... loading ...
(مہمان کالم)
مشیل گولڈ برگ
گزشتہ جولائی میں جوبائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران یونیورسل ہیلتھ کیئر کے ایڈووکیٹ ایڈی برکان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ کورونا وائرس کی ویکسین تک عالمی رسائی کے خلاف انٹلیکچوئل پراپرٹی قوانین کا استعمال کریں گے۔ برکان کا کہنا تھا ’’کووڈ کے علاج کے لیے عالمی تعاون کو فروغ دینے کی مہم میںعالمی ادارہ صحت غیر معمولی کردار ادا کر رہا ہے مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کوشش میں شامل ہونے سے انکار کر دیا اور اس طرح امریکا کو باقی دنیا سے الگ تھلگ کر دیا گیا۔ اگر امریکا سب سے پہلے کووڈ کی ویکسین بنا لیتا ہے تو کیا آپ باقی ممالک کے ساتھ اپنی یہ ٹیکنالوجی شیئر کریں گے اور کیا آپ اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ کسی قسم کے پیٹنٹس بڑے پیمانے پر لائف سیونگ ویکسین بنانے والے ممالک اور کمپنیوں کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے؟‘‘ جو بائیڈن کا موقف بڑا واضح تھا، انہوں نے ٹرمپ کی ویکسین آئسولیشنزم کے حوالے سے کہا ’’یہ تو انسانی وقار کے منافی بات ہو گی، ہم یہ کیا کر رہے ہیں؟ چنانچہ اس کا جواب ہے ہاں، ہاں، ہاں۔ یہ محض ایک اچھا کام ہی نہیں بلکہ ایسا کرنا ہمارے مفاد میں بھی ہے‘‘۔
اب وہی جو بائیڈن اقتدار میں ہیں۔ اب ان کا ’’ہمارے مفاد‘‘ کا تصور اتنا واضح نہیں ہے۔ گزشتہ سال بھارت اور جنوبی افریقہ نے درخواست کی تھی کہ WTO انہیں کووڈ کی وبا سے نمٹنے سے متعلق ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے انٹلیکچوئل قوانین میں رعایت دے۔ اب تک کئی دیگر ترقی یافتہ ممالک بھی ان کے ساتھ شامل ہو چکے ہیں۔ امریکا سمیت امیر ممالک اس استثنا کی مخالفت کر رہے ہیں مگر بہت سے ممالک سمجھتے ہیں کہ اگر اس ضمن میں امریکا اپنا موقف تبدیل کرتا ہے تو وہ بھی اس کی پیروی کریں گے۔ ڈیموکریٹ سینیٹرز نے جو بائیڈن سے بھارت اور جنوبی افریقہ کو یہ رعایت دینے کی بات کی ہے۔ الی نائے سے سینیٹر جان شیکووسکی نے ایوان کے ارکان کی طر ف سے ایک مشترکہ خط لکھنے کی مہم شروع کر رکھی ہے اور اس پر ایک سو سے زائد ارکان دستخط بھی کر چکے ہیں۔
ڈاکٹرز ود آئوٹ بارڈرز، پارٹنرز ان ہیلتھ، ہومین رائٹس واچ اور آکسفم انٹرنیشنل سمیت صحت اور انسانی حقوق کی کئی تنظیمیں بھی استثنا کی اس مہم میں شامل ہو گئی ہیں۔ ہیلتھ گلوبل ایکسیس پروجیکٹ کی ڈائریکٹر آسیہ رسل کا کہنا ہے ’’میں سمجھتی ہوں کہ وعدہ شکنی کی یہ پہلی مثال ہے‘‘۔ آسیہ رسل نے بائیڈن حکومت کی طرف سے انکار کو ٹرمپ حکومت کی طرف سے مہاجرین کو استثنا نہ دینے کے مترادف قرار دیا۔ ’’اپنے وعدے کے بالکل برعکس کیا گیا۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا، ہم اس وقت کورونا وبا کا سامنا کر رہے ہیں۔ اگر اب نہیں تو ہم یہ کب کریں گے؟‘‘ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ معاملہ مہاجرین کو اجازت دینے سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ بگ فارما کی طرف سے اس دلیل کو مسترد کرنا بہت آسان ہے۔ شیکووسکی کا کہنا تھا ’’ویکسین کی تیاری ممکن بنانے میں ٹیکس دہندگان کی بھاری رقوم ستعمال کی گئی ہیں‘‘۔ مگر دیگر دلائل کو بھی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ بیلر کالج آ ف میڈیسن میں قائم نیشنل سکول ا?ف ٹراپیکل میڈیسن کے ڈین ڈاکٹر پیٹر ہاٹیز جو ویکسین کے بھی ایکسپرٹ ہیں‘ یہ استثنا دینے کے مخالف نہیں مگر ان کا خیال ہے کہ انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹس ویکسین تک رسائی کی راہ میں بڑی رکاوٹ نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا ’’اگر ا?پ کو کل پیٹینٹ کی پابندیاں نرم بھی کرنا پڑیں تو میں نہیں سمجھتا کہ اس سے کووڈ پر کوئی فرق پڑے گا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس راہ میں بڑی رکاوٹ تکنیکی جانکاری ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ان کے پاس کافی تعداد میں تربیت یافتہ ورک فورس ہی دستیاب نہیں ہو گی تو دوسرے ممالک کو محض ویکیسن کا فارمولا دینا کافی نہیں ہوگا۔
پیٹر ہاٹیز ایک بھارتی کمپنی کے ساتھ مل کر ویکسین کی ایک ارب ڈوز تیار کر رہے ہیں اس ویکسین کو عوامی ویکسین یا کووڈ کا کم لاگت علاج کہا جا سکتا ہے اور یہ دوسرے مرحلے کے ٹرائلز کے قریب پہنچ چکی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ امریکی حکومت اس ویکسین کی پانچ ارب خوراکیں تیار کرنے میں بھارتی حکومت کی مد دکرے۔ ’’نئی ٹیکنالوجی سے بننے والی یہ نئی ویکسینز بڑی زبردست اور جدید ہیں جو ایک برینڈ نیو ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار ہوںگی، زیرو سے پانچ ارب تک پہنچنا اتنا ا?سان نہیں ہوگا‘‘؛ تاہم WTO کی طرف سے ویکسین تیار کرنے کے لیے استثنا کافی نہیں ہوگا البتہ اس سمت میں ایک سفر ضرور شروع ہو جائے گا۔ ایک ایکٹیوسٹ گروپ کے نام اپنے خط میں WTO کے ڈائریکٹر جنرل نے یہ اعتراف کیا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ویکسین بنانے کی بے پناہ استعداد موجود ہے۔ انٹلیکچوئل پراپرٹی اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے بعد اس استعداد کو بڑھانے میں بڑی مدد ملے گی۔
دنیا بھر کی صحت عامہ سے متعلق معروف شخصیات یہ رائے رکھتی ہیں کہ اس سمت میںکام کا آغاز کرنے کے لیے یہ استثنا پہلا قدم ہو گا۔ آسیہ رسل کہتی ہیں ’’ترقی پسند پالیسیوں پر عمل کرنے میں ایک دن کی تاخیر بھی کئی قیمتی جانوں کو ضائع کرنے کے مترادف ہے کیونکہ آپ محض ایک سوئچ دباکر ایک رات میں یہ سب کچھ نہیں کر سکتے، اس کام کا آغاز کرنے کے لیے آپ کو چھ مہینے، ایک سال یا اس سے بھی زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ اسے کسی بھی پہلو سے دیکھ لیں‘ یہ استثنا ہمیشہ کے لیے نہیں ہے‘ مگر ہم اس حوالے سے جتنی باتیں کریں گے اس میں اتنا ہی مزید وقت ضائع ہو گا۔ اس پرواقعی بہت زیادہ وقت لگے گا‘‘۔
اب بڑے پیمانے پر تیار ہونے والی ویکسین سے امریکا کو ایک سال کے خوف اور تنہائی سے آزادی ملی ہے حالانکہ کورونا کی ایک نئی لہر نے برازیل اور بھارت میں آج بھی تباہی مچا رکھی ہے۔ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کہتے ہیں کہ عالمی تجارتی قوانین میں عارضی تبدیلی سے انہیں اپنا دفاع اور حفاظت کرنے میں مدد ملے گی۔ کیا جو بائیڈن کی حکومت واقعی ان کے خلاف کھڑی ہونا چاہتی ہے؟ آپ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ امریکا کو چاہئے کہ وہ پوری دنیا کو ویکسین لگانے میں مدد کرے تاکہ ہم کووڈ کی نئی اقسام کا بھی قلع قمع کر سکیں۔ اس وقت ہمیں عالمی لیڈر شپ کا بھی جائزہ لینا ہے جب دوسری طرف روس اور چین بڑی مستعد ویکسین ڈپلومیسی میں مصروف ہیں۔ ان ممالک کی بہترین مدد اس طرح ہو گی کہ جو بائیڈن اور ایڈی برکان اپنے وعدوں کے مطابق انہیں کووڈ سے نمٹنے میں مدد فراہم کریں۔ انہوں نے کہا ’’یہی انسانی کام ہے جو دنیا کو کرنا چاہئے۔ لہٰذا انہیں یہ ضرور کرنا چاہئے‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔