... loading ...
دوستو،ہمارے ملک میں ’’اچانک‘‘ ہی کچھ ہوجاتا ہے، جیسے اچانک عید ہوگئی، اچانک پتہ چلتا ہے کہ ’’پی ٹی آئی‘‘ الیکشن جیت گئی۔۔اچانک پتہ چلتا ہے کہ ملک بھر میں بجلی کا بریک ڈاؤن ہوگیا۔۔اچانک ہی پتہ چلتا ہے کہ چاند نظر آگیا اب جمعہ کو نہیں جمعرات کو عید منائی جائے گی۔۔آپ گھر کی دہلیز پر ہیں کہ اچانک آپ کو گن پوائنٹ پر لوٹ لیا جاتا ہے۔۔ جیسے اچانک ہی کایاپلٹی تو جہاں پہلے والدین بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانے لے جاتے تھے، اب بچے اپنے والدین کو ’’ٹیکے‘‘ لگوانے لے جارہے ہیں۔۔ہمارا خیال ہے کہ پوری قوم ذہنی و جسمانی طور پر ’’اچانک ‘‘ کے لیے تیار رہتی ہے۔۔
مورخ لکھے گا کہ ۔۔ جسٹس صفدرشاہ نے جب بھٹوقتل کیس میں بھٹو کو بے گناہ لکھا تو اس وقت کے حاکم کو اچانک انکشاف ہوا ہے کہ جسٹس صفدر شاہ کی میٹرک کی سند جعلی ہے، جس کی بنیاد پر ریفرنس دائر کردیا گیا۔۔ جسٹس صمدانی نے بھٹو کی ضمانت لی تو حاکم وقت کو اچانک پتہ چلا کہ جسٹس صمدانی تو جج بننے کے اہل ہی نہیں تھے۔۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بھی اچانک بیرون ملک پراپرٹی نکل آئی،پھر ریفرنس بھی دائر کردیاگیا۔۔ جسٹس افتخار چودھری نے مشرف کی ہاں میں ہاں ملانے سے انکار کیا تو اچانک انکشاف ہوا کہ جسٹس چودھری مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے ہیں،پھر حسب روایت ریفرنس۔۔جسٹس کھوسہ نے ایکسٹینشن کو سنجیدگی سے لیا تو ریفرنس تیار ہونے لگا۔۔ جسٹس وقار سیٹھ نے آئین شکن مشرف کوسزاسنائی تو اچانک ہی انکشاف ہوا کہ جسٹس صاحب کا ذہنی توازن ہی درست نہیں ، پھر وہ بے چارے کورونا کے باعث اس دنیا سے ہی چلے گئے۔۔مشرف کے خلاف فیصلہ دینے والی عدالت اچانک ہی ختم کردی گئی۔۔ نیب کورٹ کے جج ارشد ملک کی اچانک ہی قابل اعتراض وڈیو مل گئی۔۔چیئرمین نیب کی متنازع وڈیو بھی سامنے آگئی۔۔اگر حالات حاضرہ پر گہری نگاہ رکھی جائے تو ایسے کئی ’’اچانک‘‘ آپ کو مل جائیں گے۔۔ اصل میں اس ملک میں بائیس کروڑ عوام بھیڑ بکریاں ہیں ،جنہیں چند مسخری اچانک جہاں چاہے ہانک دیتے ہیں۔۔
کہتے ہیں کہ ایک میراثی نے بس تلے بارات کے پچاس بندے کچل کر مارڈالے۔۔پولیس نے گرفتار کرلیا، دوران تفتیش پوچھا کہ اتنے سارے بندے کیسے کچلے گئے؟میراثی نے ڈرتے ہوئے کہا۔۔ میں گاڑی چلا رہا تھا تو بریک فیل ہوگئے، ایک طرف بارات تھی تو دوسرے طرف دو بھائی تھے۔۔بتائیں میں گاڑی کس طرف موڑتا؟پولیس افسر نے کہا ، ظاہر ہے دوبھائیوں کی طرف موڑنا تھا۔۔میراثی نے مسکرا کر کہا۔۔بادشاہو میں نے بھی یہی کیا تھا لیکن۔۔۔ تفتیشی افسر نے فوری سوال داغا، لیکن کیا؟؟ ۔۔میراثی نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا۔۔وہ دونوں بھائی بارات میں گھس گئے تھے۔۔واقعہ کی دُم:حالات و واقعات سے بھی یہی لگتا ہے کہ خان صاحب نے بھی دو بھائیوں کے چکر میں پوری قوم پر گاڑی چڑھا دی ہے۔۔
یہ واقعہ ہمارے پیارے دوست نے ہمیں واٹس ایپ کیا ہے۔۔ایک محلے میں ایک مسٹنڈا رہتا تھا۔ مسٹنڈے نے ساتھ والے گائوں میں ہونے والے ایک کبڈی ٹورنامنٹ کو بھی جیتا ہوا تھا۔ ایک دن مسٹنڈے نے کچھ لفنگے ساتھ لیے اور شور مچانا شروع ہوا کہ۔۔گاؤں کے بازار میں جو اکلوتا ہوٹل ہے اس ہوٹل کا مالک چائے میں ملاوٹ والا دودھ ملاتا ہے۔کھانے میں آئل بھی صحیح نہیں استعمال کرتا اور گوشت بھی صاف نہیں ہوتا۔ مجھے ہوٹل کھولنے دیں۔ میں بہترین تیل میں کھانا پکاؤں گا اور میرے پاس بہترین کک بھی ہیں اور بہت صاف ستھرے ویٹر بھی ہیں مکمل پوری ٹیم ہے۔ میں ایسا ہوٹل بناؤں گا کہ دور دور سے لوگ کھانا کھانے ادھر آئیں گے۔۔لفنگوں نے ناچ ناچ کر گھنگرو توڑ دئیے اور لفنگوں کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ کیونکہ مسٹنڈا کبڈی جیتا ہوا ہے اس لیے اسے ایک موقع ضرور ملنا چاہیے۔ ۔گاؤں میں کافی شور مچ گیا اور بالآخر گاؤں کے چوہدری نے مداخلت کر کے اس ہوٹل کو بند کروا دیا اور مسٹنڈے کو ہوٹل کھولنے کی اجازت دے دی۔ ۔مسٹنڈے نے ہوٹل کھول لیا۔کچھ عرصہ گزرا اور ایک دن چوہدری معائنہ کرنے کے لیے گیا۔ ہوٹل میں جا بجا گندگی پڑی ہوئی تھی۔ چوہدری کے استفسار پر مسٹنڈا بولا کہ۔۔ یہ پچھلے ہوٹل والوں کا گند ہے میں اتنی جلدی کیسے صاف کر سکتا ہوں۔ چوہدری نے دال کا آرڈر دیا۔مسٹنڈے نے ٹیبل پر گندا کپڑا مار کر میلی کچیلی پلیٹ لاکر بدمزہ دال سامنے رکھی۔ اور ساتھ ہی کہا کہ دیگچی میں چوہا گر گیا تھا دل کرتا ہے تو کھا لیں۔ مسٹنڈے کے لفنگے ناچنے لگے کہ۔۔ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوٹل کھلا ہے، جس کا سچا اور ایماندار مالک خود بتاتا ہے کہ ہنڈیا میں چوہا گر گیا تھا۔دال سے بیزار ہو کر چوہدری نے گوشت کا آرڈر کیا۔ مسٹنڈے کے ویٹر نے کہا کہ پرانے ہوٹل والے کی مافیا سارے چکن مہنگے کر گئی ہے لہذا ایک پلیٹ کی قیمت دو ہزار ہو گی۔ اتنی دیر میں ایک ویٹر چوہدری کی جیب کاٹنے لگا۔ چوہدری نے اسے پکڑ لیا تو مسٹنڈا جیب کترے کو کہنے لگا کہ مجھے چوری چکاری بالکل پسند نہیں، میں تمہیں ویٹر کی نوکری سے برطرف کرتا ہوں جاؤ جا کہ کاؤنٹر پر بیٹھ جاؤ۔ چوہدری نے کہا چلو چائے ہی لے آؤ۔ جیب کترے نے کاونٹر سے آواز لگائی کہ۔۔ چائے کا کپ 90 روپے کا ہو گا۔ چوہدری بولا وہ کیوں؟ مسٹنڈا بتانے لگا کہ پچھلے ہوٹل والے نے زبردستی مہنگائی روک کر رکھی ہوئی تھی ،اب ہم نے مصنوعی قیمت کو ٹھیک کر دیا ہے لہذا 90 روپے ہی دینے ہوں گے۔ چوہدری اپنے خیالوں میں 90 کی چائے پی رہا تھا کہ اسے مسٹنڈے کی آواز آئی کہ۔۔ چوہدری صاحب آپ اپنی گاڑی بچا لیں میرے ہوٹل کے ملازم آپ کی گاڑی سے چوری کر رہے ہیں۔ ۔چوہدری نے کہا یہ کیا؟ تم نے کیسے چوروں کا جتھا رکھا ہوا ہے؟۔مسٹنڈا بولا۔۔دیکھو بھلائی کا زمانہ ہی نہیں ایک تو میں نے ستر سال میں پہلی بار گاؤں والوں کو شعور دیا ہے اور اب میں خود بتا رہا ہوں کہ میرے بندے چور ہیں، پھر بھی میری قدر ہی نہیں۔۔ لفنگے بھی چوہدری کو کوسنے لگے اور کہا کہ، اگر مسٹنڈے کے بندے چور ہیں تو وہ بتاتا بھی تو ہے اور ہینڈ سم بھی ہے پھر بھی لوگ مسٹنڈے کی قدر نہیں کرتے۔۔ ۔۔
بند دکان کے تھڑے پر بیٹھے دو بوڑھے آپس میں باتیں کرتے ہوئے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے کہ،ایک متجسس راہگیر نے ان سے اتنا خوش ہونے کی وجہ پوچھ لی۔۔ایک بوڑھے نے اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے بتایا کہ۔۔ہم نے ملک کے مسائل حل کرنے کے لیے ایک شاندار منصوبہ ڈھونڈ لیا ہے،اور وہ منصوبہ یہ ہے کہ ساری قوم کو جیل میں ڈال دیا جائے،اور ان سب کے ساتھ ایک گدھا بھی جیل میں ڈالا جائے۔۔راہگیر نے حیرت سے دونوں کو دیکھا اور پوچھا کہ،وہ سب تو ٹھیک ہے،مگر ساتھ گدھے کو کیوں قید کیا جائے۔۔؟دونوں بوڑھوں نے فلک شگاف قہقہہ لگاتے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھا،اور ایک بوڑھے نے دوسرے سے کہا۔۔دیکھا شرفو۔۔ آگیا یقین تجھے میری بات پر، میں نہیں کہتا تھا کہ یہ قوم اپنے بارے کبھی پریشان نہیں ہو گی، سب کو بس گدھے کی ہی فکر ہو گی۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔جھکی ہوئی گردن سے اگر موبائل فون میں اجنبیوں سے رشتے جڑسکتے ہیں تو حقیقی رشتوں کو نبھانے کے لیے ذرا ساجھک جانے میں کیا مسئلہ ہے؟ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔