... loading ...
اگر شیر جنگل کا بادشاہ ہے تو بلاشبہ شارک مچھلی کو سمندر کی ملکہ عالیہ ہے اور بحر و بر پر حکومت کرنے والے یہ دونوںحیوان اپنی فطرت میں پیشہ ور شکاری ہیں ۔ لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ شیر سمندر میں شکار نہیںکرسکتااور شارک مچھلی جنگل میں شکار کے پیچھے جانے سے قاصر ہے۔مگر اس حقیقت کا ادراک رکھنے کے باوجود ہم نہ تو کبھی شیر کو سمندر میں شکار نہ کرپانے کی وجہ سے ناکارہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی شارک مچھلی کو خشکی پر شکار نہ کرنے کے باعث بزدلی کا طعنہ دیتے ہیں ۔ کیونکہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ شیر کا دائرہ اختیار جنگل اور خشکی کا علاقہ ہے جبکہ شارک مچھلی کی کل کائنات فقط سمندرتک ہی محدود اور معین ہے۔یعنی شیر کی صلاحیتوں کا موازنہ ہمیشہ جنگل اور خشکی میں پائے جانے والے اُس کے حریفوں جانوروں سے کیا جائے گا اور شارک مچھلی کی ہنرمندی کو دیگر بحری مخلوق کی طاقت سے جانچنا عین قرین انصاف ہوگا۔
یاد رہے کہ اسی اُصول کا اطلاق عالمی سیاست پر بھی بخوبی کیا جاسکتاہے ۔ مثال کے طور پر ہمارا پیار وطن پاکستان عالمی اُفق پر کس انداز میں محو خرام ہے ؟۔اس سوال کا درست جواب ہمیں تب ہی مل سکتاہے جب پاکستان کا موازنہ فقط اُس کے فطری حریف بھارت سے کیا جائے ۔ مگر المیہ یہ ہے کہ ہمارے نام نہاد تجزیہ کاروں کی اکثریت مغربی کی کاسہ لیسی میںاس حد تک آگے نکل چکی ہے کہ وہ پاکستانی ترقی کے اشاروں کو امریکہ ،چین ، جاپان ،روس حتی کہ بنگلہ دیش کے معاشی ، سماجی ، سیاسی اشاروں سے مقابلہ کر کے فیصلہ سنادیتی ہے کہ ’’لو دیکھو جی ! پاکستان نے گزشتہ 76 برسوں کے دوران ہر شعبے میںصرف کھویا ہی ہے ، پایا کچھ بھی نہیں ‘‘۔حالانکہ دنیا کے نقشے پر پھیلے ہوئے 195 ممالک میں ہمارا حریف صرف بھارت ہے اور خدا کا شکر ہے کہ ہم آج بھی ہر میدان میں بھارتیوں سے کئی قدم آگے ہیں ۔ ماضی کا تو تذکرہ ہی کیا کرنا اگر فقط رواں برس کا اجمالی سا جائزہ لیا جائے تو منکشف ہوگا کہ پاکستان کو حاصل ہونے والی حالیہ فقید المثال کامیابیاں بھی مودی سرکار کے 52 فٹ کی چھاتی پر دال مونگنے کے لیے کافی اور شافی ہوں گی۔
لیکن پاکستان کی کامیابیوں کاتذکرہ کرنے سے قبل انتہائی ضروری ہے کہ ایک نظر بھارت کی تازہ ترین معاشی صورت حال پر ڈال لی جائے ۔ سرِ دست کورونا وائرس کا بحران مودی سرکار کے لیے ایک بھیانک خواب بنتا جارہاہ ہے اور کورونا وائرس کی دوسری لہر کی وجہ سے بھارتی معیشت تاریخ کی بدترین سطح پر آپہنچی ہے ۔گزشتہ مالی سال2019-20میں 4فیصد تک رہنے والی بھارتی شرح نمو مالی سال 2020-2021کے دوران منفی7اعشاریہ 3 فیصد رہی اور مالی مالی خسارہ جی ڈی پی کے 9.3فیصد تک کی خطرناک حد بھی عبور کرگیاہے۔جبکہ کسان مخالف پالیسی کی وجہ سے ز راعت کا شعبہ زبردست تنزلی کاشکار ہوچکا ہے اور تاجروں کو بروقت ریلیف نہ مل پانے کی وجہ سے مودی سرکار کی ایکسپورٹ پالیسی بھی مکمل طور پر ناکامی سے دوچار نظر آ رہی ہے ۔ غیرملکی میڈیاکے مطابق رواں مالی سال کے دوران بھارت کی معیشت تاریخ کی بدترین سطح پرآنے پر عنقریب ملک بھر میں مہنگائی اور بیروزگاری کا طوفان آنے کا خدشہ پیدا ہوگیا۔عالمی ماہرین کے نزدیک بھارتی معیشت کی بدترین تنزلی کی وجہ کورونا وبا کے علاوہ مودی سرکار کی عامیانہ اور جانب دارنہ معاشی ، سماجی اور سیاسی پالیسیاں بھی ہیں ۔جس کی وجہ سے گزشتہ 3 ماہ کے دوران کورونا کیسز میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے اور آکسیجن کی قلت کی وجہ سے ہزاروں افراد اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔صرف یہ ہی نہیں اندیشہ ہے کہ مستقبل قریب میں کم ازکم 23 کروڑ سے زائد بھارتی خط غربت سے بھی نیچے چلے جائیں گے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ بھارت کے برعکس پاکستان میں کورونا وائرس کی صورت ناقابل یقین حد تک کنڑول میں رہنے کی وجہ سے پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح 3.94 فیصد تک رہی ۔جس کی تصدیق موڈیز نامی بین الاقوامی غیر جانب دار ادارے نے بھی کردی ہے۔انٹرنیشنل کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کی معیشت 4 فیصد زیادہ سالانہ شرح نمو کی استعداد کی حامل ہے اور ایل ایس ایم کی شرح نمو میں ہونے والا اضافہ مستقبل میں ملک کی مجموعی معاشی کارکردگی میں مزیداضافہ کا سبب بنے گا۔اس کے علاوہ پاکستان نے اپنی معاشی تاریخ میں پہلی بار 10 ماہ میں 4 ٹریلین روپے سے زائد کا ٹیکس ریونیو حاصل کرکے بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کے علاوہ 1960 کی دہائی کے بعد پہلی بار کسی حکومت نے معیشت کے لیے جامع اور پائیدار روڈ میپ ترتیب دے کر آئندہ مالی سال میں 5800 ارب روپے کے محصولات جمع کرنے کا خوش کن عندیہ بھی دیا ہے۔
دوسری جانب روس نے پنجاب کے شہر قصور سے لے کر کراچی میں واقع پورٹ قاسم تک 1122 کلومیٹر طویل نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن بنانے کا باضابطہ اعلان کیا ہے۔یاد رہے کہ روس اور پاکستان کے درمیان طے پانے والے اِس فلیگ شپ منصوبے میں پاکستان کا حصہ 74 فیصد اور روس کا حصہ 26 فیصد ہوگا۔ تفصیلات کے مطابق، پاکستان اور روس کے درمیان ماسکو میں ترمیمی بین الحکومتی معاہدے (آئی جی اے) پر دستخط ہوجائیں گے۔ یہ شمال۔جنوبی گیس پائپ لائن (این ایس جی پی پی) کا فلیگ شپ منصوبہ ہے۔ معاہدے پر دستخط ہوتے ہی پائپ لائن منصوبے کا نیا نام پاکستان اسٹریم گیس پائپ لائن (پی جی ایس پی) رکھ دیا جائے گا۔ پاکستانی حکام کے مطابق منصوبے پر 2.25 ارب ڈالرز لاگت آئے گی۔اچھی بات یہ ہے کہ اس منصوبہ کے افتتاح کے لیے روسی صدر ولادمیر پوتن کے دورہ پاکستان کے لیے بھی پروگرام طے کیا جارہاہے ۔ اگر یہ دورہ رواں برس ممکن ہوجاتاہے تو ہمارے حریف بھارت کے لیے سخت سفارتی سبکی اور ہزیمت کا باعث ثابت ہوگا۔
خوش کن خبر یہ بھی ہے کہ عالمی برداری نے ماحولیات کے حوالے سے اٹھائے جانے والے پاکستان کے مفید اور انقلابی اقدامات کا اعتراف کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو ماحولیات کی عالمی کانفرنس قیادت سونپ دی ہے ۔جس کی وجہ سے پاکستان کو تاریخ میں پہلی بار رواں ماہ جون میں ہونے والی عالمی یومِ ماحولیات کی میزبانی کا اعزاز حاصل ہوگیا ہے۔واضح رہے کہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں شرکت کے لئے صرف 4 عالمی شخصیات کا انتخاب کیا گیا، جن میں سے وزیراعظم عمران خان کو صدر منتخب کیا گیا۔وزیر اعظم پاکستان عمران خان 4 جون کی رات عالمی کانفرنس سے اہم خطاب کریں گے۔عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں شریک ہونے والے دیگر عالمی رہنماؤں میں سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ، پوپ فرانسسز اور جرمن چانسلر شامل ہوں گی۔ پاکستان نے عالمی یوم موحولیات کی تیاریاں شروع کردیں، جس کے تحت اسلام آباد میں پانچ جون کو ماحولیات کے حوالے سے پروقار تقریب کا انعقاد کیا جائے گا۔علاوہ ازیں پاکستان 5 جون کو عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اہم اعلانات کرے گا، جبکہ کانفرنس میں بلین ٹری منصوبے، کلین گرین پاکستان، الیکٹرک وہیکل پالیسی، نیشنل پارکس اور سرسبز ملازمتوں جیسے اہم انقلابی اقدامات کو بھی دنیا بھر کے سامنے اجاگر کیا جائے گا۔
گزشتہ ہفتہ پاکستان کو کورونا کے خلاف جنگ میں بڑی کامیابی یہ ملی ہے کہ پاکستان نے ’’پاک ویک‘‘ کے نام سے اپنی کورونا ویکسین بنا لی ہے۔ یوں ماسک اور وینٹی لیٹرز کے بعد کرونا ویکسین بنانے والے دنیا کے چند ممالک میں شامل ہوگیا۔ یہ ویکسین چین سے درآمد سائنو ویک کے خام مال سے تیار کی گئی ہے اور وزارت قومی صحت کورونا وائرس کی حفاظتی ویکسین پاک ویک کو 18 سال سے زائد عمر کے افراد کو لگانے کے لیے باقاعدہ منظور ی بھی دے دی ہے۔ پاک ویک ویکسین قومی ادارہ صحت میں تیار کی گئی ہے جس کا خام مال اور تیکنکی صلاحیت چین نے فراہم کی ہے۔وزارت قومی صحت نے ابتدائی طورپر قومی ادارہ صحت کو پاک ویک کی 30 لاکھ خوراکیں تیار کرنے کے احکامات کر دیئے ہیں۔ پاک ویک ویکسین کی مینوفیکچرنگ، پیکنگ اور میٹریل مکمل طور پر قومی ادارہ صحت میں تیار کیا گیا ہے۔اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ پاک ویک ویکسین کا خام مال سے ویکسین بننا اتنا سادہ مرحلہ نہیں ہے۔بلکہ ویکسین بنانے کے لیے پاکستانی ماہرین کو کوالٹی ایشورنس اور عالمی معیار کو برقرار رکھنے کے لیے بڑی باریک بینی سے دن رات محنت کرنا پڑی ہے اور بالآخر اُس کا ثمر حاصل ہوہی گیا ۔چونکہ ویکسین کی پیداوار کا عمل بتدریج آگے بڑھتا ہے۔اس لیے توقع ہے کہ آئندہ چند برسوں میںپاک ویک ویکسین ملکی ضرورت کے لیے کافی ہوگی اور ہمیں کورونا ویکسین کے لیے آئندہ کسی دوسرے ملک کی جانب نہیں دیکھنا پڑے گا۔
یادش بخیر ! کہ پاکستان نے گزشتہ ہفتہ 3 ارب ڈالر یعنی 450 ارب روپے کے روز ویلیٹ ہوٹل نیویارک اور سکرائیب ہوٹل پیرس ٹیتھان کمپنی سے چھڑا لیاہے اور عدالت کے فیصلہ کے مطابق اس مقدمہ کے تمام اخراجات بھی ٹیتھان کمپنی ہی ادا کرے گی۔یہ جیت اس لیے بھی تحریک انصاف کی حکومت کے لیے بڑی معنی خیز ہے کہ 2017ء میںمسلم لیگ ن کی حکومت ٹیتھان کمپنی کی جانب سے ہونے ولای مقدمہ بازی سے گھبرا کر پی آئی اے کے واجبات کے عوض یہ ہوٹل بیچنے پر آمادہ ہوگئی تھی۔ رواں برس پاکستان کو حاصل ہونے والی دیگر قابل ذکر کامیابیوں میں معروف سوشل میڈیا ویب سائٹ فیس بک کی جانب سے پاکستان کے 8 شہروں میں ڈیڑھ کروڑ صارفین کے لیے اپنی آپٹیکل فائبر بچھانے کا اعلان ،پاکستان کی آئی ٹی ایکسپورٹس کا 1.7 ارب ڈالر تک بڑھ جانا ،ملک میں فی کس آمدن 1361 ڈالر سے بڑھ کر 1543 ڈالر فی کس ہوجانا یعنی صرف ایک برس میں 13 فیصد اضافہ ،پچھلی حکومت کا چھوڑا ہوا،19.2 ارب ڈالر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ختم ہوکر 950 کروڑ ڈالرمنافع میں بدل جانا اور پاکستانی معیشت میں صرف ایک برس میں 33 ارب ڈالر کا غیر معمولی اضافہ ہونے سے معاشی تجزیہ کاروں کو اُمید ہو چلی ہے کہ وطن عزیز پاکستان کو ترقی اورکامیابی کی جس شاہراہ پر ڈالنے کے خواب برس ہا برس سے دیکھے جارہے تھے ۔خوش قسمتی سے پاکستان نے اُس شاہراہ پر اپنے قدم مضبوطی کے ساتھ رکھ دیئے ہیں ۔بس دُعا ہے تو اتنی کہ ترقی و عروج کا یہ سب سفر اَب رکنے نہ پائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔