات شامل نہیں جسے امریکہ افغان سے متعلقہ کارروائیوں کے لیے اپنے فوجی اڈے کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے۔براؤن یونیورسٹی کی جانب سے ’’کاسٹ آف وار‘‘منصوبے میں ایک تحقیق کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکی جنگ کے بارے میں امریکہ کے سرکاری اعداد و شمار کافی حد تک کم ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ کانگریس نے افغانستان عسکری آپریشنز کے لیے 978 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ اِن اخراجات میںجنگ کے دوران ریٹائر اور زخمی ہونے والے سابق فوجیوں کی دیکھ بھال، جنگ سے متعلقہ سرگرمیوں کے لیے دوسرے سرکاری محکموں پر خرچ کی جانے والی رقم اور قرض پر سود کی لاگت کے اخراجات شامل نہیں ہیں۔
افغان جنگ میں امریکا کا کثیر مالی نقصان ہونے کے علاوہ جانی نقصان بھی کچھ کم نہیں ہوا۔ایک محتاط اندازے کے مطابق2001 میں جب سے طالبان کے خلاف جنگ کا آغاز ہوا تب سے اب تک امریکی افواج کو 2300 سے زیادہ ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس کارروائی میں 20660 فوجی زخمی ہوئے ہیں۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دسمبر 2019 تک امریکی فوج کے تقریباً تیرہ ہزار اہلکار افغانستان میں تھے لیکن وہاں تقریباً گیارہ ہزار امریکی شہری بھی تھے جو کنٹریکٹر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔لیکن افغان سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کے جانی نقصان کے مقابلے میں امریکی ہلاکتوں کے اعداد و شمار بہت کم ہیں۔افغان صدر اشرف نے پچھلے سال اپنے ایک بیان میں اعتراف کیا تھا کہ 2014 میں ان کے صدر بننے کے بعد سے افغان سکیورٹی فورسز کے 45 ہزار سے زیادہ ارکان ہلاک ہوچکے ہیں۔افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے ہلاکتوں کے اعداد و شمار ظاہر کرنے کا فیصلہ انتہائی غیر معمولی تھا کیونکہ امریکی اور افغان حکومتیں عام طور پر افغان ہلاکتوں کی تعداد شائع نہیں کرتی تھیں۔تاہم کچھ میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ حالیہ برسوں میں افغان سیکیورٹی فورسز کی ہلاکتیں بہت زیادہ ہوئیں اور بعض اوقات ایک دن میں اوسطاً 30 سے 40 اموات ہوتی ہیں۔افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یوناما) کے مطابق جب سے اس نے 2009 میں باقاعدگی سے شہری ہلاکتوں کا شمار رکھنا شروع کیا تھا تب سے ایک لاکھ سے زیادہ شہری ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔
افغان سرزمین پر ہونے والے بے پناہ جانی و مالی نقصان نے ہی امریکی حکام کو افغانستان سے امریکی افواج کے جلد ازجلد انخلاء کا کڑوا گھونٹ بھرنے پر مجبور کیا ہے۔ لیکن سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ غیرملکی فوجیوں کی واپسی کے بعد افغانستان میں تقریباً طاقت کا توازن طالبان کے پلڑے میں آ جائے گا، مگر ایسے میں یہ مسئلہ بھی ہے کہ طالبان ایک گروہ یا ایک خام طاقت کا نام نہیں ہے۔ یہ مختلف گروہوں میں بٹے ہوتے ہیں، زبان، نسل، مسلک کی تفریق اپنی جگہ بڑی تفریق شمال اور جنوب کی ہے۔ موجودہ افغان حکومت میں اشرف غنی جنوب کے پشتو بیلٹ کی اور عبداللہ عبداللہ شمال میں فارسی بیلٹ کی نمائندگی کرتے ہیں اور دونوں رہنمائوں کے آپس میں شدید اختلاف ہیں۔افغان طالبان کا یہ مشہور جملہ یا محاورہ بہت کچھ سوچنے پر مائل کرتا ہے کہ ’’امریکا کے پاس گھڑی ہے اور ہمارے پاس وقت۔‘‘
جہاں تک بات اشرف غنی کی کٹھ پتلی جمہوری حکومت کی ہے تو اس کے قدم ابھی سے لڑکھڑانے شروع ہوگئے ۔کیونکہ طالبان نے امریکی افواج کے تیز رفتار انخلاء سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اشرف غنی کی افغان فورسز کو انتہائی سرعت کے ساتھ نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق گزشتہ صرف ایک ہفتے میں افغانستان کے 34 میں سے 26 صوبوں میں تیزی کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہلاکتوں میں پریشان کن اضافہ ہوچکا ہے۔افغان حکومت کا کہنا ہے کہ امریکا کی جانب سے 11 ستمبر تک مکمل فوجی انخلا کے اعلان کے ساتھ ہی علاقوں کے حصول کے لیے لڑائی میں اضافہ ہوا ہے۔مقامی عہدیدار کا کہنا تھا کہ طالبان نے مغربی صوبے غور کے ضلع شہراک کا قبضہ حاصل کرلیا ہے اور شدید لڑائی کے بعد فوج کو قریبی گاؤں میں دھکیل دیا ہے۔یاد رہے کہ یہ علاقہ دارالحکومت کابل سے ایک گھنٹے سے کم فاصلے پر موجود ہے۔ ایک سینئر افغان عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’’گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران سیکیورٹی فورسز کی 157 ہلاکتیں ہوئی ہیں‘‘۔اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ آئندہ ایک دو ماہ میں کسی بھی وقت طالبان اشرف غنی حکومت کو معزول کرکے کابل میں اپنا اقتدار مستحکم کرسکتے ہیں۔ یقینا کابل میں طالبان کی باضابطہ حکومت قائم ہونے کے بعد امریکا اس خطے سے پوری طرح سے بے دخل ہوجائے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭