... loading ...
ملک میںکئی دہائیوں سے روایت بن گئی ہے کہ کامیابی حاصل کرنے والے انتخابی عمل کو صاف شفاف اور آزادانہ وغیرجانبدارانہ قرار دیتے جبکہ ہارنے والے دھاندلی کا الزام لگاتے ہیں کچھ سیاستدان توہونے والی شکست کازمہ داراِداروں کو ٹھہراتے ہیں جس سے انتخابی عمل کی شفافیت پر عام آدمی کا اعتبار کم ہونے کے ساتھ اِداروں کو اِداروں کی غیرجانبداری پر شبہات میں اضافہ ہوا ہے اِس لیے وقت آگیا ہے کہ انتخابی عمل کو متنازع ہونے سے بچایا جائے جس کے لیے اصلاحات ناگزیر ہیں لیکن کیا ہمارے حکمران و اپوزیشن عمائدین اِس حوالے سے اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے آمادہ وتیارہیں وائے افسوس کہ ایسا نہیں بلکہ دونوں طرف ہی بداعتمادی کی فضا ہے اور انتخابی عمل کی شفافیت کو یقینی بنانے کی بجائے دونوں کی نظر پوائنٹ ا سکورنگ پر ہے اور اصلاحات کی بجائے سب کا دھیان دشنام طرازی پر ہے حالانکہ دھاندلی کے سدباب سے نتائج تسلیم کرنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے دور کیوں جائے ابھی حال ہی میں ڈسکہ اور کراچی میں ہونے والے ضمنی انتخابات دیکھ لیں صرف جیتنے والے خوش ہیں جب کہ شکست سے دوچار ہونے والے ہنوز ہار کے اسباب گنوا رہے ہیں ستم ظریفی تو یہ ہے کہ آہ و بکا میں مصروف اور خوشی کے شادیانے بجانے والے مذاکرات کی میز پر آنے کو تیار نہیں سیاسی اشرافیہ کے یہ انداز جمہوری رویوں سے متصادم ہیں حالانکہ برداشت وروادای کی بجائے محاذآرائی کی روش سے اانتخابی عمل کے ساتھ اُن کی اپنی ساکھ کو متاثر کر رہی ہے۔
کراچی کے حلقہ این اے 249میں ملک کی کئی جماعتوں کے امیدواروں نے حصہ لیا اور بھرپور انتخابی مُہم کے ذریعے ووٹروں کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی لیکن ووٹ ڈالنے کی شرح انتہائی مایوس کُن رہی جیتنے والا امیدوار بھی سترہ ہزار سے کم ووٹ لے سکا جب کہ ماضی میں اسی حلقہ سے جیتنے والے ا میدوار ایک لاکھ سے بھی زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوتے رہے ہیں اب لاکھ جواز پیش کیا جائے کہ چھٹی کے باوجود کورونا کے خوف سے لوگ کم گھروں سے باہرنہیں نکلے یا گرمی لوگوں کے ووٹ ڈالنے میں آڑے آئی یاپھر انتظامات میں نقائص تلاش کیے جائیں لیکن سچ یہ ہے کہ عام آدمی نے ووٹ ڈالنے کی بجائے گھروں میں چھٹی کو انجوائے کرنا بہتر خیال کیا علاوہ ازیں جب ہر جماعت کامیابی و ناکامی کا زمہ دار نادیدہ ہاتھوں کو قرار دیتی ہے تو یہ ایک لحاظ سے لوگوں کوووٹ نہ ڈالنے کی ترغیب دینا ہے اسی لیے ووٹر سوچتا ہے کہ جب اُس کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں تو ووٹ ڈالنے کے جھنجٹ میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے چھٹی آرام سے گزاریں جس کو جو امیدوار پسندہوا وہ اِدارہ اپنی مہارت سے نتائج ترتیب دے لے گا لیکن کراچی کے ضمنی الیکشن میں ایک نیا پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ مسلم لیگ ن نے الیکشن کمیشن سے ریکارڈ قبضے میں لینے اور فوج کی طرف سے حفاظت یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے یہ مطالبہ خاصا انوکھا ہے کیونکہ قبل ازیں جماعت کا موقف بلکل ہی متضاد تھا اِس کا مطلب ہے کہ سیاسی چہرے حالات کے ساتھ موقف بدلنے میں عار تصور نہیں کرتے۔
دوسری حیران کُن بات یہ ہے کہ پی پی کے امیدوار کی جیت سے مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے موقف میں ہم آہنگی پیداہوئی ہے شاید دونوں جماعتوں کے امیدواراپنی اپنی جیت کے لیے پُر اعتماد تھے لیکن اب تیسری جماعت کے امیدوار کی کامیابی سے بھونچکا ہیں لیکن جب تک حکومت اور اپوزیشن مل بیٹھ کر نقائص تلاش کرنے اور پھر سدِباب کی کوشش نہیں کریں گی تب تک جیت اور ہار پر شکوک و شبہات کا سلسلہ ختم نہیں ہو سکتا الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم میں بھی خامیاں ہو سکتی ہیں جنھیں دور کرنے کی زمہ دار ی حکومت اور اپوزیشن پر ہی عائد ہوتی ہے حکومت اور اپوزیشن میں ڈیڈ لاک سے جمہوری قدریں مضبوط نہیں ہوسکتیں مسائل حل کرنے میں دونوں کا اہم کردار ہے دونوں میں بہتر ورکنگ ریلیشن کے بغیربہتری خرابیوں پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔
حکومت اور اپوزیشن میں ورکنگ ریلیشن نہ ہونے سے الیکشن کمیشن کے ریٹائر ہونے والے دونوں ممبران کی جگہ نئی نامزدگی کی بھی کوئی صورتحال نہیں بن رہی وزیرِ اعظم عمران خان نے انتخابی اصلاحات پر بات چیت کی دعوت سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر دی حالانکہ بہتر فورم پارلیمنٹ ہے اور پارلیمان سے بالابالا سب کچھ طے کرنے کی حکمتِ عملی سے اعتماد سازی مشکل ہے پارلیمان کی طرف نگاہ دوڑائیں تواچھی صورتحال دکھائی نہیں دیتی جس سے پارلیمان مضبوط ہونے کی بجائے کمزور یا غیر اہم نظر آتی ہے اسمبلی اجلاس میں دعوت دینے نہ صرف ورکنگ ریلیشن قائم ہوتا بلکہ محازآرائی میں بھی کمی آتی لیکن دونوں طرف آگ ہے برابر لگی ہوئے کے مصداق ایک دوسرے پر الزامات کی بھرمار ہے اگر وزیرِ اعظم نے اچھے ماحول میں دعوت دینے سے اجتناب کیا تو مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے بھی ٹویٹر پر ہی دعوت مسترد کر کے حساب برابر کر دیا یہ ماحول یہ اطوار کسی طور جمہوریت کے لیے بہتر نہیں انہتا پسندی کی بجائے میانہ روی سے ہی بات بنے گی۔
حکومت کی اصلاحات میں عجلت ظاہر کرتی ہے کہ وہ آمدہ الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہے اور چاہتی ہے کہ جیت کے لیے کچھ نہ کچھ سامان کر لے حکومت کا خیال ہے کہ آبادی کی بجائے ووٹرزکوحلقہ بندی کی بنیاد بنایا جائے جماعتوں کی رجسٹریشن اور الیکشن کمیشن کوبطوراِدارہ مالی خودمختاری دینا چاہتی ہے پارلیمانی امور کے مشیر بابر اعوان نے آئینی و قانونی ترامیم پر مشتمل تیرہ نکاتی ایجنڈے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 226میں ترمیم ہوگی تاکہ سینیٹ الیکشن میں رقوم کے استعمال اورہارس ٹریڈنگ کا خاتمہ ہوسکے مگر اپوزیشن کے تعاون کے بغیر آئینی ترامیم ممکن نہیں اور جب محض الزامات پرہی کئی ماہ تک اپوزیشن رہنماکو قید رکھاجائے جو ثابت نہ ہونے پر رہا ئی ملے وہاںاپوزیشن کیونکر تعاون کر سکتی ہے اِس لیے مجھے نہیں لگتا کہ حکومتی تجاویز وطے کردہ طریقہ کارکے مطابق انتخابی اصلاحات کا عمل مکمل ہو سکے لیکن اگر اصلاحات نہیں ہوتیں تو انتخابی شفافیت کے متعلق سوال اُٹھتے رہیں گے ۔
ڈسکہ الیکشن ہو یا کراچی کا ضمنی انتخاب ،دونوں حلقوں میں نتائج اکٹھے کرنے کے دوران غیر ضروری تاخیر ہوئی ہے جس کا مطلب ہے کہ طاقتور گروہوں نے نتائج پر اثرا نداز ہونے کی کوشش کی لیکن حکومت کی طرف سے پیش کی گئی کسی تجویز میں ایسے کسی متوقع اقدام کی راہ مسدود کرنے کی کوئی تجویز سامنے نہیں آئی الیکشن کمیشن کو انتخابی عمل کی تکمیل کے لیے مختلف شعبوں کو تعاون لینا پڑتا ہے اور پھر ووٹ ڈالنے کے عمل میں عملہ تعینات کرتے ہوئے عدلیہ، تعلیم سمیت کئی شعبوں کے ملازمین کی مدد لی جاتی ہے جن میں سے اکثر غیر ضروری دبائو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے اصلاحات میں اِس نکتے کو بھی دھیان میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ جیتنے والے الیکشن عمل کے بعد عملے کے کسی فرد کو ہراساں کرنے اور انتقامی کاروائی کا نشانہ نہ بنا سکے حیران کن امر یہ ہے کہ اصلاحات کے دوران اِس حوالے سے کوئی پیش رفت ہوتی نظر نہیں آتی خیر پیش رفت تو تب ہوگی جب بات چیت کے لیے فضا سازگار ہوگی ابھی تو دعوت دینے اور ٹھکرانے پر ہی سارا زور ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔