... loading ...
(مہمان کالم)
شلینی بھگت
جب کووڈ کی دوسری لہر نے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا تو اس وقت کئی شہروں میں ڈاکٹرز، نرسز اور ہسپتالوں میں بیڈز کی شدید قلت تھی؛ تاہم سجیو کی زندگی بچانے کے لیے اسے آکسیجن مل گئی تھی۔ مقامی ہیلتھ ورکرز نے 52 سالہ مکینک سجیو کو اس کے گھر پر ہی قرنطینہ کر دیا تھا۔ ایک فون کے ذریعے اسے ایک ڈاکٹرکے ساتھ منسلک کر دیا گیا۔ جب وہ زیادہ بیمار ہوا تو ایک ایمبولینس منگوائی گئی جو اسے اْس سرکاری ہسپتال میں لے گئی جہاں بیڈ دستیاب تھا اور آکسیجن بھی موجود تھی۔ اسے 12 دن بعد ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا اور اس سے اخراجا ت کا کوئی بل نہیں مانگا گیا۔ سجیو نے بتایا ’’میں نہیں جانتا کہ یہ سارا سسٹم کس طرح کام کرتا ہے۔ میں نے توصرف یہ کیا کہ جب میرا کورونا ٹیسٹ مثبت آگیا تو اپنے مقامی ہیلتھ ورکر کو بتا دیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے ساری ذمہ داری اپنے سر لے لی‘‘۔سنجیو کے ذاتی تجربے کا اس بات سے گہر ا تعلق ہے کہ وہ رہتا کہاں تھا؟ وہ کوچی‘ جو کیرالا ریاست کا شہرہے‘ کی نواحی بستی میں رہتا تھا جہاں وزیراعظم نریندر مودی کی وفاقی حکومت دنیا کی مہلک ترین بیماری کورونا کے متاثرین کو کسی قسم کا ریلیف دینے میں ناکام رہی‘ وہاں ریاستی حکام ان کی مدد کے لیے پہنچ گئے۔ اگرچہ ا?کسیجن کی سپلائی بہت متاثر ہو چکی تھی؛ تاہم کیرالا کے پاس اس کی سپلائی وافر مقدار میں موجود تھی کیونکہ حکام نے کووڈ کے خطرے کے پیش نظر کئی مہینے پہلے ہی آکسیجن کی پیداوار میں اضافہ کر دیا تھا۔ کوا?رڈی نیشن سنٹرز‘ جنہیں کیرالا میں ’’وار رومز‘‘ کہا جاتا ہے‘ مریضوں اور دستیاب وسائل کی نگرانی کر رہے ہیں۔ وہا ں کے ڈاکٹرز بیمار مریضوں کے ساتھ ان کے گھروں پر ہی رابطہ کرتے ہیں۔ کیرالا کے لیڈرز مریضوں کی صحت اور ادویات کی فراہمی کے لیے مقامی ہیلتھ ورکرز کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔
پبلک ہیلتھ فائونڈیشن آف انڈیا‘ جو شمالی شہر گرو گرم میں قائم ہے‘ کے وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر گری دھر بابو کہتے ہیں ’’کورونا وائرس کے خلاف جارحانہ حفاظتی اقدامات کو ا سٹڈی کیا جائے تو کیرالا کی ریاست ایک منفرد کیس ہے‘‘۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وہاں کے حکام کی اپروچ بہت زیادہ انسان دوست ہے۔ کئی ریاستوں اور وفاقی حکومت کی طرف سے کمزور ردعمل سے پیدا ہونے والا خلا پْر کرنے کے لیے مقامی حکام اور رضاکار آگے بڑھے اور انہوں نے ہیلتھ کیئر کے لیے آن لائن نیٹ ورکس اور خیراتی امداد کا ایک ایڈہاک نظام قائم کر دیا۔ پورے بھارت کے ہسپتالوں کے بیڈز مریضوں سے بھر گئے تھے اور آکسیجن نہ ملنے کی وجہ سے روزانہ سینکڑوں مریض مر رہے تھے۔ کیرالا میں بھی مشکلات کم نہیں ہیں۔ روزانہ مرنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ہیلتھ ورکرز کو کئی کئی گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔ صورت حال بہت سنگین ہے۔ اگر کووڈ کا پھیلائو جاری رہا تو حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ جہاں تک کاغذی کارروائی کا تعلق ہے تو ان میں تو کیرالا کی ریاست میں کورونا وائر س سے مرنے والوں کی شرح صرف 0.4 فیصد ہے‘ جسے بھارت میں کم ترین شرح اموات کہا جا سکتا ہے؛ تاہم مقامی حکام بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ان اعداد و شمار کے مستند ہونے کے بار ے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کورونا سے مرنے والوں کی تعداد کا سارا نظام ڈاکٹر ارون کی نگرانی میں کام کر رہا ہے۔ انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ ریاست کیرالا میں مرنے والوں کی شرح پانچ میں سے ایک ہے۔
کیرالا کا ایک طالب علم حصول تعلیم کے لیے چین کے شہر ووہان میں رہتا تھا۔ وہ جنوری 2020ء میں وطن واپس آیا تھا اور وہی طالب علم بھارت کی تاریخ میں کورونا کا پہلا کیس ریکارڈ ہو گیا۔ 2018ء میں ایک اور انوکھا اور خطرناک وائرس نیفا پھیل گیا تھا؛ تاہم کیرالا کے حکام نے بڑی کامیاب حکمت عملی کے ساتھ اس خطرناک وائرس پر قابو پا لیا تھا۔ اس تجربے سے انہوں نے وبائی امراض سے نمٹنے کا سبق سیکھ لیا تھا۔ چونکہ گزشتہ سال سرحدیں بند کر دی گئی تھیں اور بیرونِ ملک کام کرنے والے ورکر ز بھی واپس آگئے تھے تو ریاست کی ڈیزاسٹر مینجمنٹ ٹیم پوری طرح حرکت میں آگئی۔ بیرونِ ملک سے واپس آنے والے ورکرز کو سیدھا ان کے گھروں میں قرنطینہ کر دیا گیا۔ اگر کسی شخص کا کورونا ٹیسٹ مثبت آتا تو مقامی حکام اس تگ و دو میں لگ جاتے کہ اس کی کس کس شخص کے ساتھ میل ملاقات ہوئی ہے۔ ہیلتھ کے اعداد و شمار کے مطابق کیرالا کی ٹیسٹ کرنے کی شرح پورے بھارت میں سب سے زیادہ ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اس سال مہم کا کریڈٹ ایک 64 سالہ سابق ا سکول ٹیچر‘ کے کے شیلیجا کو جاتا ہے جو گزشتہ ہفتے تک کیرالا کی وزیر صحت تھیں۔ جب یہاں نیفا وائرس پھیلا تھا تو اس کے تدارک کے لیے انہوں نے اس قدر لگن اور جذبے سے کام کیا تھا کہ ان کے نام پر 2019ء میں ایک فلم بھی بن چکی ہے۔ کوچی کے راجگیری کالج آف سوشل سائنسز کے ہیلتھ اکانومسٹ ریجو ایم جان کہتے ہیں ’’انہوں نے فرنٹ فٹ پر آ کر وائرس کے ساتھ جنگ کی، ٹیسٹنگ، ٹریسنگ اور ٹریکنگ کی مہم شروع سے ہی زبردست طریقے سے چلائی گئی‘‘۔ مس شلیجا جیسے مقامی حکام اس وقت بہت زیادہ دبائو میں آئے ہوئے ہیں۔ گزشتہ برس نریندر مودی نے دنیا کا سخت ترین لاک ڈائون نافذ کر دیا تھا۔ ا س اقدام نے وائرس کا پھیلائو سست کر دیا تھا مگر بھارت میں کساد بازاری پھیل گئی۔ اس مرتبہ نریندر مودی نے پورے بھارت میں قومی سطح کا لاک ڈائون لگانے کی مخالفت کی اور ساری ذمہ داری ریاستی حکومتوں پر ڈال دی کہ وہ اپنے اپنے حالات دیکھ کر خود فیصلہ کریں کہ اس وائرس کے ساتھ کس طرح نمٹنا ہے۔ بھارت میں صورتِ حال اس قدر سنگین ہو چکی ہے کہ آکسیجن، ادویات اور ویکسین کے حصول کے لیے مختلف ریاستوں کے درمیان ایک مقابلہ بازی شروع ہو چکی ہے۔ اشوکا یونیورسٹی کے پولیٹکل سائنس کے پروفیسر گلیس ورنیئرز کہتے ہیں ’’جب حالات کنٹرول میں تھے تو فیصلہ سازی میں مرکزیت پسندی کا رجحان پایا جاتا تھا اور جب حالات قابو میں نہ رہے تو ذمہ داری ریاستوں پر ڈال دی گئی‘
ریاست کیرالا کے حکام ضلع ارناکولام میں دستیاب وسائل کے مربوط استعمال پر بحث کرنے کے لیے وار روم میں جمع ہوئے۔ یہ وہی ضلع ہے جہاں سجیو رہتا ہے اور یہاں 60 مانیٹرز آکسیجن سپلائز، ہسپتال کے بیڈز اور ایمبولینسز کی ٹیم موجود ہے۔ 30 ڈاکٹرز ٹیبلٹس کی مدد سے ضلع کے 52 ہزار کووڈ مریضوں کو دیکھ رہے ہیں۔ ضلع کے ایک میڈیکل آفیسر ڈاکٹر انیش کہتے ہیں ’’وار روم میں ہسپتال کے بیڈز، وینٹی لیٹرز اور دیگر عوامل کا ڈیٹا جمع کیا جاتا ہے۔ جب ڈاکٹرز فون پر اس بات کا تعین کر لیتے ہیں کہ فلاں مریض کو ہسپتال لے جانے کی ضرورت ہے تو وہ فوری طور پر وار روم کو بتا دیتے ہیں۔ اس کا کیس نمبر ایک بڑی سکرین پر چلنا شروع ہو جاتا ہے۔ پھر ہیلتھ ورکرز یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اسے کیسی مدد کی ضرورت ہے اور پھر اس کے لیے ہسپتال اور ایمبولینس کا بندوبست کیا جاتا ہے‘‘۔ وار روم کے ایک کوآرڈی نیٹر ایلدو سونی کہتے ہیں ’’ایک الگ گروپ ہر ہسپتال میں استعمال ہونے والی آکسیجن کو مانیٹر کرنے پر مامور ہے۔ مانیٹر ا سکرین کی مدد سے ہمیں فوری طور پر پتا چل جاتا ہے کہ کس وقت کون سے ہسپتال کو آکسیجن کی کتنی سپلائی کی ضرورت ہے اور ہم اسے کہاں سے مطلوبہ مقدار میں آکسیجن فراہم کر سکتے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر اتھل جوزف مینول ان ڈاکٹرز میں شامل ہیں جو وار روم ڈیزائن کرتے ہیں‘ ان کا کہنا تھا کہ ایک ڈاکٹر کے لیے سب سے اہم اور بنیادی بات یہ تعین کرناہوتا ہے کہ مریض کی بیماری کی شدت کیا ہے، وہ کس مرحلے پر ہے اور اس کو کس قسم کے فوری علاج کی ضرورت ہے۔ ’’دنیا کے بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں میڈیکل کے وسائل کی قلت اتنا بڑا اور اہم مسئلہ نہیں ہے۔ وہاں بڑی سنگین غلطی یہ ہوئی ہے کہ ہسپتالوں میں مریضوں کو داخل کرتے وقت ان ہسپتالوں میں داخلے کی گنجائش کو پیش نظر نہیں رکھا گیا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کئی ہسپتال مریضوں سے اتنے بھر گئے کہ انہیں سنبھالنا مشکل ہو گیا‘‘۔
ریاستی حکام سرکاری ہیلتھ کلینکس اور ASHA نامی سوشل ہیلتھ ایکٹیوسٹس کے نیٹ ورکس کے ساتھ مل کر بھی کام کر رہے ہیں۔ ہیلتھ ورکرز ہر ممکن حد تک اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ مریض اپنے گھروں میں ہی قرنطینہ کریں اور انہیں وہیں کھانا اور ادویات میسر ہوں۔ وہ لوگوں کو ماسک پہننے، احتیاطی فاصلہ رکھنے اور ویکسین لگوانے کی افادیت کے بارے میں بھی آگاہی مہم چلا رہے ہیں۔ (اب تک باقی ریاستوں میں ویکیسن لگوانے والوں کی شرح 3 فیصد ہے جبکہ کیرالا میں یہ شرح 6 فیصد ہے)۔ 47 سالہ سوشل ایکٹیوسٹ گیتا‘ جو 420 فیملیز کے لیے کام کرتی ہیں‘ کا کہنا ہے کہ یہ ایک کام مشکل ہے اور اس کا معاوضہ بھی کم ملتا ہے۔ وہ اپنا پہلا رائونڈ صبح 9 بجے شروع کرتی ہیں۔ گھر گھر جا کر ہر مریض کو دوائی فراہم کرتی ہیں اور یہ بھی پوچھتی ہین کہ انہیں کھانے پینے کی کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میرا فون مسلسل بجتا رہتا ہے کیونکہ مریض مجھ سے مشورے یا ہسپتال میں بیڈ لینے کے لیے مدد مانگتے رہتے ہیں۔ گیتا جیسے ورکرز سے رضاکارانہ طور پر کام کرنے کی امید کی جاتی ہے‘ اس لیے ان کی تنخواہ بہت کم ہے اور وہ بھی کبھی کبھار ملتی ہے۔ انہیں ماہانہ صرف 80 ڈالر ملتے ہیں اور اپنی تمام حفاظتی ضروریات بھی انہیں خود ہی پورا کرنا پڑتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ شروع میں تو انہیں ماسک، سینی ٹائزرز اور دستانے دیے جاتے تھے مگر اب ہمیں سب کچھ خود ہی خریدنا پڑتا ہے۔
دیگر ریاستوں میں تو قلت ہو سکتی ہے مگرکم سپلائی کے باوجود کیرالا میں میڈیکل آکسیجن وافر مقدار میں دستیاب ہے۔ گزشتہ سال جب کیرالا میں آکسیجن کے ا سٹاک میں کمی کی خبریں آنا شرو ع ہوئیں اور جب یہ رپورٹس بھی ملنے لگیں کہ کئی ممالک میں مریض ہسپتالوں میں مر رہے ہیں تو کیرالا میں فرائض انجام دینے والے ریاستی اور مرکزی حکومت کے حکام نے آکسیجن کے پروڈیوسرز کو اپنی پیداوار بڑھانے کی ہدایات جاری کر دی تھیں اور انہوں نے آکسیجن کی روزانہ پیداوار 149 میٹرک ٹن سے بڑھا کر 197 میٹرک ٹن کر دی تھی۔ جب کووڈ کی دوسری لہر آئی تو ریاستی حکام آکسیجن کی تین گنا ضرورت بھی پوری کرنے کے قابل تھے۔ کیرالا کے حکام ا س لیے بھی خراجِ تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے سب سے پہلے کورونا وائرس کے مختلف ویرینٹس بھی ٹریک کیے۔ سائنس دان یہ ا سٹڈی کر رہے ہیں کہ بھارت میں جو پہلے سے ویرینٹ موجود تھا کیا وہی یہاں کووڈ کے دوبارہ پھیلائو کاباعث بنا؛ تاہم انہیں یہ مشکل پیش آرہی ہے کہ بھارت میں کووڈ کی پہلی لہر سے متعلق کوئی زیادہ ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔ نئی دہلی میں قائم CSIR انسٹیٹیوٹ ا?ف جینامکس اینڈ انٹیگریٹو بیالوجی کے ایک سائنسدان ڈاکٹر ونود سیریا کہتے ہیں ’’کیرالا نے ویرینٹ کا پتا چلانے کے لیے نومبر سے ہی جینز کو سٹڈی کرنے کا طریقہ استعمال کیا۔ صرف یہی ایک طریقہ ہے جسے کبھی بھی استعمال کرنا ترک نہیں کیا گیا۔ وہ پوری کوشش کر رہے ہیں کہ پالیسیز بنانے کے لیے تمام دستیاب ثبوت استعمال کیے جائیں‘‘۔
البتہ بعض سیاسی تبدیلیوں کو دیکھ کر ماہرین پریشان ہیں کہ کیا کیرالا کی ریاستی حکومت اپنی کامیابیوں کا یہ سلسلہ جاری رکھنا چاہتی ہے یا نہیں۔ گزشتہ ہفتے کمیونسٹ پارٹی ا?ف انڈیا نے‘ جس کی کیرالا میں صوبائی حکومت قائم ہے‘ اپنی وزیر صحت مس شلیجا کو کابینہ سے نکال دیا۔ پارٹی کا موقف ہے کہ وہ اپنے نوجوان کارکنوں کو کام کرنے کا موقع فرہم کر نا چاہتی ہیں مگر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ شاید اس کی بڑی وجہ کچھ اور ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مس شلیجا کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سے انہیں اس عہدے سے ہٹایا گیا ہے۔ اس سلسلے میں جب مس شلیجا سے رابطہ کرکے اپنا نقطہ نظر دینے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر ورنیرز کا کہنا تھا کہ ’’بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی حکومت بھی اس طرح کی ٹھوکر کھانے سے نہیں بچ سکتی کہ کئی مرتبہ وہ اپنے غلط فیصلوں کی وجہ سے اپنے پائوں پر خود ہی کلہاڑی مار لیتی ہے‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔