... loading ...
(مہمان کالم)
ایرک ٹوپول
کوروناوائر س کی ابھرتی ہوئی نئی اقسام کی خبریں جینیات سے آگہی رکھنے والے لوگوں کے لیے تشویشناک ثابت ہو سکتی ہیں۔وائرس سے متاثرہ افراد میں بھی اور جب یہ ایک فرد سے کسی دوسرے کو منتقل ہوتا ہے‘ اکثر ایسی تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں‘اسی لیے اس قول کو (تھوڑی ترمیم کے ساتھ) یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ ’’کوروناکی تما م اقسام بے ضررہیں جب تک کہ وہ تباہ کن ثابت نہ ہوں‘‘۔SARS-CoV-2میں تقریباًتیس ہزار Basesیا نیوکلیوٹائڈزہوتے ہیں۔جب یہ وائرس پروان چڑھتا ہے اور ایک فرد سے دوسرے فرد تک پھیلتا ہے تو اس میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں۔ اگر اس کے صرف20بیسزہی تبدیل ہو جائیںتو اس سے پھیلنے والے وائرس سے ایک ٹریلین مختلف نئی اقسام پیدا ہو جاتی ہیں۔ اس وقت تک دنیامیں 136ملین مصدقہ کوروناکیسز ہیں‘ان میں سے ایک ملین افراد کے وائرس میںSequence پیدا ہو چکا ہے ‘تاہم سائنسدانوں میں ان میں سے مٹھی بھر افراد میں پائے جانے والے نئے وائرس کے بارے میں ہی تشویش پائی جاتی ہے کیونکہ ان میں زیادہ انفیکشن پائی جاتی ہے اور یہی زیادہ مہلک بیماری کا باعث بنتی ہے یا جزوی طو رپر ہمارے امیون سسٹم کو اپنے خلا ف کام نہیں کرنے دیتی۔ جن ہزاروں افراد میں یہ سیکوئنس پایا جاتا ہے انہیںہی وائرس کے رویے میں ٹھوس تبدیلیوں کا ذمہ دا رٹھہرایا جاتا ہے۔یہ تبدیلیاں سائنسدانوں کو یہ جاننے میں مدد کر سکتی ہیں کہ وائرس کہاں اور کیسے پھیل رہاہے‘ مگر اس کی کوئی میڈیکل اہمیت نہیں ہوتی۔
اب تک وائر س کی صرف پانچ نئی اقسام کو زیادہ مہلک پایا گیا ہے جن کے تشویش ناک ہونے کے بارے میں سنٹر فارڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن نے اشارہ دیا ہے۔وہ یہ ہے کہ B.1.1.7 (جوسب سے پہلے برطانیامیں سامنے آیا) B.1.351 (یہ سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں سامنے آیا ) P.1(ا س کی شناخت سب سے پہلے برازیل میں ہوئی) اور ا س کی دو تازہ ترین اقسام کیلی فورنیا اور نیو یارک میں پائی گئی ہیں۔ان میں سے ہر ایک میں دو درجن سے زائد تبدیلیوں کی شناخت ہوئی ہے اور یہ تبدیلیاں زیادہ تر وائر س کی نوکیلی پروٹین میں نظر آتی ہیں جو ہمارے خلیوں سے چپک جاتی ہے اور ہماری ویکسین کا اصل ہدف ہوتی ہے۔کچھ تبدیل شدہ پروٹینز ایسی ہوتی ہیں جو وائر س کے ہمارے خلیوں سے چپکنے کی صلاحیت کو بڑھا دیتی ہیں اور وہ ہماری سانس کی نالی کے اوپر والے حصے میں رکاوٹ پیدا کردیتی ہیںجبکہ دوسری قسم کی پروٹینز ہمارے جسم کے دیگر حصوں کی مزاحمتی صلاحیت کو کمزور کردیتی ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ نئی رونما ہونے والی اقسام وائرس کی انفیکشن پھیلانے کی صلاحیت میں بھی کوئی تبدیلی لا سکیں۔مثال کے طو رپر انگولا میں جو وائر س کی نئی قسم سامنے آئی ہے آج تک کی تاریخ میں اس وائرس میںسب سے زیادہ تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے‘ مگر ابھی تک ایسا ثبو ت نہیں ملا کہ یہ قسم زیادہ بیماری پھیلانے کا باعث بنتی ہے۔ تاہم اس سے ان سوالوں کے جواب جاننے میں کافی مدد ملی ہے کہ کیاان نئی اقسام کی وجہ سے کووڈ کیسز میں اضافہ ہوا ہے ؟ کیازیادہ مریض ہسپتالوں میں داخل ہوئے ہیں ؟زیادہ اموات واقع ہوئی ہیں؟ اورکیا انفیکشن بھی زیادہ پھیلی ہے؟امریکا میں اس وقت جو بھی ویکسین استعما ل کی جا رہی ہیں وہ کوروناکی نئی اقسام منظر عام پر آنے سے پہلے تیار ہو چکی تھیںمگر ابھی تک وہ وائرس کی ہر قسم کے خلا ف موثر ثابت ہورہی ہیں۔ماڈرنا اور فائزر نے mRNAٹیکنالوجی استعمال کی ہے‘ لیب میں بھی ثابت ہو چکاہے کہ یہ ویکسینز ہر طرح کی اقسام کے خلا ف موثر ہیں۔جب یہ نئی اقسام ویکسین کو کم موثربھی بنا دیتی ہیں mRNAٹیکنالوجی سے تیار کر دہ ویکسین اس وقت بھی اتنی ہی اچھی او رموثرثابت ہورہی ہے کیونکہ اس کی افادیت میں ابھی تک کسی طرح کی کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔
جانسین ‘آسٹرازینیکا اور نوواویکس سے جو تھوڑے بہت ثبوت ملے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے وائر س کی نئی اقسام کو بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنا نشانہ بنایا ہے۔اس وقت تک جنوبی افریقہ میں پایا جانے والا نیا وائرس B.1.351ہی کسی حد تک ویکسین سے بچ نکلنے میں کامیاب رہا ہے‘ مگر سٹڈیز سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ویکسین پھر بھی بیماری کو روکنے میں بہت کامیاب رہی ہیں۔ امریکا میں سب سے زیادہB.1.1.7وائر س پایا گیا ہے۔اس وائرس کے پھیلائو کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے انسانوں میں کم پھیلنے والے وائرسز کو پھلنے پھولنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ برطانیاکو دیکھ لیں‘ وہاں ان نئی اقسام کی وجہ سے انفیکشن میں 100فیصداضافہ دیکھنے میں آیا مگر ویکسین نے نئے کیسز کی تعداد‘ ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد اور شرح اموات میں خاطر خواہ کمی لانے میں مدد کی ہے۔امریکا کی ریاست مشی گن میں ڈرامائی طو رپر کووڈ کی ایک چوتھی قسم شناخت میں آئی ہے جہاں نئے کوروناکیسز کی تعدا د میں ساٹھ فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے اور ہسپتالوںمیں داخل ہونے والے مریضوں کی تعداد بھی دوگنا ہو چکی ہے۔جب پہلی مرتبہ کووڈ پھیلاتھا اس وقت یہ ویکسین دستیاب نہیں تھی مگر اب تو کئی اقسام کی ویکسین مارکیٹ سے دستیاب ہے ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ کووڈ کے نئے کیسز سامنے آنے سے پہلے ہی ان کی روک تھا م کر سکیں۔بدقسمتی سے امریکا اپنے عوام کو آبادی کے تناسب سے ویکسین تقسیم کرنے کی پالیسی پر سختی سے عمل پیرا ہے ؛چنانچہ ان علاقوں مثلاًمشی گن‘ جہاں کوروناوائرس کی نئی اقسام تیز ی سے پھیل رہی ہیں ‘کو ترجیحی بنیاد وں پر کوروناویکسین نہیں مل رہی۔یہ پالیسی برطانیہ‘ اسرائیل اور دیگر ممالک کی اپروچ سے بالکل برعکس ہے ‘جہاں ویکسین کی مدد سے بڑی کامیابی سے کووڈ پر قابو پالیا گیا ہے۔بڑی اور نئی اقسام ہمارے لیے سنگین چیلنج ثابت ہو رہی ہیں مگر ہماری ویکسینز کی افادیت ان تمام مشکلات پر قابو پانے میں ہماری مدد گار ثابت ہوگی۔تاہم یہ بات اہم ہے کہ چونکہ ہم وائرس کو روکنے میں کامیاب رہے ہیںاس لیے یہ مزید بڑھنے سے قاصر ہے اور تھیوری کی حد تک ہماری ویکسین کو دھوکا دینے میں ناکام نظر ا?تا ہے۔ویکسین ایک بڑ اہتھیار ہے مگر ماسک پہننا اور احتیاطی فاصلہ رکھنا بھی کوروناکی ان نئی اقسام کے خلا ف ایک کارگر ہتھیا ر ثابت ہوا ہے۔ویکسین کے ساتھ ساتھ یہ احتیاطی تدابیر بھی ہمیں کوروناکی نئی اقسام سے بچانے میں موثر ثابت ہوسکتی ہیں۔وائرس ویرینٹس کی سائنس اور ویکسین کی افادیت نے ہمیں اتنا پر اعتما د بنا دیا ہے کہ ہم تیزی سے ایگزٹ پوائنٹ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔