... loading ...
دوستو، رمضان المبارک کا ماہ مقدس اپنی تمام تر رحمتوں،برکتوں، فضیلتوں کے ہمراہ جاری و ساری ہے۔۔رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ تیزی سے اختتام پزیر ہورہا ہے۔۔ روزوں کی کئی اقسام بھی ہمارے معاشرے میں مقبول عام ہیں، جیسے بچوں کے لیے ـ’’ چڑی‘‘ روزہ ہوتا ہے، اسی طرح کچھ لوگ جمعہ کے جمعہ روزے کو ترجیح دیتے ہیں، جیسے نماز ویسے تو پانچ وقت کی روزانہ فرض ہے لیکن پاکستانیوں کی اکثریت صرف جمعہ کے روز نماز پڑھ کر پورے ہفتے کی نماز بخشوا لیتے ہیں۔۔دفاتر میں کام کرنے والوں کی چونکہ اتوار کے روز چھٹی ہوتی ہے،اس لیے وہ کوشش کرتے ہیں کہ ’’ویکلی آف روزہ‘‘ رکھا جائے۔۔ پھر جب چھٹی والے روز ’’روزہ‘‘ ہوتوپھر اہتمام بھی روز سے ہٹ کر کچھ خاص ہی ہوتا ہے۔۔ طرح طرح کے پکوان بنوائے جاتے ہیں اور بازار سے بھی افطار کے لیے خاص خریداری کی جاتی ہے۔۔جس کے بعد جب اذان مغرب کے بعد روزہ کھولتے ہیں تو پھر اگلے دن پھر آفس جانے کی فکر میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور سحری کو بھول بھال کر جلدی سونے کے چکر میں لگ جاتے ہیں۔۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ، یہ بیچارے آفس جاکر بھی اپنا منہ ایسا بناکررکھتے ہیں جیسے روزے دار ہوں، حالانکہ یہ لوگ ’’روز۔ہے دار‘‘ ہوتے ہیں۔ یعنی کے روز جیسے۔۔
زندگی بھی پل پل تیزی سے بدل رہی ہے۔۔ جیسے ان دنوں رمضان چل رہے ہیں، اگلے ماہ نہیں ہوں گے۔۔اگر زندگی کے مختلف ادوار کا جائزہ لیا جائے تو ہر دور میں حضرت انسان کا فیوریٹ مشروب الگ ہی رہتا ہے۔۔ جیسے رمضان میں افطار میں لوگ لال شربت یا دودھ سوڈے کو ترجیح دیتے ہیں، سحری میں لسی فیوریٹ ہوتی ہے۔۔ اسی طرح پیدائش کے وقت انسان کے لیے دودھ مکمل غذا ہوتا ہے۔۔جب وہ پرائمری لیول کا طالب علم ہوتا ہے تو والدین اسے زیادہ سے زیادہ جوس پلانے کی کوشش کرتے ہیں، ہائی اسکول میں جوس تبدیل ہوکر ملک شیک کا روپ اختیار کرلیتا ہے۔۔کالج میں کولڈڈرنکس ہر نوجوان کی فیوریٹ ہوتی ہے۔۔یونیورسٹی میں پہنچتے ہی یہ لوگ انرجی ڈرنکس کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔۔دوران جاب یا عملی زندگی میں سارے مشروبات کی جگہ چائے لے لیتی ہے۔۔اور ریٹائرمنٹ کے بعد یہ بیچارہ صرف دم کیے ہوئے پانی پہ ہی گزارا کرتا ہے۔۔
ایک صاحب نے مولوی صاحب سے مسئلہ دریافت کیا کہ، کیا روزے کی حالت میں بیوی کو ’’ آئی لویو‘‘ کہہ سکتے ہیں۔۔؟؟ ۔۔ مولوی صاحب نے انتہائی ’’فکرانگیز ‘‘ جواب سے نوازا۔۔کہنے لگے۔۔اس معاملے میں دو باتوں کا خیال رکھنا لازمی ہے۔۔اگر کسی اور کی بیوی ہواور اس کے شوہر کو پتہ چل گیا تو پٹائی کے دوران خون نکلنے سے روزہ ٹوٹ سکتا ہے۔۔اور اگر بیوی آپ کی اپنی ہے تو یاد رکھیئے کہ جھوٹ بولنے سے روزہ مکروہ ہوسکتا ہے۔۔۔رمضان المبارک میں جو لوگ روزہ نہیں رکھتے وہ بیٹھ کرروزہ رکھنے والوں کا دھڑلے سے مذاق اڑاتے ہیں۔۔رمضان المبارک میں سوشل میڈیا پر روزے سے متعلق ایسی ایسی پوسٹیں ڈالی جاتی ہیں کہ توبہ ،توبہ ہوجاتی ہے۔۔ کچھ پوسٹیں آپ بھی پڑھیں اور اندازہ لگائیں کہ ہمارے ایمان کاایک اہم جز ’’روزہ‘‘ ہے جس کا یہ لوگ کس طرح مذاق اڑانے میں مصروف رہتے ہیں۔۔ ہیلو جی ایسے ہی پوچھنا تھا کہ روزوں میں اتوار کی چھٹی ہوتی ہے یا نہیں یا سارے کے سارے رکھنے پڑتے ہیں۔۔۔ ایک اور پوسٹ کچھ یوں ہے کہ ۔۔ کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ سحری ویلے اِک ہور پراٹھا کھا لیندا تے میری اے حالت نہیں ہونی سی۔ ٹائم دسو یارو کی ہویا وے، اسی میسیج کے نیچے ایک تصویر بنی ہوتی ہے، جس پر ایک آدمی بْری حالت سے دو چار اپنے بستر پر لیٹا ہوا ہے۔۔۔ایک اور پوسٹ میں لکھا ہوا ہے۔۔ ابھی صرف چند ہی روزے گزرے ہیں، ماں صدقے جاوے کیسی شکل نکل آئی ہے، اس میسج کے نیچے عجیب سا کارٹون بنایا ہوا ہے جس کا منہ ٹیڑھا دکھایا گیا ہے ۔۔یہ پوسٹ تو نماز عصر کے بعد تیزی سے روز ہی وائرل ہوتی ہے۔۔ روزے دارو حوصلہ رکھو ابھی بہت ٹائم پڑا ہوا ہے ۔۔لوگو،دیکھو سورج ڈوبا کہ نہیں ؟ لگتا ہے کہ اے سانو مار کے ای ڈوبے گا۔۔اور کچھ لوگ تو دعائے افطار کا مذاق کچھ اس طرح اڑاتے نظر آتے ہیں۔۔ اگر روزہ لگے تو یہ دْعا پڑھیں۔۔الکباب الکیچپ و سموستھ الچٹنی اِن چپس الپیزا۔۔یا پانی یا پانی یا پانی تیری مہربانی ۔۔پھر روزوں کے حوالے سے نت نئے لطیفے بھی گھڑے جاتے ہیں۔۔ جیسا کہ۔۔ایک مولوی صاحب نے سحری کے لیے دودھ میں جلیبیاں بھگو کر رکھیں۔ جب سحری کا وقت ہوا تو تو مولوی صاحب نے اپنی بیوی سے کہا کہ جا کر جلیبیوں والا پیالا لائو۔ بیوی نے دیکھا کہ وہ دودھ والا پیالا تو بلی کھا گئی ہے اْس نے مولوی صاحب کو بتایا، مولوی صاحب نے چادر اوڑھتے ہوئے کہا ، فیر روزہ وہ بلی ہی رکھے۔۔۔اسی طرح ایک لطیفہ کچھ پیش کیاجارہا ہے کہ۔۔۔ایک مولانا صاحب بازار سے واپس آرہے تھے۔ان کے ہاتھ میں ایک تھیلی تھی۔راستے میں انہیں ایک صاحب ملے اور بولے: مولانا کیا لے کر جارہے ہیں؟مولانا نے کہا : ایسی چیز جس کو کھانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ان صاحب نے کہا، ایسی چیز کا علم مولانا لوگ اپنے پاس چھپا کر رکھتے ہیں اور ہمیں کہا جاتا ہے کچھ بھی کھاؤ تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔مولانا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور تھیلی کھول کر دکھائی۔۔اس میں زنانہ جوتے رکھے ہوئے تھے۔۔۔
رمضان المبارک میں ہر کوئی پرہیزگاری اور متقی ہونے کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے۔۔ایسے افراد سے آپ کا واسطہ بھی پڑسکتا ہے۔۔ایسے افراد افطار کے دوران آپ کو نہ صرف کپڑوں سے متعلق کچھ نہ کچھ ہدایات کریں گے، بلکہ وہ یہ بھی کہیں گے افطار کس طرح کرنی چاہئیے، کھانے سے پہلے کیا پینا چاہئیے اور پینے سے قبل کیا کھانا چاہئیے۔اگر آپ نے جلدی جلدی دعا مانگی، یا آپ کے ناخنوں پر نیل پالش لگا ہوگا اور اگر آپ نے اپنی گفتگو کی بات گزشتہ رات دیکھی گئی فلم کی بات سے شروع کی تو بھی وہ آپ کو ٹوکیں گے اور ہدایات کریں گے۔اور ممکن ہے کہ وہ آپ کو یوٹیوب پر اپنے پسندید عالم کی ویڈیوکا لنک بھی سینڈ کردیں۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔حالات چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ درزی اور فروٹ والوں کا جنت میں جانے کا کوئی موڈ نہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔