... loading ...
(مہمان کالم)
رچرڈفریڈمین
کووڈ کے دنوں میں امریکی عوام کی ذہنی صحت کے حوالے سے ملنے والے ڈیٹاسے اندازہ ہو رہا ہے کہ آنے والے دن زیادہ اچھے نہیں ہوں گے۔سرویز سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی شہری زیادہ ڈپریس ہوچکے ہیں اور مختلف ماہرین کا کہنا ہے کہ کووڈ نے سماج کو بالکل ہی تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔کووڈ غیر معمولی دبائو اور افسردگی کا باعث بنا ہے‘انسانی فطرت کے ماہرین کا خیال ہے کہ لوگ کووڈ کے ٹراما سے ہمارے اندازوں سے کہیں پہلے باہر نکل ا?ئیں گے۔اگرچہ بعض گروپس کو زیادہ مدت کے لیے ذہنی صحت کی دیکھ بھال کی ضرورت پڑے گی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی المیے سے باہر نکلنے کے حوالے سے اکثر انسانوں کے ساتھ کم توقعات وابستہ کی جاتی ہیں اور جو لوگ کسی ٹراماکا سامنا کررہے ہوتے ہیں ان کی اکثریت میں بھی ذہنی بیماری زیادہ حاوی نہیں ہوتی بلکہ وہ حقیقت میں جلد بہتر محسوس کرنے لگتے ہیں۔ایک سائیکاٹرسٹ کے طور پر میں اپنے کولیگز اور مریضوں کو بہت قریب سے دیکھتا ہوں۔میرے اکثر مریضوں میں جو کووڈ سے پہلے ہی کلینکل ڈپریشن اور اضطراب کا شکار تھے کووڈکے دنوں میں ان کی حالت میں کوئی منفی تبدیلی نہیں ا?ئی۔ہاں ان میں دبائو اور تشویش پائی جاتی تھی مگر میں یہ دیکھ کر حیران تھا کہ اس عرصے میں انسانوں کا یہ گروپ غیر معمولی طور پر مستحکم رہا۔کوو ڈکے ابتدائی دنوں سے میں اپنے ہسپتال میں ایک سپورٹ گروپ بھی چلا رہا ہوں۔خواتین و حضرات پرمشتمل یہ گروپ روزانہ کووڈ سے متاثرہ بہت سے لوگوں میں ٹیوبز ڈالتا ہے اس لیے انہیں براہ راست وائرس اور مریضوں سے واسطہ پڑتا ہے مگر اب یہ گروپ ٹوٹ گیا ہے کیونکہ گروپ کے ارکان سمجھتے ہیں کہ وہ میرے بغیر بھی معاملے کو بہتر انداز میں ڈیل کر سکتے ہیں۔تاہم میں یہ کہوں گا کہ کووڈ کا ذہنی صحت پر اثر حقیقی نہیں ہوتا اور نہ ہی بعض کیسز میں یہ زیادہ عرصے کے لیے ہوگا۔یہ حقیقت ہے اور یہ عرصے تک جاری رہے گا۔تاہم یہ یاد رکھنا بھی اہم ہے کہ وہ لوگ جنہیں سٹریس اور ٹراماکا سامنا کرنا پڑ اہے ضروری نہیں کہ ان میں کلینکل ڈپریشن یا پوسٹ ٹرامیٹک ڈس آرڈر پیدا ہو۔ یقینا انہیں اینگزائٹی او ر افسردگی سے واسطہ پڑتا ہے مگر جب سٹریس ختم ہو جاتا ہے تو یہ شکایات بھی زائل ہو جاتی ہیں۔سٹڈیز سے پتہ چلتا ہے کہ 90فیصدسے زائد امریکی شہریوں کو ٹراما میں سے گزرنا پڑاہے مگر ان میں سے صرف 6.8فیصدامریکی ہی پی ایس ٹی ڈی کا شکار ہوئے ہیں لہٰذا جہاں ٹراما کی کیفیت سے دوچار ہونا عام بات ہے وہیں ان میں سے بہت کم لوگوں میں ٹراما کے نتائج دیکھنے میں آتے ہیں۔
پی ایس ٹی ڈی کی وجہ سے ٹرامامتاثرین کی فالو اپ ا سٹڈیز سے معلوم ہوا ہے کہ ٹراما ختم ہونے کے تین مہینے کے اندر اندر اس کی علامات میں بھی کمی آگئی اور پی ایس ٹی ڈی کے 66فیصدمریض بالکل صحت یا ب ہو گئے۔ضروری نہیں ہے کہ ٹراما بیماری پیدا ہونے کا سبب بنے اور اس بات کو اس وقت یاد رکھنا بہت ضروری ہے جب ہم یہ دیکھنا چاہتے ہوں کہ جب کووڈ پھیلتی ہے تو لوگ اپنا رد عمل کس طرح ظاہر کرتے ہیں۔سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کی ایک ا سٹڈی میں انکشاف کیا گیاہے کہ اگست 2020ء سے لے کر فروری 2021ء کے دوران بالغ افراد میں انگزائٹی اور ڈپریشن کی علامات 36.4فیصدسے بڑھ کر 41.5فیصدہوگئیں مگر اس طرح کے سرویز میں علامات کا تعین ایک خاص موقع پر ہی کیا جاتا ہے جوکہ بعد میں تبدیل بھی ہو سکتا ہے۔یہ سروے عام طور پر آن لائن ہی کیے جاتے ہیں اور ان کے لیے ریٹنگ سکیلز استعمال ہوتے ہیں جو قابلِ اعتبار قسم کی کلینکل تشخیص نہیں کر سکتے۔ دیگر ریسرچر ز جو ذہنی بیماریوں کے شکار لوگوں کی ٹریکنگ کر رہے تھے انہیں بھی ان لوگوں میں کووڈ کے دنوں میں ڈپریشن کی سنگین علامات نہیں ملیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے ایسے مریض یہ جان کر بہت اطمینان محسوس کرتے ہیں کہ ٹراما سے گزرنے والے اکثرافرا دمیں سائیکوپتھالوجی کی علامات نہیں ملتیں۔مشکلات کا سامناکرنے کی صلاحیت رکھنے والے افراد میں لچک دار رویہ ہی ان کی خوبی ہوتی ہے مگرہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کے اندر نفسیاتی عارضہ موجود ہی نہیں ہوتا۔اس کے برعکس انگزائٹی اور افسردگی دو عام ردعمل یا رویے ہوتے ہیں مگر یہ عارضی اور قابلِ برداشت ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ جو شدید دبائو اور ٹراما میں سے گزرتے ہیں ایک صحت مند اور مثبت زندگی گزارتے رہتے ہیں۔ہر طرح کے دبائو ہمارے دماغ کے لیے نقصان دہ نہیں ہوتے۔ لوگوں کی اکثریت جو کووڈ کے دوران گھروں میں قید رہی ہے ایک قابل علاج عارضی دبائو کا سامنا کررہی ہے۔جونہی نارمل زندگی شرو ع ہو گی وہ بہتر محسوس کرنا شروع کر دیں گے۔کووڈ کے دوران سیاہ فام اور رنگدار لوگ کووڈ کے ذہنی دبائو سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور 2020ء میں کووڈ کے دوران ان کے ہاں خودکشی کے زیادہ واقعات ہوئے ہیں مگر امریکامیں مجموعی طور پر خودکشی کے واقعا ت میںکمی واقع ہوئی ہے۔ ان لوگوں کی جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے ضروری ہے کہ ان کی ہیلتھ کیئر تک مناسب رسائی کو یقینی بنایا جائے۔
ماہرین عرصے سے اس بات میں دلچسپی لے رہے ہیں کہ بعض لوگوں میں ذہنی دبائو کا سامنا کرنے کی زیادہ صلاحیت کیوں ہوتی ہے۔مستقل ذرائع ا?مدنی ‘فیملی سپورٹ ‘اور ہیلتھ کیئر تک رسائی ایسے عوامل ہیں جو لوگوں کو ٹراما کے اثرات کا سامنا کرنے کے قابل بناتے ہیں۔مگر کچھ ایسے کام بھی ہوتے ہیں جو کسی انسان کی جذباتی اور جسمانی قوت برداشت کو تقویت دینے کا باعث بنتے ہیں مثلاًاپنے سماجی رابطے برقرار رکھنا ‘باقاعدہ جسمانی ایکسر سائز کرنا ‘اور اپنا ذہنی دبائو کم کرنے کے نئے نئے طریقے تلاش کرنا۔مثال کے طور پر سماجی سپورٹ ہمارے اندر ذاتی نوعیت کا احساس تکریم اور کنٹرول پید اکرکے ہماری قوت برداشت میں استحکام پیدا کرتی ہے۔سماج سے جڑت ہمارے دماغ کے خوف اور اینگزائٹی کے سرکٹ سے رابطے کو منقطع کردیتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم ایک جابر اور وحشی دور سے گزر رہے ہیں جو ناقابلِ بیان نقصان اور غم سے بھرا پڑا ہے۔میں کووڈ کی وجہ سے اپنی ماں سے محروم ہوا ہوں اور میں آج بھی افسردہ رہتا ہوںمگر لوگوں کو یہ سوچ کر اطمینان ہونا چاہئے کہ ہم کووڈ کو اس پوائنٹ تک لے ا?ئے ہیں اور کبھی یہ بات فراموش نہ کریں کہ انسان ہمارے اندازے سے زیادہ قوت برداشت رکھتے ہیں اور وہ بہت جلدبائونس بیک کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔