... loading ...
ویسے تو ملک بھر میں ہی آج کل پانی کا سنگین بحران جاری ہے اورتمام صوبوں کو زراعت اور آب پاشی کے لیے گزشتہ چند برسوں کی طرح اس برس بھی 25سے 30فیصد تک پانی کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔لیکن بعض حلقوں کی جانب سے پورے شد و مد کے ساتھ یہ دعویٰ کیا جارہاہے کہ صوبہ سندھ کو سب سے زیادہ یعنی کم و بیش 18 سے 22 فیصد تک نہری پانی کم دستیاب ہو رہا ہے ۔جبکہ ماہرین زراعت کی جانب سے اندیشہ ظاہر کیا جارہاہے کہ اگر پری مون سون بارشوں کا آغاز بروقت نہ ہوسکا تو ہر گزرتے دن کے ساتھ پانی کی اس کمی میں مزید اضافہ بھی ہوسکتاہے ۔ یاد رہے کہ مئی میں چونکہ پاکستان بھر میں گرمی کی شدت میں خاطر خواہ اضافہ ہوجاتاہے۔لہٰذا، دریاؤں میں پانی کم ہونے کی وجہ سے ڈیموں میں موجودپانی کے ذخیرہ میں بھی تیزی سے ساتھ کمی واقع ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ نیز جو پانی ڈیم سے نہروں کو فراہم کیا جاتاہے ،اُس کا بھی بڑا حصہ سورج کی تیز تپش کی باعث بخارات بن کر اُڑ جاتاہے اور دوردراز کے زرعی علاقوں میں پانی کا بہاؤ انتہائی سست ہوجاتاہے۔
چونکہ یہ ایام ہمارے ملک میں خریف کی فصلوں کے کاشت کے ہوتے ہیں اور پنجاب میں کپاس کی کاشت ،جبکہ سندھ میں چاول کی بوائی کی جارہی ہوتی ہے۔لہٰذا سندھ اور پنجاب کو دیگر صوبوں کی بہ نسبت آب پاشی کے لیے زیادہ پانی درکار ہوتاہے۔ مگر چونکہ گزشتہ 40 برسوں میں اِن ہی دونوں صوبوں پر حکمرانی کرنے والی سیاسی جماعتیں ملک میں ڈیم بنانے کی بڑی شدت کے ساتھ مخالفت کرتی رہی ہیں۔ اس لیے ملک بھر میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ایک بھی ڈیم نہیں بنایا جاسکااور اَب صورت حال یہاں تک جاپہنچی ہے کہ پانی کا وافر ذخیرہ نہ ہونے کی وجہ سے ارسا کے لیے ہر صوبہ کے لیے مختص پانی میں سے کٹوتی کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ ہر صوبہ کو پانی کی کم فراہمی سراسر انتظامی مجبوری اور تیکنیکی مسئلہ ہے ۔مگر آپ داد دیں کہ پاکستان پیپلزپارٹی کو ،جس نے پانی پر احتجاجی تحریک شروع کرکے اِس خالص تیکنیکی اور نتظامی مسئلہ کو بھی کمال مہارت سے ایک سیاسی تنازع بناکر تحریک انصاف کی وفاقی حکومت پر پانی کی کمی ساری ذمہ داری ڈال دی ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے پانی کے بحران پر احتجاج کے ذریعے وسیع پیمانے پر پاکستانی عوام میں یہ تاثر پھیلایا جارہا ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کی حکومت بطور خاص پانی کے ہتھیار کو صوبہ سندھ کے خلاف’’سیاسی انتقام‘‘ کے لیے استعمال کررہی ہے۔ حالانکہ حقیقت احوال یہ ہے کہ آب پاشی کے پانی کی ملک گیر تقسیم کے لیے برسوں پہلے اتفاق رائے سے ایک فارمولا طے پاچکا ہے ۔ جس کے مطابق ہی ارسا کی جانب سے تمام صوبوں کی نہروں کو، ڈیمز سے پانی جاری کیا جاتاہے۔واضح رہے کہ 1991 میں جب عمران خان کی حکومت تو ایک طرف اُن کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کا بھی پاکستان کے سیاسی اُفق پر کوئی نام و نشان نہیں تھا۔اُس وقت چاروںصوبوں نے پانی کی تقسیم کا ایک معاہدہ کیا تھاجس میںہر صوبہ کا حصہ‘ ہر موسم میں اُس کی زرعی ضرورت کے مطابق مقرر کردیا گیا تھا۔حیران کن طور پر پانی کے اِس معاہدہ کو ممکن بنانے کے لیے بھی پنجاب نے جھگڑا ختم کرنے کی خاطر اپنے حصہ سے کم پانی پر اتفاق کیا تھااور آج تک اسی معاہدہ کے مطابق صوبوں کو پانی مہیا کیا جاتا ہے۔جس کے لیے پانی کی تقسیم کا ذمہ دار ایک خود مختار ادارہ موجود ہے۔جس کے فیصلوں پر تنہا وفاقی حکومت یا کسی ایک صوبہ کی حکومت کا ذرہ برابر بھی کوئی انتظامی عمل دخل نہیں ہے۔اس لیے ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں پاکستان کی تاریخ میں پنجاب نے کبھی بھی سندھ کے حصے کا پانی نہیں روکا، چہ جائیکہ پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت سندھ کے پانی میں ’’انتظامی ڈنڈی‘‘ یا’’ سیاسی ڈنڈا ‘‘مارنے کی کوشش کرے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ چونکہ سندھ میں کپاس کی کاشت پنجاب سے پہلے شروع کی جاتی ہے۔ اس لیے گزشتہ چند ماہ سے صوبہ سندھ کو پنجاب سے زیادہ پانی زراعت کے لیے فراہم کیا جارہاتھا۔ارسا کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سندھ کودریائے جہلم پر منگلا ڈیم سے بھی سات لاکھ ایکڑ فٹ پانی دیا گیا۔ نیزسندھ نے بلوچستان کے حصہ کا پانی بھی خود استعمال کرلیا۔ اس لحاظ سے سندھ کو اب تک اپنے حصہ سے صرف 4فیصد کم پانی ملا ہے جبکہ اس کے مقابلہ میں پنجاب کو اسی مدت میں اسکے حصہ سے 16فیصد کم پانی فراہم کیا گیا۔مگر پنجاب حکومت ، پنجاب کی سیاسی جماعتیں یا پنجاب کے کاشت کاروں نے پانی کی اس اضافی کمی پر کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں کی ۔کیونکہ شاید اُن کے علم میں ہے کہ پانی کی کم یا زیادہ تقسیم مکمل طور پر ایک انتظامی معاملہ ہے ۔جس کا تمام تر انحصار پانی کے ڈیمزمیں دستیابی سے مشروط ہے ناکہ سیاست بازی پر ۔ لیکن جب گزشتہ چند ہفتوں سے جنوبی پنجاب میں کپاس کی فصل کاشت کرنے کے لیے درکار پانی دینے کی خاطرصوبہ سندھ کے نہری پانی میںمعمولی کمی کی گئی توبلا سوچے سمجھے ہی پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے پانی پر سیاست کے ایک نئے دور کا آغاز کردیا گیا۔
ارسا کے مطابق دیگر صوبوں کے مقابلے میں صوبہ سندھ میںدریائی پانی کا سب سے زیادہ یعنی 39 فیصد تک ضیاع ہوتاہے۔یہ سارا پانی زمین میں جذب ہوکر یا بخارات میں تبدیل ہوکرضائع نہیں ہوتا بلکہ اسکا کچھ بڑا حصہ جاگیرداروں کے رقبے کاشت کرنے کی غرض سے چوری کیا جاتا ہے۔نیز سندھ میں اَب تک آب پاشی کے فرسودہ طریقے رائج ہیںاور کھیتوں میں ایک ہی ہلے میں پانی کا سیلاب چھوڑ دیا جاتا ہے۔جس سے پانی استعمال کم اور ضائع زیادہ ہوتاہے۔ ارسا کے مطابق سندھ کے کسان ایک ایکٹر زمین کی کاشت کاری کے لیے 4 فٹ پانی استعمال کرتے ہیں ۔ جبکہ پنجاب کے کاشت کار ایک ایکٹر زمین کے لیے تقریباً 2 فٹ پانی استعمال کرتے ہیں ۔ یاد رہے کہ پنجاب میں زیر کاشت رقبہ سندھ کی نسبت دوگنا ہے لیکن اس کے باوجود اس کو ڈیم کے پانی سے صرف 20 فیصد پانی زائد ملتاہے۔دراصل سندھ میں پانی کی کمی سے زیادہ بڑا مسئلہ کاشت کاری کے طریقوں میں بہتری اور ترقی لانے کا ہے۔
علاوہ ازیں جہاں ایک طرف عوام کے لیے ضروری ہے کہ وہ پانی احتیاط سے استعمال کریں، وہاں حکومت کا بھی فرض ہے کہ مستقبل میں پانی کے کسی بھی بحران سے بچنے کے لیے نئے ڈیمز بہرصورت تعمیر کرے۔ اچھی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت اپنی پیشرو سابقہ حکومتوں کے برعکس ملک میں نئے ڈیمز بنانے کے حوالے سے کافی پرعزم دکھائی دیتی ہے اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے بھی 2028ء تک ملک میں مہمند اور بھاشا ڈیم سمیت دس ڈیم مکمل کرلینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔عمران خان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ’’ پاکستان میں ڈیم تو پچاس سال پہلے ہی بن جانے چاہئے تھے اوراس وقت ملک میں تربیلا اور منگلا ڈیم جیسے کئی ڈیمز موجود ہو تو ملک کو پانی کے سنگین بحران کا سامنا ہی نہ ہوتا‘‘۔بہرحال دیر آید ،درست آید کے مصداق ماضی کا ماتم کرنے کے بجائے بھاشا ڈیم اورمہمند ڈیم پر کام کی رفتار کو تیز کیا جائے اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر تمام صوبوں کے تحفظات دور کرکے ،انہیںاتفاق رائے پر آمادہ کرنے کی مخلصانہ سیاسی کوششوں کی جانب قدم بڑھائے جائیں، تاکہ پانی کی دستیابی کے حوالے سے ہم اپنے مستقبل کو محفوظ بنا سکیں۔
٭٭٭٭٭٭٭