... loading ...
وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے مالی سال 2020-21 کا اقتصادی سروے جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی معیشت نے رواں مالی سال کے دوران زبردست ترقی کی اور تقریبا چار فیصد کی شرح نمو حاصل کی جو گزشتہ دو برس کی نسبت کہیں زیادہ ہے ۔مالیاتی خسارہ آٹھ اعشاریہ ایک فیصد رہا، ایف بی آر کی ٹیکس وصولی میں گزشتہ سال کی نسبت اٹھارہ فیصد اضافہ ہوا، جبکہ اس سال ترسیلات زر میں انتیس فیصد اضافہ ہوا،زراعت کی شرح نمو دو اعشاریہ آٹھ فیصد’ صنعتوں کی تین اعشاریہ چھ فیصد اور خدمات کے شعبے کی شرح نمو چار اعشاریہ چار فیصد رہی۔صنعت میں بڑے پیمانے پر مینو فیکچرنگ اور چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کی مد میں مینو فیکچرنگ کی شرح آٹھ اعشاریہ سات فیصد رہی۔ بڑے پیمانے پر مینو فیکچرنگ میں تقریبا نوفیصد اضافہ ہوا۔تعمیرات کے شعبے کی شر ح آٹھ اعشاریہ تین فیصد رہی۔جمعرات کواسلام آباد میں صنعتوں اور پیداوار کے وزیر خسرو بختیار ‘ مشیر تجارت رزاق داود’ غربت کے خاتمے کے لئے معاون خصوصی ثانیہ نشتر اور ریونیو کے لئے معاون خصوصی وقار مسعود کے ہمراہ ایک نیوز کانفرنس میں اقتصادی سروے جاری کرتے وزیرخزانہ نے کہا کہ مالی سال 2021 کا آغاز عالمی وبا کورونا وائرس کے دوران ہوا۔ اس حکومت نے موثر پالیسی کی بدولت کووِڈ کے اثرات کو زائل کیا اور گزشتہ برس جولائی میں معاشی سرگرمیاں بحال ہونا شروع ہوگئیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے دور اندیش فیصلے کیے جس میں وزیراعظم کا اسمارٹ لاک ڈاون کا بڑا فیصلہ بھی شامل ہے اس کے علاوہ مانیٹری اور فسکل فیصلے ہوئے ، اہم وزارتوں میں مراعات کے فیصلے کیے گئے جن میں تعمیرات کا شعبہ بھی شامل ہے اور وزیراعظم نے اس میں آئی ایم ایف سے خصوصی مراعات لیں۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ اس کے بعد تیزی سے ویکسینیشن کا سلسلہ شروع ہوا اور این سی او سی کا قیام اور ایک چھت تلے فیصلہ لینا بہت بڑا عمل تھا جس کی وجہ سے گزشتہ برس بھی کووِڈ پر قابو پایا گیا اور فروری مارچ میں تیسری لہر کے دوران بھی اسے کنٹرول کرلیا گیا۔انہوں نے کہاکہ مجموعی ملکی پیداوار کا حجم مارکیٹ کی موجودہ قیمت کے مطابق سینتالیس ہزار سات سو نو ارب روپے ہے جس سے گزشتہ سال چودہ اعشاریہ آٹھ فیصد کا اضافہ ظاہر ہوتا ہے ۔شوکت ترین نے بتایا کہ جب کووِڈ 19 شروع ہوا اس وقت تقریبا 5 کروڑ 60 لاکھ افراد برسرِ روزگار تھے جن کی تعداد گر کر 3 کروڑ 50 لاکھ پر آگئی یعنی 2 کروڑ لوگ بے روزگار ہوگئے ۔ان کا کہنا تھا کہ کووڈ سے متعلق وزیراعظم کی بڑی محتاط قسم کی پالیسیاں تھیں جس پر بہت سے ممالک نے عمل نہیں کیا بلکہ خود ہمارے ملک میں ابتدا میں اس پر شک و شبہ ظاہر کیا جاتا رہا۔انہوں نے کہا کہ ان پالیسیوں کی بدولت اکتوبر 2020 میں برسر روزگار افراد کی تعداد دوبارہ 5 تقریبا کروڑ 30 لاکھ ہوگئی اس کا مطلب ساڑھے 5 کروڑ میں سے 25 لاکھ کے قریب لوگ باقی رہ گئے اور معیشت بھی بحالی کی جانب گامزن ہونا شروع ہوگئی۔وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ بجٹ میں حکومت کا اپنا اندازہ 2.1 فیصد شرح نمو کا تھا جبکہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کا تخمینہ تو اس سے بھی کم تھا لیکن حکومت نے جو فیصلے لیے مینوفیکچرنگ، ٹیکسٹائل، زراعت اور تعمیراتی شعبے کو گیس، بجلی اور دیگر مد میں مراعات دی گئیں جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے کی مینوفیکچرنگ نے مثبت نمو کا مظاہرہ کیا جو تقریبا 9 فیصد تھی۔سروے کے مطابق پاکستان میں مالی سال پاکستان میں مالی سال 2020-21 میں عبوری شرح نمو 3.94 فیصد رہی، جو مجموعی طور پر تمام شعبوں میں ریباونڈ کی بنیاد پر حاصل ہوئی،ان کا کہنا تھا کہ زراعت نے 2.77 فیصد نمو کی حالانکہ کپاس خراب ہونے کی وجہ سے ہمیں نمو منفی ہونے کا اندیشہ تھا لیکن باقی 4 فصلوں، گندم، چاول، گنا اور مکئی نے بہتر کارکردگی دکھائی۔صنعتی شعبے میں 3.6 فیصد اضافہ ہوا جبکہ خدمات میں 4.4 فیصد اضافہ ہوا حالانکہ اس کا ہدف 2.6فیصد تھا۔گزشتہ برس جب شرح نمو 0.4 فیصد تو صنعت اور خدمات میں بالترتیب 2.6 اور 0.59فیصد پر منفی تھی۔شوکت ترین نے کہا کہ لارج اسکیل مینوفیکچرنگ(ایل ایس ایم) میں 9 فیصد اضافہ ہوا، جس سے مجموعی طور پر شرح نمو میں اضافے میں مدد ملی۔انہوں نے کہا کہ ترسیلات زرِ نے ریکارڈ قائم کردیا اور اس وقت ترسیلات زر 26 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکی ہیں اور ہمارے اندازے کے مطابق 29 ارب ڈالر تک جائیں گی۔وزیر خزانہ نے کہا کہ معیشت نے نمو کرنا شروع کیا تو تیل کی قیمت بڑھی اور اشیائے خورونوش کی درآمد میں اضافہ ہوا، ہم نے گندم اور چینی درآمد کی اور جو پاکستان اشیائے خورونوش برآمد کرنے والا تھا وہ درآمد کنندہ بن گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ترسیلات زرِ میں اضافہ سمندر پار پاکستانیوں کا وزیراعظم عمران خان سے خصوصی تعلق کو ظاہر کرتا ہے ، عالمی بینک اور متعدد تحقیقات میں خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ کووِڈ بحران کے باعث ترسیلات زر میں کمی آئے گی لیکن اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ اس وقت 29 فیصد سے بڑھ رہی ہیں جو ریکارڈ ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ ترسیلات زر کو اللہ نے ہمارے لیے فرشتہ بنا کر بھیج دیا کیوں کہ ہمارے غیر ملکی زرِ مبادلہ کے لیے یہ انتہائی اہم تھا جس سے ہمارا کرنٹ اکاونٹ گزشتہ 10 ماہ سے سرپلس ہے ۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ روشن ڈیجیٹل اکاونٹس میں ایک ارب ڈالر سے زیادہ رقم آچکی ہے جبکہ اسٹیٹ بینک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر جو 19-2018 میں 7 ارب ڈالر پر چلے گئے تھے اب 16 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں جو 4 سال کی بلند ترین سطح ہے ۔شوکت ترین نے کہا کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(ایف اے ٹی ایف) کے حوالے سے اچھی کارکردگی ہے اور ہمارا خیال ہے کہ آئندہ جائزاتی اجلاس میں ہمیں ریلیف مل جائے گا، میں اس وقت یہ پیش گوئی نہیں کرسکتا کہ ہم گرے سے وائٹ لسٹ پر آجائیں گے لیکن ان کی کمیٹیوں سے ملنے والا فیڈ بیک خاصہ تسلی بخش ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر)کی ٹیکس کلیکشن بھی بہت بہتر ہے اور 11 ماہ کے دوران ہم 42 کھرب روپے تک پہنچ گئے ہیں جو گزشتہ برس سے 18 فیصد زائد ہے حالانکہ مالی سال کے آغاز میں کسی کو اتنا بہتر ہونے کا اندازہ نہیں تھا۔انہوں نے بتایا کہ مارچ کے بعد سے ماہانہ بنیاد پر ٹیکس کلیکشن کی نمو 50 سے 60 فیصد زیادہ ہے اس لیے ہمارا اندازہ ہے کہ ہم 47 کھرب روپے کے تخمینے سے بھی آگے نکل جائیں گے ۔انہوں نے کہا اسی اندازے کی بنیاد پر اگلے سال کے بجٹ میں یہ تخمینہ 58 کھرب روپے رکھا ہے ، پرائمری بیلنس کو سرپلس میں لے کر چلے گئے ہیں جو 12 سال میں پہلی مرتبہ ہوا۔سروے کے مطابق مالی سال 2021 کے دوران جب دنیا کو کووڈ کے باعث معاشی مشکلات کا سامنا تھا تو پاکستان کی بیرونی ترسیلات زر نے مزاحمت دکھائی۔انہوں نے کہا کہ جولائی سے مارچ میں مالی سال 2021 کے دوران کرنٹ اکاونٹ 95 کروڑ 90 لاکھ ڈالر (جی ڈی پی کا0.5 فیصد)سرپلس تھا جس کے مقابلے گزشتہ برس خسارہ 4 ہزار 141 ملین ڈالر تھا جو جی ڈی پی کا 2.1 فیصد تھا۔ان کا کہنا تھا کہ کرنٹ اکاونٹ کے توازن میں بہتری کے لیے بنیادی کردار بیرونی ترسیلات میں بے پناہ اضافہ تھا۔اس حوالے سے مزید کہا کہ ‘انفلو میں سال بہ اضافہ اس دورانیے میں 26.2 فیصد تھا جبکہ اسی دوران گزشتہ سال کم تھی اور عام توقعات بھی کمی کی تھیں۔سروے میں کہا گیا کہ مالی سال 2021 میں جولائی سے مارچ کے دوران مصنوعات کی برآمدات میں 2.3 فیصد سے 18.7 ارب ڈالر اضافہ ہوا جو جو ایک سال قبل اسی دوران 18.3 ارب ڈالر تھیں۔مصنوعات کی درآمدات 9.4 فیصد 37.4 ارب ڈالر اضافہ ہوا جو گزشتہ برس 34.2 فیصد تھی، جس کے نتیجے میں تجارتی خسارہ 17.7 فیصد 18.7 ارب ڈالر تھا جبکہ ایک سال قبل 15.9ارب ڈالر تھا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ مہنگائی کی بات ہوتی ہے لیکن ہم خالصتا اشیائے خورونوش درآمد کرنے والا ملک بن گئے ہیں ہم گندم، چینی، دالیں، گھی درآمد کررہے ہیں جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر قیمتوں میں آنے والے اتار چڑھا سے متاثر ہیں اس سے بچ نہیں سکتے ۔وزیر خزانہ کے مطابق گزشتہ 12 ماہ کے دوران چینی کی عالمی قیمتیں 58 فیصد بڑھیں جبکہ ہمارے ہاں چینی کی قیمت 19 فیصد بڑھی، پام آئل کی قیمت میں 102 فیصد، سویابین کی قیمت میں 119 فیصد ہوا جبکہ ہمارے ہاں پام آئل کی قیمت میں صرف 20 فیصد اضافہ ہوا۔انہوں نے کہا خام تیل کی قیمت میں 119 فیصد اضافہ ہوا جس کے اثرات ہم نے عوام تک پہنچنے نہیں دیے اور گزشتہ سوا ماہ سے بالکل بھی تیل کی قیمت میں اضافہ نہیں کیا جارہا، مجموعی طور پر ہمارے ہاں تیل کی قیمت میں 32 فیصد اضافہ ہوا یعنی 86 فیصد ہم نے جذب کرلیا۔وزیر خزانہ کے مطابق عالمی منڈی میں گندم کی قیمت میں 29 فیصد اضافہ ہوا تو ہمیں بھی 29 فیصد ہی بڑھانی پڑی اس میں فرق نہیں ہے البتہ چائے کی قیمت 8 فیصد بڑھی لیکن ہم نیکوئی اضافہ نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ ہم قیمتیں کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن یہ ابھی بھی زیادہ ہیں جس کا اثر عام آدمی پر پڑ رہا ہے اور اس کا حل اپنی زرعی پیداوار میں اضافہ کرنا ہے جس پر بجٹ میں بہت زور دیا گیا ہے اور ہماری کوشش ہے کہ ہم دوبارہ نیٹ ایکسپورٹر بنیں کیوں کہ اپنی پیداوار کی قیمتیں ہم کنٹرول کرسکتے ہیں۔وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہول سیل مارکیٹ میں لوگ بہت زیادہ مارجن بنا رہے ہیں جسے ہم ختم کرنا چاہتے ہیں ہم زرعی شعبے اشیائے خورونوش کے گودام اور کولڈ اسٹوریج لارہے ہیں جس سے آڑھتیوں سے جان چھوٹے گی اور ہم 4 سے 5 اہم چیزوں، گندم، چینی، دالیں میں اسٹریٹجک ریزرو بنا رہے ہیں تا کہ ذخیرہ اندوزی نہ ہوسکے ۔انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ہماری اسٹاک مارکیٹ ایشیا میں سب سے بہترین ہے ، شرح سود میں اضافہ، ایکسچینج ریٹ بڑھنے سے قرضوں کی ادائیگیاں 15 سو ارب سے بڑھ کر 3 ہزار ارب روپے تک جا پہنچیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ مارچ کے اختتام تک ہمارا مجموعی قرض 380 کھرب روپے تھا جس میں سے ڈھائی سو کھرب مقامی قرض جبکہ تقریبا 120 کھرب غیر ملکی قرض ہے جس میں گزشتہ برس کے مقابلے صرف تقریبا 17کھرب روپے کا اضافہ ہوا ہے جبکہ اس سے پہلے والے سال میں یہ اضافہ 36 کھرب روپے تھا۔انہوں نے بتایا کہ اس دفعہ قرضوں میں اضافہ گزشتہ برس کے مقابلے نصف سے بھی کم ہے ، گزشتہ برس کے مقابلے غیر ملکی قرض 7کھرب روپے کم ہے اور یہ جون 2020 میں 131 کھرب روپے تھا جو 125 کھرب روپے پر آگیا ہے ۔وزیر خزانہ نے کہا کہ قرض مجبوری ہے مالی خسارہ زیادہ ہوگا تو کہیں سے تو ریفنڈ کرنا ہے یا تو ریونیو بڑھ جائے اور یہ عارضی بھی تھا کیوں کہ ایک وقت میں شرح سود 13.25 فیصد تک جا پہنچی تھی جو واپس 7 فیصد پر آنے سے اس میں استحکام آتا جارہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان بین الاقوامی مارکیٹ میں گیا 5 ارب 30 کروڑ روپے کی ڈیمانڈ تھی جس پر ڈھائی ارب ڈالر لیے گئے ۔انہوں نے مزید کہا کہ صنعتوں میں سستے ٹیرف کے ذریعے بجلی کی کھپت بڑھانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں 26 فیصد اضافہ ہوا، سیلولر فونز 18 کروڑ 20 لاکھ ہوگئے ہیں جبکہ براڈ بینڈ کے تقریبا 10 کروڑ سبسکرائبر ہوگئے ہیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ احساس پروگرام کو ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے ایک کروڑ 50 لاکھ گھرانوں تک پہنچایا اور اس میں ایمرجنسی کیش اور دیگر مراعات دی گئیں۔اسی طرح وزیراعظم نے کامیاب جواب پروگرام کا اجرا کیا جس سے ساڑھے 8 سے 9 ہزار افراد مستفید ہوچکے ہیں، بلین ٹری سونامی کے تحت ایک ارب درخت لگائے جاچکے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ریٹنگ اداروں موڈیز، فچ وغیرہ نے ہماری کریڈٹ ریٹنگ بہتر کی یہ اس بات کی سند ہے کہ ہمارا استحکام کا پروگرام کامیاب ہوا اور اب ہمیں پائیدار معاشی نمو کی جانب جانا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ کب تک ہم معیشت مستحکم کرنے میں لگے رہیں گے معیشت کا پہیہ تیز چلا کر جب شرح نمو 7 سے 8 فیصد پر لے جائیں گے اسی وقت نوجوان نسل کو درکار روزگار فراہم کرسکیں گے ۔انہوں نے بتایا کہ اس مرتبہ بجٹ میں سب سے بڑی چیز یہ ہوگی کہ ہم نے غریب کا خیال رکھنا ہے ، استحکام کے دوران اور 74 سال سے غریب پسا ہے جسے ہم خواب دکھاتے رہے ہیں کہ اوپر سے معیشت ترقی کرے گی تو اس کے اثرات نیچے آئیں گے حالانکہ یہ اس وقت ہوسکتا ہے جب نمو پائیدار اور 20 سے 30 سال تک مسلسل ہو جیسے چین، بھارت اور ترکی میں ہے ۔وزیر خزانہ نے کہا کہ جو ممالک پائیدار ترقی کرتے ہیں انہوں نے ہی 20 سے 30 سال تک مستحکم نمو کی ہے جبکہ ہماری نمو پیسے ادھار لے کر، کریڈٹ کی بنیاد پر ہوتی ہے اور 4 سے 5 سال بعد ہم دوبارہ وہیں کھڑے ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس سے غریب شخص کے لیے گھر، کاروبار، صحت سہولیات، اسکل ڈیولپمنٹ صرف خواب ہی رہ جاتا ہے لیکن اس مرتبہ آپ بجٹ میں دیکھیں گیکہ ہم نے اس پر توجہ دی ہے ، جو پہلے اس لیے نہیں ہوا کہ انہیں طریقہ نہیں آتا تھا لیکن ہم اب طریقہ سکھائیں گے ۔وزیرخزانہ نے کہا کہ ہمارے کمرشل بینکوں کو نچلے طبقے کو قرض دینا آتا ہی نہیں لیکن ہم بجٹ میں بتائیں گے 40 سے 60 لاکھ غریب گھرانوں کے خواب کو کس طرح پورا کریں گے ۔انہوں نے بتایا کہ اس وقت شرح نمو 4 فیصد پہنچنے میں بڑے پیمانے کی مینوفیکچرنگ کا حصہ 9 فیصد ہے لیکن چھوٹی اور متوسط صنعتوں (ایس ایم ایز)پر توجہ دی جائے گی جو کہ 60 سے 80 لاکھ ہیں لیکن بینکنگ سیکٹر میں ان کا قرض محض ایک لاکھ 80 ہزار ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ 75 فیصد کریڈٹ کارپوریٹ سیکٹر لے جائے اور ایس ایم ایز کو صرف 6 فیصد ملے جسے ہم نے بہتر کرنا ہے ساتھ ہی بڑے پیمانے کی مینوفیکچرنگ کو ٹھیک کرنے کے علاوہ برآمدات بہتر بنانی ہے ۔وزیر خزانہ نے اس مرتبہ ہم اپنا پیراڈئم تبدیل کردینا ہے اور وزارت خزانہ یا ایف بی آر کے بجائے وزارت تجارت بتائے گی کہ کس صنعت کو کتنی مراعات دی جائے گی۔شوکت ترین نے کہا کہ اس وقت انفارمیشن ٹیکنالوجی کا شعبہ 40 سے 50 فیصد نمو کررہا ہے جسے ہم آئندہ برس 100 فیصد تک پہنچانا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں مراعات دی جائیں گی۔انہوں نے کہا کہ سال 2000 میں بھارت کی آئی ٹی ایکسپورٹ ایک ارب ڈالر تھی جو 2010 تک 100 ارب ڈالر پر پہنچ گئی تھی یعنی 10 سال میں 100 گنا بڑھی تو کیا ہم 40 سے 50 فیصد نہیں بڑھا سکے ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں برآمدات میں اضافہ کرنا ہے کیوں کہ جب بھی درآمدات بڑھتی ہے تو اس سے ڈالر ختم ہوجاتے ہیں اسلیے ہمیں ایکسپورٹ، ایف ڈی آئی میں اضافہ کرنا ہے اپنے پاس ڈالر کا انفلو بڑھانا ہے ۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ہاوسنگ سیکٹر نے گزشتہ برس ساڑھے 8 فیصد ترقی کی جس میں اضافے کی گنجائش ہے اور ہم اس میں نمو چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ توانائی ہمارے لیے بہت بڑا بلیک ہول ہے ، گنجائش میں ضرورت سے زیادہ اضافہ کردیا گیا اور اس کی ادائیگیاں اب ہمیں کرنی پڑ رہی ہیں کیوں کہ جتنی گنجائش ہم پیدا کرچکے ہیں تو آئندہ 5 سے 6 برسوں میں 7 سے 8 فیصد نمو کرنے پر بھی مشکل سے ہی استعمال ہوگی۔انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے بجلی کے نرخ بڑھانے پر اصرار کیا گیا لیکن وزیراعظم نے بڑھانے سے انکار کردیا اس لیے ہماری کوشش ہے کہ اس میں جدت لائیں جس سے نرخ بھی نہ بڑھیں اور گردشی قرض بھی ختم ہوجائے ،شوکت ترین نے کہا رواں برس کے وسط میں ساڑھے 4 سو ارب روپے کا گردشی قرض آنا تھا جو 2 سے ڈھائی سو ارب کے درمیان رہا اور ہم چاہتے ہیں کہ یہ صفر اور بتدریج کم ہونا شروع ہوجائے ۔وزیر خزانہ نے کہا پاور سیکٹر ہمارے لیے چیلنج ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ اس چیلنج پر پورا اتریں۔پاک چین اقتصادی راہداری(سی پیک)کے حوالے سے وزیر خزانہ نے کہا کہ سی پیک کے تحت انفرا اسٹرکچر بنایا گیا ہے اور خصوصی اقتصادی زونز بھی قائم کیے جاچکے ہیں لیکن گزشتہ 6 ، 7 برسوں سے ہم سے کوتاہی ہوئی کہ ہمیں یہاں سرمایہ کار لے کر آنے چاہیے تھے ، ہم چاہیں گے کہ وہ سی پیک استعمال کریں۔انہوں نے کہا کہ چین آئندہ 10 برسوں میں 8 کروڑ 50 لاکھ روز گار دیگر ممالک کو دے رہا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں بھی حصہ ملے اسلیے ہم انہیں کہہ رہے ہیں کہ آپ بتائیں ان اکنامک زونز میں آپ کو کیا مراعات چاہیے ہم دینے کو تیار ہیں آپ یہاںں مینوفیکچرنگ کے لیے سرمایہ کاروں کو یہاں لائیں کیوں کہ ہمیں سرمایہ کاری اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے ڈالر بھی کمانے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ریاستی ملکیت کے اداروں پر پیسہ ضائع ہونے کی بات ہوتی ہے تو 30 سال سے نجکاری کی باتیں ہورہی ہیں لیکن نجکاری نہیں ہوئی کیوں کہ جب سیاسی جماعتوں اور وزارتوں کے ہاتھ میں اداروں کا اختیار آجاتا ہے تو انہیں اسے اپنے پاس ہی رکھنا اچھا لگتا ہے لیکن یہ ہمارے لیے ٹھیک نہیں ہے ۔انہوں مزید کہا کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں، پی آئی اے ، ریلویز سب خسارے میں ہیں اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ نجکاری کمیشن میں پروفیشنلز کا بورڈ بنائیں گے اور 15 اداروں کو وزارت سے نکال کر ان کے ماتحت کردیں گے جو انہیں اہداف دیں گے اور 26 فیصد فروخت کردیں گے ۔وزیر خزانہ نے کہا کہ بات کی جاتی ہے بینکوں کی نجکاری ہوگئی لیکن بینکنگ کیا کررہی ہے بینکنگ فٹ پرنٹ مجموعی ملکی پیداوار کا صرف 33 فیصد ہے جو دنیا کی کم ترین شرح میں سے ایک ہے بنگلہ دیش کی جی ڈی پی میں بینکنگ کی شرح 50 فیصد، کوریا کی 180 فیصد، چین کی 225 فیصد ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہماری صرف 33 فیصد ہے اور اس میں بھی اے ڈی آر 50 سے کم ہے اس کا مطلب یہ کہ 16 فیصد فارمل بینکنگ جی ڈی پی کو سپورٹ کرتی ہے جسے ٹھیک کرنا ہے ۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ملک کے 9 شہر بینکنگ کا 85 فیصد کریڈٹ لے جاتے ہیں باقیوں کا کیا قصور ہے اسے ٹھیک کرنا ہے ، ریجنل بینکس، ریجنل ہاوسنگ بینکس بنانے ہیں جس کے فنانشل سیکٹر کی ری اسٹرکچرنگ کرنے پڑے گی انہوں نے کہا کہ حکومت نے کورونا وبا سے موثر طورپر نمٹا جس سے کاروباری سرگرمیاں جاری رہیں اور اعتماد بڑھا ۔پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں تیزی کا رجحان پراطمینان ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اسٹک ایکس چینج ایشیا کی بہترین مارکیٹ کے طورپر ابھری ہے ،انہوں نے کہاکہ تعمیرات، مینوفیکچرنگ اور ٹیکسٹائل سمیت مختلف شعبوں میں خصوصی طورپر مراعات دی گئی ہیں اور زرعی شعبے کی ترقی کیلئے بھی اقدامات کئے گئے ہیں ، گندم ، گنے اورمکئی کی شاندار فصلوں سے زرعی شعبے کی ترقی کو فروغ ملا ہے ۔شوکت ترین نے کہاکہ استحکام لانے کا حکومت کا پروگرام کامیاب رہا ہے اور اب شرح نمو پرتوجہ مرکوز کی جارہی ہے انہوں نے کہاکہ ہمیں نوجوانوں کو روزگار کے مواقع کی فراہمی کیلئے بلند شرح نمو پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔وزیر خزانہ نے کہاکہ معاشرے کے غریب طبقوں کی فلاح وبہبود اور ان کا معیار زندگی بلند کرنے کیلئے بجٹ میں خصوصی اقدامات شامل کئے گئے ہیں ۔شوکت ترین نے کہاکہ عالمی منڈی میں خام تیل، خوردنی تیل، چینی اور چائے جیسی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود اس اضافے کا پورا بوجھ صارفین پرنہیں ڈالا گیا ۔وزیر خزانہ نے کہاکہ2018 کے بعد سے فی کس آمدنی میں 36.6 فیصد تک کا نمایاں اضافہ ہوا ہے جبکہ اس عرصے کے دوران مہنگائی 25 فیصدبڑھی ہے ۔اگرچہ عالمی منڈی میں بلند افراط زر کی وجہ سے اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہواہے ‘ صارفین یک قوت خرید افراط زر کی شرح سے بلند ہے ۔کورونا وبا کے بعد اسٹیٹ بینک نے شرح منافع تیرہ اعشاریہ دو پانچ فیصد سے کم کرکے سات فیصد کر دی جس سے قومی معیشت کو چارسو ستر ارب روپے کا اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑا۔۔
سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...
آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...
خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...
اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...
وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا کرا کر دم لیں گے ۔پشاور میں میڈیا سے گفتگو میں علی امین گنڈاپور نے کہا کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا اور اپنے مطالبات منوا کر ہی دم لیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہم سب کے لیے تحریک انصاف کا نعرہ’ ا...
دریں اثناء پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 24 نومبر کو احتجاج کے تمام امور پر نظر رکھنے کے لیے مانیٹرنگ یونٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ پنجاب سے قافلوں کے لیے 10 رکنی مانیٹرنگ کمیٹی بنا دی۔تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قیادت کو تمام قافلوں کی تفصیلات فراہم...
ایڈیشنل سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی فردوس شمیم نقوی نے کمیٹیوں کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے ۔جڑواں شہروں کیلئے 12 رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں اسلام آباد اور راولپنڈی سے 6، 6 پی ٹی آئی رہنماؤں کو شامل کیا گیا ہے ۔کمیٹی میں اسلام آباد سے عامر مغل، شیر افضل مروت، شعیب ...
اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ ٹو کیس میں دس دس لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض بانی پی ٹی آئی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ہائیکورٹ میں توشہ خانہ ٹو کیس میں بانی پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت ہوئی۔ایف آئی اے پر...