... loading ...
(مہمان کالم)
ایلی سن گلبرٹ
بھلا ہو اتنے بڑے پیمانے پر موثر ویکسین کا کہ اب کووڈ کا خاتمہ محض ہفتوں یا مہینوں کی با ت لگتی ہے مگر آج بھی شرح اموات اپنے پیچھے کروڑوں سوگوار چھوڑ جائے گی جو اپنے پیاروں سے بچھڑنے کی اذیت برداشت کر رہے ہیں۔ یہ صحت عامہ کا ایسا مسئلہ ہے جس کے نتائج ہماری آنے والی کئی نسلیں بھگتیں گی۔ ہمارے پاس اس آفت سے نمٹنے کے لیے نہ پالیسی ٹولز ہیں اور نہ وسائل۔ ہمیں سب سے پہلے تو اپنے قومی المیے کا صحیح ادراک کرنا ہو گا۔ ریسرچرز اب سوگواروں کے اعداد و شمار جمع کرنا شروع ہوئے ہیں۔ موجودہ اعداد و شمار کے مطابق پچاس لاکھ امریکی شہریوں نے اس وبا میں اپنا ایک نہ ایک عزیز کھویا ہے جبکہ اس تعداد میں ہوشربا اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ پینسلوینیا یونیورسٹی میں سوشیالوجی کے پروفیسر ایشٹن ورڈری نے ایک سٹڈی کی ہے جس میں انہوں نے ’’کووڈ 19 بریومنٹ ملٹی پلایئر‘‘ متعارف کرایا ہے۔ ان کی ٹیم کی ریسرچ کے مطابق‘ جب ایک شخص کوو ڈکی وجہ سے مرتا ہے تو وہ اپنے پیچھے 9 سوگواران چھوڑ جاتا ہے۔ سوگواران کی اس تعداد میں میاں یا بیوی، بہن بھائی، والدین، بچے اور پوتے‘ پوتیاں شامل ہیں۔ اگر بھانجے‘ بھتیجے‘ چچا‘ ماموں‘ خالائیں بھی شامل کر لی جائیں تو یہ تعداد کہیں زیادہ ہو جائے گی۔ شاید سوگواروںکی تعداد دس گنا ہو جائے گی۔ میں بچپن میں ہی اپنے والدین سے محروم ہو گیا تھا‘ اس لیے میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ کس طرح یہ دکھ لہروں کی شکل میں ہماری زندگی میں آتا رہتا ہے اور کبھی ختم نہیں ہوتا۔
اگرچہ کووڈ کی ویکسین شرح اموات کا بوجھ کم کر دے گی مگر ہمیں صحت کے حوالے سے ایک اور بڑی تباہی کے لیے تیار رہنا چاہئے اور اس کی اذیت میں کبھی کمی نہیں آئے گی۔ ایک تازہ ا سٹڈی کے مطابق امریکا میں 37ہزار ایسے بچے ہیں جنہوں نے کووڈ کی وجہ سے اپنے والدین میں سے ایک کو کھو دیا ہے۔ دکھ کی اس گھڑی میں کام کرنے والی تنظیمیں اور ماہرین امریکی لیڈروں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اس بڑھتے ہوئے بحران سے نمٹنے کیلیے کوئی لائحہ عمل تیار کریں۔ میں ایک نان پرافٹ تنظیم ’’ایور مور‘‘ کے ساتھ ماضی میں کام اور تعاون کرتا رہا ہوں، وہ صدر بائیڈن سے کہہ رہی ہے کہ وہ وائٹ ہائوس کے اندر ایک ایسا دفتر قائم کریں جو ان سوگواران کا خیال رکھے، اس صدمے سے گزرنے والے افرا د کی مالی اور جذباتی ضروریات کو پورا کرنے کے انتظامات کرے۔ اس قومی سوگ سے نمٹنے والی کئی تنظیموں کے اتحاد اور گریف ریسرچرز نے صدر بائیڈن کو لکھا ہے کہ وہ خود ا?گے بڑھ کر کووڈ کے سوگواران کی مالی مدد کے لیے وسائل کا بندوبست کریں جس میں عوام اور پروفیشنلز جیسے سوشل ورکرز‘ سائیکالوجسٹس، ٹیچرز اور پادری وغیرہ کو تربیت فراہم کی جائے کہ کووڈ میں اپنے پیاروں کو کھونے والے سوگواروں کی کس طرح مدد کرنی ہے۔ گراس روٹس گروپس مثلاً کووڈ سروائیورز فار چینج نے وفاقی اور ریاستی سطح پر ایسی لابنگ کی ہے کہ کووڈ کے مہلک وائرس کی وجہ سے مرنے والے شہریوں کے سوگوار لواحقین کے اعداد و شمار اکٹھے کیے جائیں جن میں ایسے عوامی اور آن لائن مقامات کا تعین بھی شامل ہے‘ جہاں اکٹھے ہوکر سوگواران اپنا غم ہلکا کر سکیں۔ اپنے پیاروںکو یاد کر سکیں۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ جن خاندانوں نے کورونا وائرس کی وجہ سے اپنے قریبی عزیز و اقارب کھوئے ہیں ان کی مالی معاونت کی صورت میں ہر ممکن تلافی کی جائے۔
اس غم کے اثرات کسی سوگوار کے جسم پر بیماری کی علامات کی شکل میں بھی نمودار ہو سکتے ہیں۔ اہل خانہ پر اپنے پیاروں کی المناک موت کے قلیل مدتی اور دیر پا دونوں نوعیت کے اثرا ت مرتب ہو سکتے ہیں اور ان کا عمیق جائزہ لیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر نیند میں خلل واقع ہونا، ہائی بلڈ پریشر، ڈپریشن اور انزائٹی وغیرہ۔ اس ا سٹڈی سے پتا چلا ہے کہ جن لوگوں نے اپنا شریک حیات کھویا ہے وہ اپنے شادی شدہ بزرگوں سے بھی پہلے انتقال کر گئے۔ وہ بچے‘ جن کے والدین اس کووڈ میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے‘ وہ اپنی زندگی میں کئی طرح کے سنگین نتائج کا سامنا کر سکتے ہیں۔ اپنے پیاروں کو کھونے کے خوفناک سماجی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ جووینائل جسٹس سسٹم میں رپورٹ ہونے والے نوے فیصد نوجوانوں کو کم از کم اپنے کسی ایک پیارے کی موت کے صدمے سے گزرنا پڑا۔ دکھ یا غم ایک آفاقی تجربہ ہے اور اس کے عمر بھر کے لیے نسلی عدم مساوات جیسے اثرات پڑ سکتے ہیں جیسے سیاہ فام امریکیوں کو سفید فام امریکیوں کے مقابلے میں اپنے پیاروں کی موت کے زیادہ صدمات جھیلنا پڑتے ہیں اور اس بات کے ان دونوں کی ذہنی اور جسمانی صحت پر مختلف اثرات نظر آتے ہیں۔ وبائی امراض کی ماہر اور جارجیا یونیورسٹی کے کالج آف پبلک ہیلتھ کی پروفیسر ٹونی مائلز کہتی ہیں کہ ہمیں دکھ یا صدمے کا جائزہ بھی اسی طرح لینا چاہئے جس طرح ہم موٹاپے، سیگرٹ نوشی اور منشیات کے جسمانی اور ذہنی اثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔ ا
آج سے تین سال پہلے ریاستوں کی ترتیب سے ہیلتھ سروے کرنے کے بعد پروفیسر ٹونی مائلز نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جارجیا کے اٹھارہ سال سے زائد عمر کے مکینوں میں سے 45 فیصد میں یہ اشاریے ملے کہ وہ نئے نئے دکھ اور صدمے سے گزرے تھے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان انکشافات سے معلوم ہوا کہ دیگر تین رسک فیکٹرز کے مقابلے میں غم ان کی زندگی میں پہلے سے موجود تھا۔ اگرہم غم کو انسانی صحت کے لیے خطرہ ہونے کے تناظرمیں دیکھیں تو یہ ہماری تما م تر دفاعی کوششوں میں رکاوٹ کھڑی کر سکتا ہے جس میں مالی مدد بھی شامل ہے جو افراد کو اپنے اندر انقلابی قسم کی تبدیلیاں لانے میں مدد فراہم کر سکتی ہے مثلاً فیملی انکم میں تبدیلی یا رہائش میں تبدیلی وغیرہ۔ ڈاکٹر مائلز نے مجھے بتایا کہ جو لوگ پیچھے بچ گئے ہیں ہمیں ان کے تحفظ کے لیے منظم قسم کی تبدیلیاں لانا پڑیں گی۔ سب سے پہلے تو یہ ضرور ی ہے کہ ان سوگواروں کی مدد کے لیے وائٹ ہائوس کے اندر ایک بحالی سنٹر قائم کیا جائے جس سے وہ اہل خانہ فائدہ اٹھا سکیں جن کے قریبی عزیز و اقارب کووڈ کے دوران اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں یا انہیں کسی اور وجہ سے کسی صدمے کا سامناکرنا پڑا ہو مثلاً گن کے تشدد وغیرہ سے گزرنا پڑا ہو۔ اس حوالے سے خوش آئند بات یہ ہے کہ صدر جو بائیڈن اکثر اپنے تجربے کی بنیاد پر غم کے اثرات کا ذکر کرتے رہتے ہیں مثلاً گھر کے کیچن ٹیبل کے قریب ایک خالی کرسی دیکھ کردل پرکیا گزرتی ہے۔ صدر بائیڈن کے پا س موقع ہے کہ وہ کووڈ کی وجہ سے شرح اموات اور اس کے نتیجے میں ہم پر نازل ہونے والے مصائب اور صدمات میں کمی کر سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔