... loading ...
(مہمان کالم)
ایلین پیلٹیر
جب بلجیم نے یہ اعلان کیا کہ وہ ان خواتین کو پھر سے قبول کرنے کے لیے تیا رہے جنہوں نے اپنے بچوں سمیت داعش میں شمولیت اختیار کر لی تھی تو جیسی وین ایٹویلڈی نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا حالانکہ وہ یہ با ت بخوبی جانتی تھی کہ اس کی باقی زندگی جیل میں بھی گز رسکتی ہے۔وہ اور اس کے دونوں بچے کم از کم دو سال سے شام کے حراستی مرکز میں تھے۔اس نے کہا کہ میرا یہ خواب ہے کہ میرے بچے جن کا باپ داعش کے لیے لڑتا رہا‘ بلجیم میں اسکول جائیں۔ اگربلجیم اسے واپس لے لیتا ہے تو اس مقصد کے لیے وہ 2014ء میں عسکریت پسند گروپ میں شمولیت کے جرم کی کوئی بھی سزا بھگتنے کے لیے تیار ہے۔ 43سالہ جیسی وین نے اپنے وٹس ایپ وائس میسج میں کہا ہے ’’شاید حکومت کواس بات کا احساس ہوگیا ہو کہ جو واپس آنا چاہتے ہیں انہیں اپنی اس غلطی پر ندامت ہے اوروہ ایک سیکنڈ چانس چاہتے ہیں‘‘۔
بہت سے یورپی ممالک نے ان لوگوں کو واپس لینے سے انکار کر دیا ہے جن کا داعش سے کسی بھی قسم کا تعلق رہا ہو؛ تاہم کچھ ممالک نے‘ جن میں فن لینڈ اور بلجیم شامل ہیں‘ اب ان سکیورٹی ماہرین اور انسانی حقوق کے گروپس کے مشورے پر توجہ دینا شرو ع کر دی ہے جن کا کہنا ہے کہ ایسے لوگوں کی واپسی اور معاشرے میں دوبارہ بحالی ہی محفوظ ترین ااپشن ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ میں انسدادِ دہشت گردی کے ایک عہدیدار کرس ہارنش جو 2019 تا 20ء امریکی شہریوں کی واپسی او ربحالی کا انتظام کرتے رہے ہیں‘ کا کہنا ہے ’’ یورپ خود مدت سے گوانتا نامو بے پرتنقیدکرتا رہاہے مگر اب آپ نے خود ایک صحرا میں گوانتا نامو بے بنا لیا ہے ‘‘۔ برسلز کے ایک تھنک ٹینک ایگمونٹ انسٹی ٹیوٹ کے ایک ریسرچر تھامس رینارڈ کہتے ہیں کہ دو سال پہلے جب داعش نے شام میں اپنا آخری ٹھکانہ کھویا تھا، اس وقت سے 11یورپی ممالک کی 200سے زائد خواتین اور ان کے 650بچے شام کے دو کیمپوں ال ہول اور روج میں رہ رہے ہیں۔
ان کیمپوں میں 60 ہزار سے زائد لوگ رہ رہے ہیں ان میں یورپی شہریوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ زیادہ تر لوگوں کا تعلق شام اور عراق سے ہے۔یورپی حکومتوں پر یہ دبائو بڑھتا جارہاہے کہ کہ وہاں قید بالغ افراد کو واپس لا کر ان پر مقدمات چلائے جائیں۔اس کی یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ ایسا نہ کرنے والے ممالک انسانی حقوق کی پاسداری کے وعدے کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔سکیورٹی ایکسپرٹس،انسانی حقوق کے گروپس اور داعش کے زیر قبضہ علاقوں میں جانے والوں کے وکلاء یہ اعتراف کرتے ہیں کہ یورپی ممالک کی حکومتوں کے خدشات بالکل جائز ہیں کہ ان لوگوں کی واپسی کے بعد دہشت گرد حملوں کا خوف بھی بڑھ جائے گا۔مگراکثر حکومتوں اور انٹیلی جنس حکام کا کہنا ہے کہ یورپی شہریوں کو شام میں چھوڑنے میں زیادہ خطرات مضمرہیں۔ وہ ان دہشت گرد گروپس میں شامل ہو سکتے ہیں جو یورپ کو نشانہ بناتے ہیں۔ امریکا،ترکی اور قازقستان ان ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے اپنے اپنے شہریوں کو واپس بلا لیا ہے ان میں سے کئی ایک پرعدالتوں میں مقدمات چلائے جا رہے ہیں اور باقیوں کو اپنے معاشرے میں ضم ہونے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔ کردش قیادت نے‘ جو شام کے حراستی مراکز کی نگرانی کرتی ہے ‘ان خواتین پر کسی قسم کا مقدمہ نہیں چلایا جن کا داعش کی حکومت کے دوران کردار غیر واضح تھا۔اہم با ت یہ ہے کہ چونکہ داعش کی حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم ہی نہیں کیا جاتا اس لیے کسی قسم کی قانونی کارروائی بھی انہیں اس قید سے نہیں نکال سکتی۔
کئی یورپی ممالک یہ کہتے ہیں کہ وہ ان کیمپوں میں رہنے والے اپنے کسی شہری یا اس بالغ مر دکی مد دکرنے کے پابند نہیں ہے جنہوں نے داعش میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ان پر شام یا عراق میں ہی مقدمہ چلنا چاہئے۔تاہم بلجیم کے وزیر انصاف ونسیٹ وین کوئیکن بورن کہتے ہیں کہ اگر انٹیلی جنس ایجنسیوں نے یہ رپورٹ دی کہ ان کیمپوں میں داعش کا زور بڑھ رہا ہے تو ان کی حکومت 13خواتین اور ان کے 27 بچوں کو واپس لینے کا بندو بست کر ے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو واضح ہدایت مل گئی ہے کہ ان خواتین اور بچوں کو شام سے بلجیم واپس لانا ہی محفوظ ترین ا?پشن ہے۔ ریسرچر تھامس رینارڈ کہتے ہیں کہ شام سے واپس ا?نے والا ہمیشہ کیلئے ایک بڑا رسک ثابت ہوگا کوئی کم اور کوئی بہت ہی زیادہ۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ رسک بھی موجود ہے کہ حراستی کیمپوں سے واپس ا?نے والے اپنے ساتھ رہنے والے قیدیوں میں بھی ایک انقلابی روح پھونک دیں یا وہ دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کی کوشش کریں؛ تاہم ایک پہلو ہمیشہ پیش نظر رکھنا پڑے گا کہ شام میں قید یورپی خاندانوں کو واپس بلانے کے مقابلے میں نہ بلانا کہیں بڑا خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپس کا کہنا ہے کہ اس سارے عمل میں والدین کی غلطی تو ہو سکتی ہے مگر ان بچوں کا کیا قصور ہے؟ انہوں نے تو کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا ہے۔ ایک غیر منافع بخش تنظیم ’’سیو دی چلڈرن ‘‘ کا موقف ہے کہ ہمیں یہ حقیقت ہمیشہ مد نظر رکھنی ہوگی کہ وہ بچے وہاں مختلف بیماریوں،خوراک کی کمی اور جنسی ہراسگی جیسے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ان معصوم بچوں میں سے سینکڑوں کی تعداد میں تو موت کے منہ میں جا چکے ہیں،سینکڑوں زخمی ہیں اور تازہ ترین موصول ہونے والی رپورٹس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ان حراستی کیمپوں میں کوروناوائرس بھی پھیل چکا ہے۔
سب سے زیادہ تشویش ان ٹین ایجر بچوں کے بارے میں پائی جاتی ہے جنہوں نے انتہائی کم عمری میں اپنی یورپی نڑاد مائوں کے ساتھ جنگ میں حصہ لینے کی غرض سے داعش کے زیر قبضہ علاقوں کی طرف سفر کیا تھا اور جن کے بارے میں سب سے زیادہ خدشہ یہ پایا جا تا ہے کہ داعش انہیں اپنے رنگ میں ڈھال کر عسکری حملوں کے لیے نہ تیار کر لے۔ایسے بچوں کو وہیں پیچھے چھوڑا جا رہا ہے کیونکہ اطلاعات کے مطابق یورپی حکومتیں صرف کم عمر بچوں کو ہی واپس لے رہی ہیں۔ ہیومین رائٹس واچ کے انسدادِ دہشت گردی کے ایک سینئر ریسرچر لیٹا ٹیلر کا کہناہے کہ’’یورپی حکومتیں بچوں کی درجہ بندی کر رہی ہیں۔ سب سے پہلی ترجیح وہ یتیم بچے ہیں جن کے ماں باپ اس جنگ میں مارے جا چکے ہیں اور سب سے آخری ترجیح ٹین ایجر لڑکے ہیں
ایک ایڈووکیسی گروپ نے بتایا کہ ان کیمپوں میں بہت سی ایسی خواتین کو لایا گیا ہے جن کی آبروریزی کرنے کے علاوہ ان کے ساتھ جبری شادیاں بھی کی گئی تھیں۔ ان سے زبردستی گھریلو کام کاج بھی کروایا جاتا تھا۔ فرانسیسی انٹیلی جنس کے ایک عہدیدار نے اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر بتایا کہ بہت سے یورپی ممالک میں داعش کے لیے کام کرنے والے ان خاندانوں کی واپسی اور آباد کاری کے حوالے سے ابھی کوئی پیش رفت نظر نہیں آرہی۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں ان کی واپسی میں تاخیر کی وجہ یہ ہے کہ انہیں واپس آنے پر تھوڑی بہت سزا مل سکتی ہے؛ تاہم وہ بری بھی ہو سکتے ہیں۔ برطانیا نے ان 20 خواتین کو برطانوی شہریت سے محروم کر دیا ہے جنہوں نے داعش میں شمولیت اختیار کی تھی۔ بعض خواتین کو واپس آنے سے روکنے کے لیے حکومت نے عدالت سے بھی رجوع کیا ہے۔ فرانس نے بھی ایسی خواتین کی واپسی کی اپیلیں مسترد کر دی ہیں جنہوں نے مہینے بھر سے بھوک ہڑتال کر رکھی تھی۔ نیدر لینڈ اور سویڈن بھی کہتے ہیں کہ وہ مائوں کے بغیر بچوں کو واپس لینے کے لیے تیار ہیں۔
بلجیم کے وزیر انصاف وین کوئیکن بورن کہتے ہیں کہ وطن واپس ا?نے کی خواہشمند ہر خاتون کو یہ یقین دہانی کرانا ہو گی کہ وہ اپنے ملک کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی۔ اگر انہوں نے خود کوداعش کے نظریات سے الگ نہ کیا تو انہیں وہیں رہنا پڑے گا۔ ان کی واپسی کے بلجیم کے پروگرام سے ہمسایہ ملک فرانس پر بھی دبائو بڑھے گا جس کے شہریوں کی سب سے زیادہ تعداد اس وقت ان کیمپوں اور شام اور عراق کی جیلوں میں بند ہے؛ تاہم فرانس کئی سال سے دہشت گردی کی زد میں ہے اس لیے حکومت نے ان لوگوں کو واپس لینے سے انکار کر دیا ہے جو جنگ میں حصہ لینے کے لیے گئے تھے۔سنٹر فار انیلاسز آف ٹیررازم پیرس کے ڈائریکٹر اڑان چارلس برسارڈ نے بتایا ہے کہ اگرچہ فرانس نے 35 بچوں کو واپس لیا ہے؛ تاہم 100 خواتین اور ان کے 200 بچے ابھی تک روج کیمپ میں پناہ گزیں ہیں۔ نیویارک ٹائمز نے اخبار لبریشن میں شائع ہونے والی وہ انٹیلی جنس دستاویز بھی دیکھی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ فرانس نے 2019ء میں 160 بچوں کو واپس بلانے اور آباد کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ فرانس کے انٹیلی جنس حکام کا کہنا ہے کہ کیمپ میں حالات اس قدر سنگین شکل اختیار کر گئے تھے کہ ہمیں یہ منصوبہ ترک کرنا پڑا۔ امریکا کے انسدادِ دہشت گردی کے ایک سابق عہدیدار مسٹر ہینرک کہتے ہیں ’’ہمارا خیال تو یہ تھا کہ یہ سب کچھ آسانی سے ہو جائے گا اوراس کا اثر باقی یورپی ممالک پر بھی پڑنا شرو ع ہو جائے گا مگر فرانس نے عین آخری موقع پر اپنا یہ منصوبہ ترک کر دیا‘‘۔ اب کئی یورپی ممالک اس سلسلے میں عملی اقدام کر رہے ہیں۔
برطانیا میں کئی کنزرویٹو ارکانِ پارلیمنٹ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ بعض برطانوی شہریوں کو واپس بلا کر اپنے ملک میں آباد کیا جائے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ کسی دوسرے ملک میں چھوڑنے کے بجائے انہیں اپنے ملک واپس لا کر عدالت کے سامنے پیش کرنا بہتر آپشن ہے۔ ڈنمارک میں بھی حکومت کہتی ہے کہ وہ تین خواتین اور چودہ بچوں کو واپس لینے کے لیے تیار ہے۔ فن لینڈ نے دسمبر میں پانچ خواتین اور اٹھارہ بچوں کو وطن واپس بلا لیا ہے۔ جرمنی کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ ہم بڑی تیزی سے یہ پلان بنا رہے ہیں کہ کیمپ میں مقیم جن بچوں کی مائیں جرمن شہری ہیں‘ انہیں واپس بلا لیا جائے۔
کیمپ میں پنا ہ گزیں ایک فرانسیسی شہری نے یورپین کورٹ آف ہیومین رائٹس میں یہ مقدمہ دائر کر رکھا ہے کہ اسے اور اس کے بچوں کو فرانس واپس آنے کی اجازت دی جائے۔ تین فرانسیسی وکلا نے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ سے استدعا کی ہے کہ کیا فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کو جنگی جرائم کا شراکت کار قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایک خاتون‘ جس نے روج کے حراستی کیمپ میں بھوک ہڑتال کر رکھی تھی‘ نے بتایا کہ ان کیمپوں میں تازہ پانی دستیاب نہیں ہے اور وہاں مقیم لوگوں کی اکثریت نظام تنفس کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہی ہے۔ (اس خاتون نے اپنا نام بتانے سے گریز کیا تھا کیونکہ اس کا کہنا تھا کہ مجھے داعش کے ان حامیوں کی طرف سے جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں جنہوں نے اس کی فرانس واپسی کی مخالفت کی تھی) کیمپ میں کسی ڈاکٹر یا ڈینٹسٹ سے ملنا انتہائی مشکل مرحلہ ہے اور ادویات بھی میسر نہیں ہیں۔ اس نے مزید بتایا کہ فرانسیسی خواتین چاہتی ہیں کہ انہیں فرانس واپس بلایا جائے خواہ ان پر عدالت میں مقدمہ چلا کر جیل ہی کیوں نہ بھیج دیا جائے۔
جسی ٹینر فن لینڈ کے ڈپلومیٹ ہیں اور ایسے افراد کی وطن واپسی جیسے معاملات ہی دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان بچوں اور خواتین کو واپس بلا کر آباد کرنا ایسا مسئلہ ہے جس میں اگر مگر‘ کب کیوں اور کیسے کی گنجائش بالکل نہیں ہے۔ انہوں نے مزید بتایا ’’بجائے اس کے کہ مسئلے کو قالین کے نیچے دبا کر یہ سمجھا جائے کہ یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے‘ سکیورٹی کے نقطہ نظر سے تو یہ بہتر ہوگا کہ جس قدر جلد ممکن ہو ان لوگوں کو واپس لا کر آباد کیا جائے۔ آپ بے شک انہیں وہاں پڑے رہنے دیں مگر وہ کسی نہ کسی طرح فن لینڈ پہنچ ہی جائیں گے‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔