... loading ...
کوئی مانے یا نہ مانے لیکن سچ تو یہ ہی ہے کہ امریکا اور طالبان کے مابین طے پانے والا افغان امن معاہدہ عملی طور پر پوری طرح سے سبوتاژ ہوچکا ہے اور امن معاہدے کے فریقین یعنی نئی امریکی انتظامیہ اور طالبان مکمل طور پر ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں کیے گئے افغان امن معاہدے سے اپنے اپنے طور پر دستبردار ہوچکے ہیں۔جوبائیڈن انتظامیہ طالبان کے ساتھ اپنی من پسند نئی شرائط پر ازسرِ نو معاہدہ کرنے کی خواہش مند ہے ۔جبکہ افغان طالبان کا اصرار ہے کہ اُن کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ کیا گیا اَمن معاہدہ ہی حرف آخر ہے اور وہ کسی بھی صورت جوبائیڈن انتظامیہ کے ساتھ نئے امن معاہدے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔بظاہر طالبان کا موقف بالکل درست دکھائی دیتا ہے کیونکہ سب سے پہلے امریکا کو اپنے سابقہ معاہدے کے تمام تر نکات پر عمل پیرا ہونا چاہیئے اور اس کے بعد ہی معاہدے کی دیگرچھوٹی موٹی جزیات یا تفصیلات پر گفت و شنید کا آغازکیا جانا چاہئے ۔ بہرحال افغان امن معاہدے کے سبوتاژ ہونے سے افغانستان میں دیرپا امن کی اُمیدیں دم توڑنے لگی ہیں اور افغان سرزمین مختصر سے وقفہ کے بعد ایک بار پھر سے آگ اور خون اگلنے جارہی ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ افغان حکومت بھی افغانستان میں اَمن کی خواہاں نظر نہیں آتی ۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں ایک اہم ترین اجلاس میں پاکستان نے امریکا، چین اور روس کے ساتھ مل کر افغان حکومت اور طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیںکہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ کا باعث نہیں بنے گی۔ دراصل یہ چاروں ممالک افغان حکومت پر طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے زور دے رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) طالبان اور افغان حکومت کے کردار کا ازسر نو جائزہ لے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ دہشت گرد گروہ اور افراد کسی دوسرے ملک کی سلامتی کے خلاف افغان سرزمین استعمال نہیں کریں گے‘‘۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کو مخاطب کرتے ہوئے اِس بیان کو جاری کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہی کہ افغان حکومت اور کالعدم تنظیم تحریک طالبان کی طرف سے ایک بار پھر سے ریاست پاکستان کو دھمکی آمیز لہجے میں للکارا جارہاہے۔جیسا کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان نے پاکستان میں 2014 میں پشاور آرمی پبلک اسکول میں قتل عام سمیت متعدد حملوں کے دوران افغان سرزمین کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا ہے۔اس لیے قوی اندیشہ پایا جاتاہے کہ یہ کالعدم جماعت افغان حکومت کی خفیہ مدد و اعانت سے ایک با رپھر سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا آغاز کرسکتی ہے۔ اس لیے پاکستان نے امریکا ،چین اور روس کے ساتھ ہم آواز ہوکر مشترکہ بیان میں اسلامی جمہوریہ کی حکومت اور قومی مفاہمت کی اعلی کونسل سے اپیل کی ہے کہ افغان سرزمین کسی بھی صورت کسی بھی ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیئے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم افغانستان میں بزور طاقت کسی بھی حکومت کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت نہیں کرتے اور انفرادی طالبان کے عہدے کی حیثیت اور اداروں پر اقوام متحدہ 1988 کی پابندیوں پر نظر ثانی کی حمایت کرتے ہیں۔نیز تشدد کے خاتمے کے عملی اقدامات اور طالبان کی جانب سے انٹرا افغان مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے مستقل کوششوں سے جائزے کی بھی حمایت کرتے ہیں۔یاد رہے کہ اس مشترکہ بیان سے قبل چاروں ممالک کے نمائندوں نے 30 اپریل کو دوحہ میں افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں سے بھی ملاقات کی تھی۔
دلچسپ با ت یہ ہے کہ اس اجلاس میں پاکستان ،امریکا ،چین اور روس نے ترکی کی جانب سے افغان فریقین کے سینئر رہنماؤں کی کانفرنس کی میزبانی کرنے کی تیاریوں کو بھی تسلیم کیا ہے اورچاروں ممالک نے مذاکرات کرنے والی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ ایک جامع سیاسی تصفیہ اور جامع اور مستقل جنگ بندی کی طرف سنجیدہ پیشرفت دکھائیں۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے افغان امن اور مفاہمت کے عمل میں اقوام متحدہ کے کردار کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک پائیدار اور انصاف پسند سیاسی قرارداد کی بھرپور حمایت کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک آزاد، خودمختار، متحد، پرامن، جمہوری، غیر جانبدار اور خود کفیل افغانستان کی تشکیل ہوگی۔واضح رہے کہ چاروں ممالک کے اِس اجلاس کے فوراً بعد ایک سینئر امریکی قانون ساز کی جانب سے عندیہ دیا گیا ہے کہ پاک افغان سرحد کے ساتھ ڈیوٹی فری ایکسپورٹ زونز بنانے کے لیے امریکی سینیٹ میں ایک دو جماعتی بل جلد پیش کیا جائے گا۔اس حوالے سے سینیٹ کمیٹی برائے خارجہ تعلقات کے اہم رکن سینیٹر وین ہولین کا کہنا تھا کہ یہ مجوزہ قانون سازی ری کنسٹرکشن اپرچونٹی زونز (آر او زیز) کے نام سے تجارتی حلقوں کو اجازت دے گی تا کہ مخصوص ڈیوٹی فری اشیا امریکا کو برآمد کی جاسکیں۔سینیٹ کمیٹی میں افغانستان سے متعلق امریکی پالیسی کی سماعت میں وین ہولین کا مزید کہنا تھا کہ جوبائیڈن حکومت میں موجود افراد پہلے ہی اس تجویز کے حامی ہیں اور امریکی صدر جوبائیڈن اس حوالے سے بہت جلد وزیراعظم پاکستان عمران خان کو فون کال کر کے امریکا پاکستان بات چیت بحال کریں گے کیوں کہ اَب جوبائیڈن انتظامیہ کو بھی بخوبی سمجھ آگیا ہے کہ افغان تنازع کے پرامن حل کے لیے امریکا کو پاکستان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ سال 2009 میں امریکی ایوانِ نمائندگان نے افغانستان اور پاکستان کے کچھ حصوں میں آر او زیز قائم کرنے کے لیے ایک بل منظور کیا تھا، جو بائیڈن نے بھی اس قانون سازی کی حمایت کی تھی جس پر کبھی عملدرآمد نہیں ہوا۔ دراصل سینیٹر وین ہولین نے کہا ہے کہ ’’یہ وہی پرانا بل ہے جسے ہم امریکی سینٹ میں دو جماعتی بل کے طور پر دوبارہ پیش کریں گے اور مجھے یقین ہے کہ اس بار یہ قانونی بل بھاری اکثریت کے ساتھ نہ صرف منظور کروالیا جائے گا بلکہ اس کے مندرجات پر عمل درآمد بھی ہوگا اور یوں اس بل کی منظور ی کے ساتھ ہی خطے میں تعمیر و ترقی کے ایک نئے دور کا آٖغاز ہوگا‘‘۔
بلاشبہ اس بل پر عمل درآمد ہونے افغانستان بطور خاص پاکستانی معیشت پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن یہ اُس وقت ہی ممکن ہوسکے گا جب افغانستان میں امن ہو،اور افغان سرزمین پر دیرپا اَمن کے لیے ضروری ہے کہ امریکا جلد ازجلد افغانستان سے اپنی افواج کا انخلا یقینی بنائے ۔اس حوالے سے گزشتہ دنوں نیٹو حکام کے ذرائع نے یہ خبر موصول ہوئی ہے کہ چونکہ نیٹو اتحادیوں نے اپریل کے وسط میں فیصلہ کیا تھا کہ یکم مئی تک ریزولوٹ سپورٹ مشن فورسز کی واپسی کا آغاز کردیا جائے گا، اس لیے نیٹو افواج کا باقاعدہ انخلا شروع ہو گیا ہے۔یاد رہے کہ امریکی حمایت یافتہ اتحاد نیٹو کے تمام اراکین نے رواں ماہ واشنگٹن کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کے لیے جو بائیڈن کے اعلان کے بعد افغانستان میں اپنے 9 ہزار 600 فورسز کے انخلا پر اتفاق کیا تھا۔یہ فیصلہ جو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے منظور کردہ ڈیڈ لائن سے کئی مہینوں تاخیر کا شکار ہونے کے بعد سامنے آیا ہے۔اُمید کی جاسکتی ہے کہ اس فیصلہ سے افغانستان میں طالبان کے لیے دوبارہ اقتدار قائم کرنے کی راہ بھی ہموار ہوسکتی ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکا کا انخلا 11 ستمبر کے حملوں کی بیسویں برسی، جس کی وجہ سے افغانستان میں امریکا نے فوجی مداخلت کی تھی، سے قبل مکمل ہوجائے گا۔جبکہ جرمنی کی وزارت دفاع نے بیان جاری کی اہے کہ اس نے جولائی کے اوائل تک اپنے ایک ہزار 300 فوجیوں کو افغانستان سے نکالنے کا منصوبہ بنایا ہے۔نیٹو کا تربیتی اور معاون مشن جس میں تقریبا 2 ہزار 500 امریکی فوجی شامل ہیں اور واشنگٹن کے فوجی اثاثوں پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، کے پاس اتحادی ممالک کے 36 ممبر ممالک اور شراکت دار ممالک کے اہلکار ہیں۔اس کا سادہ مطلب یہ ہوا کہ اگر نیٹو افواج اگلے چند ماہ میں مکمل طور افغانستان سے نکل جاتی ہیں تو پھر امریکی افواج کا مکمل انخلاء ستمبر تک ہوسکتاہے۔ کیونکہ امریکا افغانستان میں نیٹو اتحاد کی مدد کے بغیر نہیں رہ سکتاہے۔
شاید اسی لیے ایسے شواہد نظر آرہے کہ جیسے امریکا عارضی طور پر بین الاقوامی افواج کے انخلا کے دوران ان کے تحفظ کے لیے اضافی فوج تعینات کررہا ہے جبکہ خطے میں بحری بیڑے کی موجودگی کو بھی طویل کر رہا ہے۔جس کا بنیادی وظیفہ چین اور روس پر نظر رکھنا ہوگا۔ مگر پاکستان کو اندیشہ یہ ہے کہ امریکا افغانستان سے نکلنے افغان حکومت کے اندر بھارتی اثرو رسوخ میں اضافہ نہ کردے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو افغان سرزمین ایک بار پھر سے کالعدم تنظیم تحریک طالبان کے لیے ایک ایسی محفوظ پناہ گاہ بن سکتی ہے ۔جہاں سے بھارت ،پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے سنگین نوعیت کی دہشت گردانہ کارروائیاں کر وا سکتاہے۔اس لیے پاکستان کی بھرپور کوشش ہوگی افغان امریکا تنازعہ چاہے کوئی بھی نتیجہ برآمد ہو لیکن افغان سرزمین پر بھارتی اثرو رسوخ کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جائے ۔یاد رہے کہ یہ حکمت عملی صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ چین اور روس کے لیے فائدہ کا باعث ہوگی ۔ شاید اسی لیے پاکستان ،چین اور روس بھرپور انداز میں امریکا کو یہ باور کروانے کی کوشش کررہے ہیں کہ افغان سرزمین پر بھارت کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ فی الحال آثار یہ ہی بتا رہے ہیں کہ ابھی افغانستان میں امن و امان قائم ہونے سے پہلے بہت سے معرکے بپا ہونے ہیں اور اِن معرکوں کے نتائج کے بعد ہی طے ہوگا کہ افغان سرزمین مستقبل میں امن کا گہوار بنے گی یا پھر ایک اور خانہ جنگی کا ایندھن۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔