وجود

... loading ...

وجود

معاہدے اور مفاد

هفته 29 مئی 2021 معاہدے اور مفاد

کوئی ابہام نہیںکہ افغانستان سے انخلا کے باوجودامریکا کسی نہ کسی شکل میں کابل میں اپنی موجودگی برقرار رکھنے کا آرزو ہے تاکہ معاہدوں کے ذریعے مفاد کے تحفظ کے قابل بنایا جائے حالانکہ ویت نام سے لیکر کوریا تک اور عراق ،شام اور یمن کی براہ راست یا پراکسی جنگوں میں اُسے جس مسلسل ہزیمت کا سامنا ہے اُس کے بعد امریکیوں کو ناکامیوں کے اسباب تلاش کرنے اور اہداف کی تبدیلی پر توجہ دینی چاہیے تھی مگر ایسا کچھ نہیں کیا گیا آج ضد اور گھمنڈ نے اُسے ایسے مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ معیشت اور فوجی طاقت کو ایک سے زائد چیلنج درپیش ہیں معاملات صرف یہاں تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ مسلسل نا انصافیوں اور نسلی تفریق نے ملک کے اندر بھی انارکی وانتشار کی کیفیت پیداکر دی ہے رنگ کی بنا پر روارکھے جانے والے تعصب نے یہ سوال اُٹھا دیا ہے کہ کیا واقعی صرف امریکا دنیا کی قیادت کے منصب کا اہل ہے؟ کیونکہ انسانی اور مذہبی آزادیوں کی بات ضرورکرتا ہے لیکن فیصلے کرتے ہوئے صرف مفاد پیشِ نظر رکھتا ہے دور کیوں جائیں حال ہی میں اسرائیل و فلسطین تنازع میں جس جانبداری کا مظاہر ہ کیا گیا یہ کسی انصاف پسند طاقت کے شایان نہیں حالانکہ جوبائیڈن کے اقتدار میں آنے سے یہ امکان پیدا ہو گیا تھا کہ نئی قیادت انسانی حقوق کا درس ہی نہیں دے گی بلکہ عملی طور بھی ایسا ہوگا یہ امکان سعودی عرب کے حوالے سے پالیسی میں تبدیلی سے حقیقت بنتا محسوس ہوا مگر غزہ پر تین ہفتوں سے جاری بمباری کے باوجود امریکا کی طرف سے اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کا عادہ قول و فعل کے تضادچھپانے میں ناکام رہاحالانکہ بمباری میں بچے ،بوڑھے ،جوان اور خواتین کو تاک تاک کر نشانہ بنایا گیا بات صرف یہاں تک ہی محدود نہ تھی بلکہ دنیا سے حقائق چھپانے کے لیے زرائع ابلاغ کو بھی بے دریغ نشانہ بنایاگیا لیکن طاقتور کو کوئی بھی عالمی اِدارہ لگام دینے کی جرات نہ کر سکا بلکہ یواین او کے تین اجلاسوں کو مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے سے بھی امریکا نے روک دیا کیونکہ مشرقِ وسطیٰ جیسے تیل سے مالا مال خطے کو اپنی خواہش کے مطابق رکھنے کا منصوبہ متاثر ہونے کا احتمال تھا مفاد کو انسانی جان پر ترجیح دینے جیسی سنگدلی و سفاکی کا ایسابدترین مظاہرہ کسی انصاف پسند قیادت کا نہیں ہو سکتا۔
گیارہ ستمبر تک افغانستان سے انخلا کے فیصلے کے بعد جو بائیڈن انتظامیہ کی کوشش ہے کہ اِس حوالے سے اُس کے خلوص پر دنیا یقین کر ے مگر بعض اقدامات ،کاوشوں اور منصوبوں سے اخلاص کے منافی کسی چالبازی کا خدشہ کم نہیں ہوا بلکہ ایسے خدشات برقرار ہیں کہ اافغانستان میں امن کا قیام نہیں اُس کی ترجیحات صرف انخلا کی حد تک محدود ہیں نیزانخلا سے قبل کابل میں بھارت کی موجودگی یقینی بنانے کا خواہاں ہے اسی بنا پر افغانستان میں مختلف الخیال گروہوں کی سرگرمیاں بڑھنے لگی ہیں اور ایسے عناصربھی متحرک ہونے لگے ہیں قبائل میں منقسم اِس ملک اور خطے میں بدامنی میں اپنا مفاد تلاش کرتے ہیں ایک خیال یہ بھی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کی طرح اِس خطے میں بھی بھارت کوطاقتور کھلاڑی سمجھ کر سرپرستی کے لیے منتخب کر لیا گیا ہے حالانکہ اسرائیل سے لیکر بھارت دونوں کا ہی شخصی ومزہبی آزادیوں کے حوالے سے ریکارڈ شرمناک ہے پھر بھی سرپرستی پر مُصر رہنا ثابت کرتا ہے کہ امریکیوں کی ترجٰیحات دنیا میں امن لانا نہیں جس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اگر دنیا سے بدامنی اور لڑائیوں کا خاتمہ ہو جاگیا تو اسلحے کی تجارت محدود ہو سکتی ہے اسی لیے تنازعات کو ہوادینے اور بڑھانے کی حکمتِ عملی ترجیح ہے جس کے تناظر میں پاکستان کو بھی محتاط روی اختیارکرنی چاہیے۔
پاکستان نے افغان مسلے کو حل کرنے کے لیے خلوصِ نیت سے کام کیا ہے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاک سہولت کاری کا امریکا سمیت عالمی اِدارے اعتراف کرتے ہیں مگر پاکستان کے خلوص کے جواب میں اچھے اِشارے نہیں ملتے اور ایک بار پھر زمینی و فضائی راہدارے طلب کرنے کے لیے دبائو بڑھتا محسوس ہوتا ہے 24مئی کو جنیوامیں معید یوسف اور جیک سولیون کی ملاقات پاکستان اور امریکا کے افغان مسلہ کے حل اور دونوں ممالک کے وسیع تر تعلقات کے حوالے سے اہم ہونے کے ساتھ انخلا میں تعاون طلب کرنے کے تناظر میں دیکھی جارہی ہے کیونکہ جنیوا میںہونے والی ملاقات کے دن ہی مبصرین اسلام آبادمیں آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر میں عسکری و سویلین قیادت کے اجلاس اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے امریکی وزیرِ دفاع ایل جے آسٹن کی ہونے والی ٹیلیفونک بات چیت کو ساتھ ملا کر دیکھتے ہیں تو امریکی دبائو کے خدشے میں کوئی ابہام نہیں رہتا کیونکہ گزشتے ہفتے ہی ایسی خبریں منظرِ عام پر آئیں کہ پاکستان نے 2001 کی طرح امریکا کو ایک بار پھر شمسی اور جیکب آباد کی طرح اڈے دے دیے ہیں جس کی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے واشگاف الفاظ میں تردید تو کی لیکن وزیرِ خارجہ کی تردید پرکوئی بھی یقین کرنے کو آمادہ نہیں بادی النظر میں انخلا میں سہولت کاری بڑھانے کے لیے اڈے دینے سے انکار کے باوجود 2001کے معاہدے کی توثیق جیسادرمیانی راستہ تلاش کیا جارہا ہے قبل ازیںعمران خان کااِس حوالے سے دوٹوک موقف تھا کہ پرائی جنگ میں شامل ہوکر ہم نے جانی و مالی نقصان اُٹھایا ہے اب اچانک یوٹرن سے اُن کی ساکھ مزید متاثر ہونے کے ساتھ عین ممکن ہے افغانستان میں بھارتی کردار بڑھ جائے جس سے امن کے خواب میں خلل آ سکتا ہے امریکا کا مفاد ہوتوعالمی اِداروں سے توثیق کرانامشکل نہیں لیکن معاہدے کرتے ہوئے ہمیں ملکی مفاد کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اِس لیے عشروں سے جاری جنگ کا خاتمہ یقینی بنانا ہے تو لڑائی بڑھانے کے اسباب ختم کرنے پر توجہ دینے اور معاہدوں کوکسی عالمی طاقت کے مفاد کے مطابق بنانے کی روش ترک کرنا ہوگی ۔
بیتے چند ہفتوں سے افغان سرحد سے فائرنگ کے واقعات معمول بننے لگے ہیں جن کے دوران پاکستان کے سیکورٹی اہلاکاروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے جس سے دہشت گرد عناصر کی طرف سے افغان سرحد کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی تصدیق ہوتی ہے اور افغانستان میں دہشت گرد عناصر کے ازسرِے نو طاقت پکڑ نے سے امن کے منصوبے کامیاب نہیں ہو سکتے منگل کے روز آرمی چیف کی صدارت میں ہونے والی کورکمانڈر کانفرنس میں فوجی قیادت نے سرحد پار سے فائرنگ کے واقعات میںاضافے کا نوٹس لیا ہے لیکن بات یہاںتک ہی محدود نہیں رہنی چاہیے بلکہ یہ جو کہا جارہا ہے کہ امریکا کا 2001 سے پاکستان سے فضائی اور زمینی راہداری استعمال کرنے کا معاہدہ ہے ایسی باتوں سے شکوک و شبہات میں اضافہ ہوتا ہے جب وزرتِ خارجہ کے ترجمان حفیظ خان بھی معاہدے کی موجودگی کا اعتراف کرنے لگیں تو عام پاکستانی اضطراب کا شکارہوتے ہیں ہر ملک معاہدے کے دوران اپنے مفاد کو یقینی بناتا ہے تو پاکستانی قیادت کو ایسا کرنے سے کون روکتا ہے جب تک ہم ڈراور خوف میں معاہدے کرتے رہیں گے ملکی مفاد کا تحفظ نہیں ہو سکتا اب یہ وقت آگیا ہے کہ قیادت معاہدے کرتے ہوئے ملکی مفاد کا تحفظ یقینی بنائے ایک ختم ہوئے معاہدے کو زندہ کرنا دانشمندی نہیں اگر ایسا کیا جاتا ہے تو یہ ملکی سلامتی کے خلاف متحرک عناصر کی حوصلہ افزائی کرنے کے مترادف ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر