... loading ...
ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ کیا ہم میں ایک شرمناک سقم اور کرب ناک خلل پیدا ہو چکا؟ ہماری خوشیاں مصنوعی اور غم نمائشی ہوگئے۔ ہمارے قہقہے زہر آلود اور آنسو بے درد دکھائی دینے لگے۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟
کسی قوم کا زوال ایک واقعے کے طور پر بعد میں سامنے آتا ہے، مگر حقیقی طور پر اس سے کہیں پہلے شروع ہو جاتا ہے۔ کیا یہ شروع نہیں ہوگیا؟ہماری قومی بحثیں اس کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اس قوم نے عید کا پہلا دن ایسے منایا کہ آج عید نہیں ،اور دوسرا دن ایسے کہ کل واقعی عید ہی تھی۔ عید سے ایک روز پہلے ہم بحث کررہے تھے کہ چاند نظر آنہیں سکتا تھا، پھر اعلان کیسے ہوگیا، بھلا چاند کا اعلان رات ساڑھے گیارہ بجے بھی ہو سکتا ہے؟ عید کے دوسرے دن ہم لوگوں کو چاند دکھا رہے تھے کہ یہ دوسرے دن کا ہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ہر کسی نے عید کے چاند پر اپنے چاند چڑھائے۔ایک چاند کے اعلان پر ملک میں تمام سیاسی اور مذہبی عصبیتیں جاگ گئیں۔ مفتی منیب الرحمان نے اچانک فتویٰ صادر فرمایا کہ ایک روزہ قضا ہوگا۔ کل تک چیئرمین رویت ہلال کمیٹی ہوتے ہوئے اُن کا ارشاد ہوتا تھا کہ سرکاری اعلان ہی حتمی ہے۔ کوئی دوسرا انفرادی طور پر اپنا چاند نہیں چڑھا سکے گا۔ وہ پشاور کی مسجد قاسم علی خان میں مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی جانب سے چاند دیکھنے کے اہتمام اور اعلان کو ریاستی رٹ کے خلاف قرار دیتے تھے۔ اب وہ چیئر مین رویت ہلال کمیٹی نہیں رہے تو خود بھی مفتی شہاب الدین پوپلزئی ہی بن گئے۔ اُن کے خیال میں چانددکھائی نہیں دیا تھا۔ اب اُن کا انحصار اُس سائنس کے حساب پر تھا، جسے وہ فواد چودھری کے وزیرسائنس اینڈ ٹیکنالوجی ہوتے ہوئے مذہبی استدلال سے رد کرتے تھے۔ رویت چاند کی مذہبی تشریح کے خلاف فواد چودھری سائنسی طور سے رویت چاند کے آئندہ حساب کو تقویم میں ڈھالنے پر مُصر تھے، جو مستقبل میں سالہا سال تک موثر رہتا۔ فواد چودھری کے لیے رویت ہلال کمیٹی کا ادارہ ایک ازکارِ رفتہ شے ہے جسے جدید سائنس نے بے افادہ کردیا ، وہ ایک قدم آگے بڑھ کر اسے بے توقیر بھی کرتے تھے۔ مگر غضب خدا کا مفتی منیب الرحمان کے پاس اپنے فتوے کے لیے وہی چاند کی عمر کا حساب کتاب تھا، جو اپنی اصل میں سائنسی تشریح ہے۔ گویا مفتی منیب الرحمان کے اندر ایک مفتی پوپلزئی نہیں بلکہ اُس روز فواد چودھری بھی سما گیا تھا۔ انسانی نفسیات کی یہ گتھی بھی اب مختلف تجربات میں سلجھ گئی ہے کہ اکثر حریف لڑتے ہوئے ایک دوسرے جیسے ہی ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ مفتی منیب الرحمان کا فتویٰ اُس رویت ہلال کمیٹی کے خلاف تھا جس کے چیئرمین ہوتے ہوئے وہ ایسے ہی فتووں کو دیگر فقہی نکات سے رد کرتے تھے۔ مفتی منیب اپنے فتوے میں اپنے ماضی کے خلاف کھڑے تھے، اور اُن کے فتووں کے الفاظ میں ’’مجھے کیوں نکالا‘‘کی گونج سنائی دیتی تھی۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟
مفتی منیب پر کیا موقوف! پھر ایک دوسرا فتویٰ بھی آیا۔ یہ چاند کے اعلان پر اعتماد کے لیے تھا۔ اس فتوے کے تحت روزے کی قضا ضروری نہ تھی۔ اعلان درست تھا۔ اس میں یاد کرایا گیا کہ ماضی میں بھی اسی نوع کی گواہیوں پر چاند چڑھائے گئے۔ گویا اگر چاند کے ساتھ کوئی چاند ماری کی گئی ہے تو ماضی میں یہی حرکتیں مفتی منیب الرحمان کی ذاتِ گرامی قدر سے بھی سرزد ہوئیں۔ اس فتوے میںچمنِ شریعت میں کھلنے والے پھولوں کی خوشبو نہیں بلکہ فرقہ وارانہ تعصب کا تعفن اُٹھ رہا تھا۔ہماری مذہبی بصیرت، معیارِ شریعت اور فقہی منزلت تعصب اور جاہ طلبی کی قَے کے سواکچھ نہیں۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟اس دوران میں ایک صاحب حافظ طاہر اشرفی نے اچانک بیان داغا کہ ہم نے اکیس سال بعد قوم کو ایک عید کا تحفہ دیا۔ حافظ طاہر اشرفی ایسے لوگ جس حکومت میں ہو، اُسے اپنی ساکھ کے لیے ویسے بھی کافی محنت کرنا پڑتی ہے، مگر عمران خان کی جو حکومت ہے، اس میں طاہر اشرفی جیسے لوگوں کوبھی اپنی ساکھ کی پروا رہنی چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ طاہر اشرفی نے رویت ہلال کمیٹی کی ’’چاند چڑھائی‘‘ کو اپنی سرپرستی میں لینے کی کوشش کیوں کی؟ اس طرح یوں لگا کہ رویت ہلال کمیٹی چاند دیکھ رہی تھی اور حافظ طاہر اشرفی کی حکومت کمیٹی کو دیکھ رہی تھی۔ پھر اکیس سال بعد قوم کو ایک عید کا تحفہ دینے کے بیان سے یہ سوال زیرگردش آیا کہ کیا ہم چاند دیکھ رہے تھے یا ’’تحفہ‘‘ تیار کررہے تھے۔ اس میں ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ مسجد قاسم علی خان سے عید کا اعلان پہلے ہی ہوچکا تھا۔ اگر یہ ایک عید کا تحفہ تھا تو مفتی پوپلزئی اعلان نہ کرتے، اور رویت ہلال کمیٹی یہ اعلان کرتی۔ رویت ہلال کمیٹی نے پیروی کی تھی ، قیادت نہیں۔ یہ اتفاق نہیں بلکہ دُم پکڑ کر دَم لینے کی کوشش تھی۔ حافظ طاہر اشرفی ایسے لوگ بازی گر ہوتے ہیں، حکمت کار نہیں۔ افسوس قوم کے اجتماعی معاملات کن ہاتھوں میں ہیں؟ ہم بھی کیالوگ ہیں؟
سوال یہ ہے کہ ایک چاند کے اعلان پر اس نوع کے مباحث کیوں جنم لیتے ہیں؟ یہ سادہ سی بات نہیں۔ قوم کے ریاست پر اعتماد کا معاملہ ہے۔ غور کیجیے! یہ بحثیں نشاندہی کرتی ہیں کہ عوام یا شہری حکومتوں کی جانب سے چاند کے اعلان پرلوگ عید تو منا لیتے ہیں مگر وہ حکومتوں پر اعتماد نہیں کرتے۔ اگر انہیں چاند کے اعلان کے لیے کوئی متبادل بندوبست ملے تو وہ رویت ہلال کمیٹی کو نظر انداز کردیں۔ حکومت کے اعلان کی بھی پروا نہ کریں۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ سادہ چاند کا معاملہ نہیں۔ حکومتوں کے ظاہر وباطن سے جڑا سب سے سنگین پہلو ہے۔ شہریوں کا حکومت اور ریاست پر اعتماد کسی جبر کا نتیجہ نہیں ہوتا۔ یہ براہِ راست ریاست یا حکومت کی ساکھ سے جڑا ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ سات دہائیوں میں ریاست اور اُسے چلانے والے حکمرانوں یا طاقت کے مراکز نے کون سی ساکھ بنائی ہے؟ان تمام قوتوں نے قوم سے جھوٹ بولنے کے علاوہ کیا کِیا ہے؟قوم کے ساتھ خیانت کے علاوہ ان کی فردِ عمل میں رکھا کیا ہے۔ انتہائی حساس اور قومی نوعیت کے معاملات میں بھی ہمارے حکمرانوں اور طاقتور مراکز نے خیانت کی ایک مکروہ تاریخ بنائی ہے۔ اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان سے آج تک ہماری قومی طاقت کے مراکز کسی ایک معاملے میں بھی عوام کے لیے اعتماد افزاء فضا پیدا کرنے میں ناکام رہے۔ عوام خوامخواہ یہ نہیں سمجھتے کہ حکومتیں جھوٹ بولتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ چاند کا اعلان بالکل درست ہوا ہو، پھر بھی قومی تاریخ سے بننے والا عوامی ذہن حکومتوں سے بدگمانی رکھنے کا جواز رکھتا ہے۔ جہاں امریکا سے تعلقات کی تاریخ قومی حمیت کی قیمت پر بنائی گئی ہو، سقوط ڈھاکا ہوا ہو، مسئلہ کشمیر دہائیوں سے ہمارے انحراف کی قیمت ادا کررہا ہو، بھارت سے نفرت اور درونِ خانہ ایک تال میل رکھی گئی ہو، جہاں امریکا کی خوشنودی کے لیے مسلم بھائیوں کا خون تحفتاً پیش کیا جاتا ہو، جہاں توہین رسالت ﷺ کے معاملے میں بھی مکروہ سیاسی اہداف رکھے گئے ہو، جہاں سیاسی جماعتوںپر گرفت کے لیے مذہبی اختلافات کو جنم دیا گیا ہو، احتجاج کی سرکاری سرپرستی کی گئی ہو، قتل وغارت گری کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہو، وہاں ایک چاند کے معاملے پر سیاست کیوں نہیں کی جاتی ہوگی؟ چاند کے معاملے میں عوامی اعتماد کی کمی دراصل ریاست کی ساکھ سے جڑی ہے۔ ایک حکومت مسلمانوں کے عظیم اور مذہبی تہواروں کی حقیقی خوشیوں کو بھی مناسب اعتماد نہ دے سکے، وہ ہماری زندگیوں میں دخیل کیسے ہوسکتی ہے، اس پر عوام لعنت نہ بھیجے تو کیا کریں؟ کیا ہمارے طاقت ور حلقے کبھی یہ سوچتے ہوں گے کہ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟
٭٭٭٭٭٭