وجود

... loading ...

وجود

دارالامان سے بھی ’’امان‘‘ رخصت ہوئی

پیر 10 مئی 2021 دارالامان سے بھی ’’امان‘‘ رخصت ہوئی

چونکہ ایک طویل عرصہ تک پاکستان پیپلزپارٹی کی باگ دوڑ بے نظیر بھٹو شہید کے پاس رہ چکی ہے۔شاید یہ ہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ جس کے باعث ماضی میں پاکستان پیپلزپارٹی نے ملک بھر میں خواتین کی سماجی ترقی اور بہبود کو یقینی بنانے کے لیے کئی فقیدالمثال اقدامات اُٹھائے۔ یادرہے کہ بے نظیر بھٹو شہید چونکہ خود بھی ایک خاتون تھی ،لہٰذا انہیں پاکستانی معاشرے میں خواتین کو درپیش مسائل و آلام کا زیادہ بہتر ادراک اور شعور حاصل تھا۔ بے نظیر بھٹو شہید نے پاکستان بھر میں خاص طور پر سندھ میں گھریلوتشددیا کسی دیگر سانحہ کا شکار ہونے والی بے گھر اور لاوارث خواتین کے لیئے مثالی سہولیات سے آراستہ دارلامان کے قیام میں ہمیشہ خصوصی دلچسپی لی۔مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ حالیہ دنوں سندھ حکومت کی عدم توجہ کی بناء پرصوبہ بھر میں قائم سرکاری سرپرستی میں چلنے والے دارالامان بڑی تیزی کے ساتھ اپنی افادیت کھوتے جارہے ہیں اور کافی عرصے سے تواتر کے ساتھ دارلامان میں مجبور و مقہور خواتین کے ساتھ مبینہ زیادتیوں کی خبریں سامنے آرہی ہیں ۔ایسی ہی ایک ہولناک اور دل ہلادینے والی خبرگزشتہ دنوں دارلامان سکھرکے متعلق میڈیا میں زیرگردش ہے کہ جس میں دارلامان سکھر میں پناہ لینے والی خاتون کے ساتھ مبینہ زیادتی کا انکشاف ہوا ہے۔
واضح رہے کہ متاثرہ خاتون نے سندھ ہائی کورٹ کراچی بینچ کو تحریری خط کے ذریعے زیادتی کے حوالے سے ایک درخواست دائر کی تھی۔جس پر فوری کارروائی کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ کراچی کے حکم پر سیشن جج سکھر نے انکوائی کی۔عدالتی انکوائری میں دارالامان میں رہائش پزیر 8 خواتین کے بیانات قلمبند کیے گئے ۔جس میں خواتین نے بتایا کہ متاثرہ خاتون کا دماغی توازن درست نہیں ہے اور خاتون کی اسی جسمانی معذوری کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے دارالامان کے کلرک نے کئی بار مذکورہ خاتون سے زیادتی کی۔جبکہ زیادتی کرنے والا دارلامان کا کلرک ہمارے احتجاج پر ہمیں جان سے مار نے کی دھمکیاں بھی دیتا تھا‘‘۔گو کہ سندھ ہائی کورٹ کراچی بینچ کے اُحکامات پر ملزم شریف مغل کو گرفتار کرکے سرکار کی مدعیت میں تھانہ سی سیکشن میں مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ مگر اس سارے واقعے کا سب سے تاریک اور بھیانک پہلو یہ ہے کہ متاثرہ خاتون کو انصاف کے لیئے سندھ ہائی کورٹ کراچی سے رجوع کرنا پڑا ۔حالانکہ اُصولی طور پر خواتین کو حقوق فراہم کرنے کی دعو ی دار پاکستان پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کی بنیادی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ متاثرہ خاتون کے عدالت میں پہنچنے سے قبل ہی اُسے انصاف فراہم کرنے کے لیئے اپنی انتظامی طاقت کو استعمال کرتی۔
حیران کن بات تو یہ ہے کہ ابھی چند برس قبل ہی دارالامان و سیف ہاؤسز کو سندھ حکومت کی جانب سے محکمہ ترقی نسواں سندھ کے سپرد کردیا گیا تھا۔ اس سے قبل یہ دونوں ادارے محکمہ سماجی بہبود کے پاس ہواکرتے تھے۔صوبہ بھر کے دارلامان اور سیف ہاوسز کو محکمہ ترقی نسواں سندھ کے سپرد کرنے کی وجہ یہ بتائی گئی تھی ۔ اس طرح اِن اداروں کے انتظامی معاملات زیادہ بہتر اور شفاف ہوجائیں گے۔ بظاہر ایسا ہونا عین قرین قیاس لگتا بھی تھا کیونکہ صوبائی وزیر ترقی نسواں کا منصب سیدہ شہلا رضا کے پاس ہے اور اُن کی موجودگی میں سب ہی کو قوی یقین تھا کہ صوبہ سندھ میں قائم تمام دارلامان اور سیف ہاؤسز میں جلد ہی انقلابی بہتری دیکھنے میں آئی گی اور یہاں پناہ لینے والی خواتین زیادہ محفوظ اور پرسکون زندگی بسر کرسکیں گی۔ یاد رہے کہ سیدہ شہلا رضا نے دارلامان و سیف ہاؤ سز کو محکمہ نسواں سندھ کے سپرد کی جانے والی تقریب کے موقع پر اِس انضمام کو انتہائی خوش آئند قراردیتے ہوئے کہا تھا کہ’’ ہمارا عزم ہے کہ محکمہ ترقی نسواں میں شامل ہونے والے اداروں کو مکمل خوش اسلوبی سے چلائیں۔ویسے بھی ان اداروں کا آپسی تعلق بنتا ہے۔کیونکہ خواتین کے امور سے متعلق بیشتر مقدمات میں دونوں اداروں کے درمیان فاصلے سے کئی بار پریشانی کا سامنا رہتا تھا تاہم اب ان اداروں کے انضمام سے باہمی رابطہ مزید مضبوط ہوگا اور تمام کام بآسانی انجام تک پہنچانے میں ممکنہ انتظامی رکاوٹیں دور ہوجائیںگی ‘‘۔لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ محترمہ سیدہ شہلا رضا صاحبہ کا کوئی بھی دعوی سچ ثابت نہ ہوسکا اور سندھ میں دارلامان و سیف ہاؤسز کے انتظامی معاملات بہتر ہونے کے بجائے مزید ابتری کی جانب گامزن ہیں۔ جس کا ایک واضح ثبوت دارلامان سکھر میں خاتون کے ساتھ مبینہ زیادتی کا ہونے والاحالیہ افسوس ناک واقعہ ہے۔
شاید اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سندھ حکومت کے وزراء اپنی وزارتوں کے انتظامی معاملات بہتر کرنے کے بجائے اپنی سیاست چمکانے میں زیادہ مصروف ہیں ۔جبکہ پیپلزپارٹی کی اعلی قیادت کی توجہ کا بھی اصل مرکز صوبہ میں انتظامی ترقی کے بجائے سیاسی جوڑ توڑ ہی ہے۔اس حوالے سے گزشتہ دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی سندھ حکومت کی خوب سرزنش کی ہے۔دراصل سپریم کورٹ میں کورونا وائرس ازخودنوٹس کی سماعت کے دوران حکومت سندھ نے تعلیم، صحت اور دیگر شعبوں پر اخراجات سے متعلق اپنی رپورٹ جمع کرائی تھی۔جسے چیف جسٹس نے غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل سندھ سے کہا کہ ’’حکومت سندھ نے اپنی رپورٹ میں تعلیم، صحت اور دیگر شعبوں میں خطیر رقم کرنے کا ذکر کیا ہے، جتنے پیسے آپ نے خرچ کرنے کا بتایا ہے سندھ کو تو پیرس بن جانا چاہئے تھا، سندھ حکومت کی رپورٹ کے مطابق سندھ میں 2013 اور 2017 میں تعلیم پر2006 ملین امریکی ڈالر خرچ ہوئے، اس طرح تو سندھ کے تعلیمی اداروں کو ہارورڈ بن جانا چاہئے تھا، جتنا پیسہ خرچ کیا جا چکا ہے ،اَب تک تو سندھ میں اسکولوں کی صورت میں محلات تعمیر ہو جانے چاہئے تھے اور شرح تعلیم سو فیصد تک پہنچ جانی چاہئے تھی‘‘۔چیف جسٹس ،سپریم کورٹ آف پاکستان کے یہ ریمارکس سندھ حکومت کی انتظامی کارکردگی کا نوحہ ہیں۔ لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے پاکستان پیپلزپارٹی کو احساس ہی نہیں ہے کہ سندھ کی خلق ِ خدا ’’غائبانہ ‘‘ طور پر اُسے کیا کہتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر