وجود

... loading ...

وجود

سکوت کی نیلی دیوار میں دراڑیں

جمعرات 22 اپریل 2021 سکوت کی نیلی دیوار میں دراڑیں

ٹموتھی ایگن

اگلے دن جب میں گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا تو اچانک مجھے یاد آیا کہ میرا ڈرائیونگ لائسنس ایکسپائر ہو چکا ہے۔ میں گھبرایا بالکل نہیں کیونکہ مجھے ایسا کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ میں نے خود کو تسلی دی کہ اگر کانسٹیبل نے مجھے گاڑی سے کھینچ بھی نکالا تو بھی میری جان کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا کیونکہ میں ایک سفید فام امریکی ہوں۔ ڈانٹے رائٹ کا بھی لائسنس ہی ایکسپائر ہوا تھا جس کی وجہ سے پولیس نے اس کو گاڑی سے کھینچ کر باہر نکالا تھا۔ وہ ایک سیاہ فام امریکی نوجوان تھا جسے اسی مہینے میناپولس کے نواح میں ایک افسر کم پاٹر نے قتل کر دیا تھا۔ (مقامی پولیس نے اسے ایک مہلک حادثہ قرار دیا ہے؛ اگرچہ اس کی فیملی نے اسے ناقابل یقین اور ناممکن بات کہہ کر مسترد کر دیا ہے) یہ بھی ایک عارضی لائسنس تھا جو اتنے سنگین واقعات کے تسلسل کا سبب بن گیا تھا جس کا انجام یوں ہوا کہ رورل ورجینیا میں پولیس نے کیرن نزیریو کے چہرے پر مرچوں کا ا سپرے کر دیا۔ نزیریو امریکی فوج کے میڈیکل کور میں سیکنڈ لیفٹیننٹ تھا جو ایک سیاہ فام لاطینی نسل سے تعلق رکھتا تھا۔ لیفٹیننٹ نزیریو نے پولیس آفیسر کو بتایا تھا کہ میں اس ملک کا ایک حاضر سروس آفیسر ہوں اور آپ میرے ساتھ یہ کیا سلوک کر رہے ہیں۔ اس نفرت انگیز حملے کی وجہ صرف نسل پرستی تھی۔

’’بلیو وال آف سائلنس‘‘ وہ کوڈ ہے جو ایک یونیفارم افسر کو کسی دوسرے یونیفارم آفیسر کی طرف سے مجرمانہ سرگرمیوں کے الزامات سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ لیفٹینٹ نزیریو نے اپنا جو مقدمہ درج کرایا تھا اس کے مطابق‘ دونوں افسروں نے تقریباً ایک جیسے ملتے جلتے غلط بیانات ریکارڈ کرائے تھے کہ اس دن اصل میں کیا ہوا تھا۔ سپاہی ریاست کی حفاظت کرتے ہیں‘ وہ ریاست کے نمائندے بھی ہوتے ہیں۔ پہلی بات کی وجہ سے ہم ان کا احترام کرتے ہیں اور دوسری وجہ سے ہم ان سے ڈرتے ہیں۔ اگرچہ ہم سیاہ فاموں کے خلاف خوفناک ریاستی تشدد کی اس دوسری لہر کی مذمت کرتے ہیں مگر پھر بھی ہمیں پولیس اصلاحات کے ضمن میں امید کی ایک کرن آج بھی نظر آ رہی ہے۔ مگر اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس بلیو وال یا نیلی دیوار میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئی ہیں۔ مگر ڈیرک شائوون کے کیس میں تو یہ پوری دیوار ہی مسمار ہو گئی ہے۔ یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے کہ میناپولس کے پولیس چیف میڈیریا ایراڈونا سمیت تمام پولیس افسروں نے جارج فلائیڈ کی موت کے مقدمے میں مسٹر شائوون کے خلاف بیانات ریکارڈ کرائے ہیں۔ گزشتہ سال ایک ہی محکمے کے چودہ افسروں نے ایک کھلے خط پر دستخط کیے جس میں یہ کہا گیا تھا کہ مسٹر شائوون بطور انسان ناکام رہا اور جارج فلائیڈ کو اس کی زندگی اور وقار سے محروم کر دیا۔ ممکن ہے کہ اس طرح کے حوصلے کے اقدامات اکا دکا رونما ہوتے ہوں مگر دیوار میں جو دراڑیں پڑی ہیں‘ وہ عام ہیں اور پورے ادارے تک پھیل چکی ہیں۔

برے پولیس اہلکاروں کا دفاع کرنے والے بھی اسی سسٹم کا حصہ ہیں۔ بہت سے پولیس افسر یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے جس بہن یا بھائی نے پولیس یونیفارم پہن رکھا ہو‘ وہی یہ جان سکتا ہے کہ ہمیں کس قدر خطرات کا سامنا رہتا ہے۔ ایک حد تک یہ بات درست بھی ہے مگر وہ لوگ‘ جو انتہائی خطرناک فرائض انجام دیتے ہیں‘ وہ کبھی اس قسم کا رویہ نہیں اپناتے؛ تاہم بہت سے ایسے پولیس افسر بھی ہیں جو قانون کی نمائندگی کرتے ہیں مگرخود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ چند سال پہلے میں نے ایک کتاب لکھی تھی جس کا عنوان تھا ’’بریکنگ بلیو‘‘۔یہ کتاب 1935ء میں ہونے والے ایک قتل کے بارے میں ہے۔ ایک پولیس کانسٹیبل جنگلے کو کراس کرکے بھاگ رہا تھا اور اسی پر اس قتل کا شک تھا۔ پولیس افسروں کی تین نسلوں نے اس پولیس کانسٹیبل کو بچانے کی کوشش کی۔ جب واشنگٹن سٹیٹ کے ایک شیرف انتھونی بامونٹے نے 1989ء میں اس قتل کا معمہ حل کر لیا تو اسے بھی پولیس کے اندر سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک سابق پولیس افسر نے اسے دھمکی ا?میز خط میں لکھا ’’اپنے بھائی کے خلاف کبھی منہ نہیں کھولتے‘‘۔ نصف صدی پرانے مقدمے میں بھی یونیفارم کا رشتہ قانون کے رشتے سے زیادہ مضبوط نکلا۔

دوسری بات بھی ہمیں تسلیم کر لینی چاہئے کہ اپنے پیٹی بھائیوں کے خلاف خاموشی اختیار کرنے کی طرح پولیس کے اندر نسل پرستی بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ اس کا حل پولیس کے فنڈز ختم کر نے سے نہیں ملے گا۔ یہ ایک احمقانہ بات ہو گی۔ سیاٹل‘ جہاں میں رہتا ہوں‘ وہاں پچھلے موسم گرما میں تشدد اور ہنگامہ آرائی کی ایک لہر نے تیزی سے اس علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا جسے پولیس فری قرار دیا جا چکا تھا۔ جو لوگ اس واقعے میں شدید تشدد کا نشانہ بنے تھے‘ ان کی اکثریت سیاہ فام امریکیوں پر مشتمل تھی۔ اس وقت کے سٹی پولیس چیف کیرمن بیسٹ نے میڈیا کو بتایا تھا کہ اس ہنگامہ آرائی میں دو سیاہ فام امریکی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ سب کچھ اس علاقے میں رونما ہوا جس کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ وہ ’’بلیک لائیوز میٹر‘‘ تحریک کے لیے کام کر رہے تھے۔ اگر ہم پولیس کے فنڈز ختم کرنے کی بات کرتے ہیں تو یہ بھی ایک بدترین سیاسی نعرے کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ پچھلے مہینے ہونے والے پولز میں صرف اٹھارہ فیصد امریکی شہریوں نے پولیس فنڈز ختم کرنے کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔ ان تمام سیاسی نعروںکا جو بھی حتمی نتیجہ نکلے گا وہ صرف یہ ہو گا کہ اس سے پولیس میں اصلاحات کے تقاضے اور مطالبے کو نقصان پہنچے گا۔ پچھلے سال ہونے والے کانگرس الیکشن کے دوران ڈیمو کریٹس بھی پولیس فنڈز کے خاتمے کے مطالبے کی حمایت کرتے پائے گئے تھے۔ پولیس کی تشکیل نو ہی ایک بہتر تجویز ہے جس پر 2016ء سے نیو آرلیانز میں عمل بھی شروع ہو چکا ہے۔ وہاں ایک ایسا پروگرام متعارف کرایا گیا ہے جس کے تحت پولیس افسروں کو یہ بات سکھائی جا رہی ہے کہ اگر وہ اپنے کسی ساتھی پولیس افسر کو کوئی غلط کام کرتے ہوئے دیکھیں تو فوری طور مداخلت کر کے اسے ایسا کرنے سے روکیں۔ اب میری لینڈ میں بھی اس پر عمل شروع کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ قانون ساز ادارے کے ارکان نے ایک ویٹو کو مسترد کرتے ہوئے بھاری اکثریت سے پولیس ریفارمز کے لیے ہونے والی قانون سازی کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر پولیس مین کے جسم پر ایک کیمرہ لگا ہوا ہو‘ ہمیں پولیس یونینز کے اختیارات کو ختم کرنا ہو گا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پولیس میں خدمات سر انجام دیتے والے تما م پولیس افسر وہی الفاظ کہیں جو میناپولس کے 14 پولیس افسر کہتے ہیں ’’یہ بات اہم نہیں ہے کہ ہم کون ہیں۔ اب ہمیں اسے ثابت بھی کرنا ہے‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر