... loading ...
(مہمان کالم)
جولی باسمین
ایمرجنسی رومز میں کورونا کے مریضوں کی مسلسل ا?مد کے کئی ہفتے بعد مشی گن‘ جو امریکا میں کووڈ سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ تھا‘ کے ہسپتالوں میں داخل ہونے والے مریضوں کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں وسکونسن اور ویسٹ ورجینیا سمیت تمام ریاستوں میں کورونا وائرس کی اموات زیرو رپورٹ ہوئی ہیں جو گزشتہ سال ہونے والے کووڈ کے شدید حملے کے بعد ایک خوشگوار وقفہ کہا جا سکتا ہے۔ نیویارک سٹی اور شکاگو کے حکام نے حالیہ اعداد و شمار سے حوصلہ پا کر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ آنے والے ہفتوں میں شہروں کو دوبارہ پوری طرح کھول دیں گے؛ چنانچہ ہم یہ امید کر سکتے ہیں کہ ہم متحرک موسم گرما میں میوزک کنسرٹس، سپورٹس ایونٹس اور گاہکوں سے بھرے ہوئے ریستورانوں والی زندگی سے بھرپور شہر وں کے مناظر ایک بار پھر دیکھنے کے قابل ہو سکیں گے۔امریکی عوام کووڈ سے شدید متاثر ہونے کے بعد ایک بار پھر امید اور روشنی کے نئے فیز میں داخل ہو رہے ہیں۔ اس بھرپور احساس کے ساتھ کہ اب امریکی شہریوں کی اکثریت کو ویکسین لگنے کے بعدکورونا رفتہ رفتہ مرحلہ وار طریقے سے اپنے اختتام کی طر ف رواں دواں ہے۔ اب عوام کی بڑی اکثریت اپنے چہروں سے ماسک اتار رہی ہے، وہ ریستورانوں میں کھانوں سے محظوظ ہونے کے لیے دوبارہ جانا شروع ہو چکی ہے اور کووڈ سے پہلے زمانے جیسی اپنی روٹین کی طرف لوٹ رہی ہے۔ کئی شہروں کے میئرز، کئی ریاستوں کے گورنرز اور مقامی حکام‘ جو آج سے پہلے وائرس سے متاثر ہو کر مرنے والے افراد کی تعداد اور بزنس کے حوالے سے سخت ترین پابندیوں کے اعلان کرنے تک ہی محدود تھے‘ اب امید کی نئی کرن کے ساتھ بڑی تیزی سے ان پابندیوں کے خاتمے کا اعلان کر رہے ہیں۔
اگرچہ صحت عامہ کے ماہرین کی اکثریت ابھی تک بڑی محتاط ہے مگر ان کا بھی یہ کہنا ہے کہ انہیں آنے والے ہفتوں میں اس امر کی امید ہے کہ ریجنل اور مقامی سطح پر ایک مرتبہ پھر کووڈ کیسز میں اضافہ دیکھنے کو ملے گا؛ تاہم انہیں اس بات کی بھی امید ہے کہ اب کی بار کووڈ بڑے پیمانے پر نہیں پھیلے گا اور نہ ہی ماضی جیسی تباہی پھیلانے میں کامیاب ہو گا۔ یونیورسٹی ا?ف منیسوٹا میں قائم سنٹر فار انفیکشیس ڈزیز ریسرچ اینڈ پالیسی کے ڈائریکٹر مائیکل اسٹرہوم کا کہنا ہے ’’اب یہ حقیقت بالکل واضح نظر آ رہی ہے کہ ہم ایک موڑ سے مڑ رہے ہیں‘‘۔ اس وقت امریکا میں کووڈ کی جوصورتحال نظر ا? رہی ہے وہ ہمیں دنیا کے باقی حصوں کی صورتحال سے یکسر مختلف اور متضاد لگتی ہے جہاں کئی ممالک ابھی کووڈ کی ویکسین تک محفوظ رسائی حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ اس وقت بھارت سب سے سنگین بحرانی صورتحال کا سامناکر رہا ہے اور اسی طرح برازیل میں بھی روزانہ ہزاروں افراد کووڈ کی وجہ سے موت کی نذر ہو رہے ہیں۔ اس وقت امریکا بھر میں کووڈ کی تشویشناک صورتحال میں یقینا بہتری دیکھنے میں آ رہی ہے جس کی وجہ سے امریکا پہلی مرتبہ کووڈ کے سامنے قدرے بہتر پوزیشن میں دکھائی دیتا ہے۔ پھر بھی امریکا میں اس وقت کووڈ کے 47ہزار کیسز روزانہ رپورٹ ہو رہے ہیں اور اکتوبر کے بعد کورونا سے متاثر ہونے والے امریکیوں کی یہ کم ترین تعداد ہے اور ہسپتالوں میں داخل ہونے والے مریضوں کی تعداد چالیس ہزار تک ہے اور یہ وہی لیول ہے جو موسم خزاں میں نظر آرہا تھا۔
؎؎مریکا بھر میں اب روزانہ مرنے والے افراد کی تعدا د سات سو تک رہ گئی ہے جو جنوری میں شرح اموات 3000 روزانہ سے کافی حد تک کم ہو گئی ہے۔ ماضی میں کووڈ کے دوران اطمینان بخش وقفے مختصرہوا کرتے تھے؛ چنانچہ گزشتہ موسم گرما اور پورے امریکا میں اس سال موسم سرما میں جنوبی سن بیلٹ ریاستوں میں تو کووڈ کی تباہی میں پھر سے اضافہ ہو گیا تھا لیکن اب ہم ایک اہم فرق کی طرف آتے ہیں۔ امریکا کی نصف آبادی یعنی 149 ملین بالغ ا?بادی کو کورونا ویکسین کی کم از کم ایک ڈوز لگ چکی ہے اور رجائیت کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ نئے کیسز، ہسپتالوں میں داخل ہونے والوں کی تعداد اور شرح اموات میں خاطر خواہ کمی واقع ہو گئی ہے جبکہ اب موسم کی حدت میں بھی اضافہ ہونا شروع گیا ہے۔ ان تمام پہلوئوں کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب لوگ بڑی تعداد میں آئوٹ ڈور میں جا سکتے ہیں جہاں وائرس آسانی سے نہیں پھیلتا۔
اس با ت کے باوجود کہ امید کی کرن روشن ہو رہی ہے‘ امریکا میں اس بات کی ایک ٹھوس وجہ بھی پائی جاتی ہے کہ فی الحال احتیاط کی جانی چاہئے۔ اب ویکسین لگانے کی رفتار میں بھی سستی آرہی ہے اور ماہرین بھی یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا میں ہرڈ امیونٹی کا حصول شاید اتنا آسان نہ ہو۔ کورونا کے ایسے نئے ویرینٹ منظر عام پر آ رہے ہیں جو بڑی تیزی سے پھیل رہے ہیں جس کی وجہ سے ویکسین لگنے سے آنے والی بہتری بھی خطرے میں پڑتی جا رہی ہے۔ اس سے لاکھوں امریکی شہریوں کے کورونا انفیکشن سے متاثرہونے اور ہر روز سینکڑوں افراد کے مرنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن نے ایک ماڈل سٹڈی جاری کی ہے جس میں ایک نئے کورونا ویرینٹ کے پھیلنے کا حوالہ دے کر یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ جولائی میں کافی حد تک کمی آنے کے باوجود آنے والے ہفتوں میں کورونا کیسز میں اضافہ ہونے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔ ڈائریکٹر سی ڈی سی ڈاکٹر روشیل ویلینسکی کا کہنا ہے ’’ابھی ہم خطرے سے باہر نہیں نکلے؛ تاہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم منزل کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر اوسٹر ہوم نے منیسوٹا، اوریگن اور مشی گن میں کووڈ کے مزید پھیلنے کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے ایک اشارہ قرار دیا ہے جس سے ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں کووڈ کس انداز میں پھیلے گا۔اوریگن، کولوریڈو، اوٹاہ اور کینٹکی کی ریاستوں میں انفیکشن پھیل رہا ہے۔ انہوں نے بتایا ’’ہم دیکھ رہے ہیں کہ مقامی نوعیت کے کیسز سامنے ا? رہے ہیں اور یہ گورنرز اور میئرز سے فوری اقدامات کے متقاضی ہیں‘‘۔ یہ بھی امکان ہے کہ آئندہ موسم خزاں اور سرما میں وائرس دوبارہ تیزی سے پھیل سکتا ہے کیونکہ اس وقت زیادہ تر فلو جیسے وائرس بڑی مقدار میں پھیلتے ہیں۔ فی الحال وبائی امراض کے ماہرین بہت زیادہ پْرامید نظر آتے ہیں۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ماہر وبائی امراض اینڈریو نائمر کا کہنا ہے ’’ہم وقت کے تقاضوں کے مطابق اقدامات کر سکتے ہیں‘‘۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اب سمجھ ا?رہی ہے کہ ہمیں پابندیوں کو نرم کر دینا چاہئے کیونکہ موسم سرما کے مقابلے میں اس وقت رسک بہت کم ہے
جب راکی مائونٹ میں واقع ونڈر لینڈ کیمپ بھی گزشتہ سال بند کر دیا گیا تھا تو معذوری کے شکار بچے اور بڑے بہت مایوس ہوئے تھے کیونکہ وہ وہاں آرٹس، ٹیلنٹ شوز، کرافٹس اور ڈسکو ڈانس کے لیے آتے تھے۔ اب اس کے ا سٹاف کی بڑی تعداد کو ویکسین لگ چکی ہے، تیزی سے لوگوں کے کورونا ٹیسٹ کرائے جا رہے ہیں اس لیے اب یہ کیمپ موسم سرما میں کھلنے کے لیے بالکل تیار ہے۔ کیمپ کے ڈائریکٹر جل ویلکی کہتے ہیں ’’کیمپ کھلنے کے حوالے سے بڑا جوش و خروش پایا جاتا ہے‘‘۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس سال ٹی شرٹس پر پرنٹ کرایا جانے والا تھیم کچھ یوں ہوگا ’’ایک بار پھر اکٹھے‘‘۔
ایک طرف تو حالات اتنے پْرامید ہیں جبکہ کئی شہروں میں ابھی تک کورونا کے خوف کی وجہ سے ماسک پہننا ضروری ہے۔ وسکونسن کے شہر کینوشا میں اس ہفتے مقامی کامن کونسل نے ماسک لازمی پہننے کے خلاف ہونے والے ایک اقدام کو بری طرح مسترد کر دیا۔ کائونٹی کے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ نے کہا ہے کہ جلد ہی ویکسین لگانے والے بڑے سنٹرز بند کر دیے جائیں گے کیونکہ ان کی ڈیمانڈ روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے۔ کائونٹی کے ایک رکن روکو لامیک چینیا‘ جو ماسک لازمی قرار دینے کے مخالف تھے اور کہتے تھے کہ یہ معاملہ مقامی بزنس انتظامیہ پر چھوڑدینا چاہئے‘ کہتے ہیں ’’یہ بہت مشکل اور پیچیدہ فیصلہ ہے۔ اگر میں ماسک پہنے بغیر نیچے کسی گلی میں جا رہا ہوں تو مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ لوگ مجھے غلط نظروں سے دیکھیں۔ میرے خیال میں اس کمیونٹی میں ہم سب تمام معاملات میں ایک دوسرے سے اتفاق کرتے ہیں مگر اس سمت میں یہ ہمارا پہلا قدم ہو گا‘‘۔ نیویارک سٹی میں عالمی وبا شروع ہونے سے بھی پہلے سے ماسک پہننا لازمی قرار دیا گیا ہے مگر سی ڈی سی کی سفارشات کے باوجود منظر تبدیل ہو رہا ہے اب جن لوگوں کو ویکسین لگ چکی ہے جب وہ اکیلے یا اپنے دوستوں کے چھوٹے گروپ کے ساتھ آئوٹ ڈور میں جائیں گے تو انہیں ماسک پہننے کی کوئی ضرورت نہیں ہو گی۔ حال ہی میں ایک سنہری دھوپ میں لوگوں کا ایک بڑا گروپ سنٹرل پارک میں نکل آیا تھا اور بہت زیادہ لوگ ماسک کے بغیر راہداریوں میں سے گزر رہے تھے۔ پچھلے مہینے سے نیویارک شہر میں انفیکشن کے نئے کیسز میں دو تہائی کمی واقع ہو چکی ہے اور اب روزانہ بارہ سو کیسز سامنے
آ رہے ہیں۔ اب شہروں میں کووڈ سے متاثرہ افراد کی ہسپتالوں میں داخلے کی تعداد بھی کم ہو کر صرف ایک سو تک رہ گئی ہے۔ نیو یارک میں رہنے والے چالیس فیصد بالغ افراد کو ویکسین لگا دی گئی ہے اور اب بڑے زور شور کے ساتھ پورا شہر کھولنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ 19مئی سے ریستوران، سٹورز، تھیٹرز اور میوزیم کھل جائیں گے اور انہیں پوری استعداد کے مطابق کام کرنے کی بھی اجازت ہو گی۔ کورونا کی عالمی وبا شروع ہونے کے بعد ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے۔
وبائی امراض کے ماہر اور کیلیفورنیا یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر جان سوارٹز برگ کہتے ہیں کہ میں ویکسین لگانے کی موجودہ صورتحال سے جزوی طور پر مطمئن ہوں اور گرم موسم امریکی عوام کو آئوٹ ڈور کی طرف بلا رہا ہے؛ تاہم ان کا کہنا تھا کہ مجھے اس بات کی تشویش ہے کہ کورونا کا مہلک وائرس اب بھارت اور لاطینی امریکا میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلا رہا ہے اور انہوں نے اس امر پر حیرانی کا اظہار بھی کیا کہ امریکا میں بھی شہروں کو کھولنے میں زیادہ جلدی اور عجلت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے جبکہ ابھی تک بھی ہر روز پچاس ہزار سے زائد کیس منظرعام پر آرہے ہیں۔ ’’جس انداز سے یہ وائرس پھیل رہا ہے اس میں ایک بے ترتیبی پائی جاتی ہے۔ ایک مقام پر یہ بڑی تیزی سے اوپر جاتا ہے مگر پورے ملک یا پوری دنیا میں اس کا پھیلنے کا یہ انداز نہیں ہے۔ اس کا یہ بے ہنگم پھیلائو میرے اندر ایک تشویش اور فکر مندی کا احساس پیدا کرتا ہے‘‘۔
اگرچہ پچھلے سال بیماری کا ایک سیلاب آیا جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں امریکی شہری موت کے منہ میں چلے گئے؛ تاہم آنے والے دنوں میں صورت حال حوصلہ افزا ہو جائے گی۔ لاس اینجلس کائونٹی کی خبریں میڈ یاکی زینت بنیں کہ اتوار اور سوموار کو یہاں زیرو اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔ یہ ایک مختصر سا سنگ میل تھا، ایک دن بعد منگل کے روز یہاں مرنے والوں کی تعداد اٹھارہ رپورٹ ہوئی؛ تاہم یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ہم لاس اینجلس جیسے سائز کی کائونٹی کی بات کر رہے ہیں جو امریکا کی سب سے بڑی کائونٹی ہے جہاں ایک کروڑ سے زائد امریکی رہائش پذیر ہیں۔ ابھی چند ہی مہینے پہلے یہاں کے ہسپتال مریضوں سے بھرے ہوئے تھے اور چاروں طرف مرنے والوں کے جنازے نظر آرہے تھے۔ صرف لاس اینجلس کائونٹی میں ہر روز دو سو سے زائد افراد کووڈ کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔