... loading ...
ٹموتھی ایگن
اگلے دن جب میں گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا تو اچانک مجھے یاد آیا کہ میرا ڈرائیونگ لائسنس ایکسپائر ہو چکا ہے۔ میں گھبرایا بالکل نہیں کیونکہ مجھے ایسا کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ میں نے خود کو تسلی دی کہ اگر کانسٹیبل نے مجھے گاڑی سے کھینچ بھی نکالا تو بھی میری جان کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا کیونکہ میں ایک سفید فام امریکی ہوں۔ ڈانٹے رائٹ کا بھی لائسنس ہی ایکسپائر ہوا تھا جس کی وجہ سے پولیس نے اس کو گاڑی سے کھینچ کر باہر نکالا تھا۔ وہ ایک سیاہ فام امریکی نوجوان تھا جسے اسی مہینے میناپولس کے نواح میں ایک افسر کم پاٹر نے قتل کر دیا تھا۔ (مقامی پولیس نے اسے ایک مہلک حادثہ قرار دیا ہے؛ اگرچہ اس کی فیملی نے اسے ناقابل یقین اور ناممکن بات کہہ کر مسترد کر دیا ہے) یہ بھی ایک عارضی لائسنس تھا جو اتنے سنگین واقعات کے تسلسل کا سبب بن گیا تھا جس کا انجام یوں ہوا کہ رورل ورجینیا میں پولیس نے کیرن نزیریو کے چہرے پر مرچوں کا ا سپرے کر دیا۔ نزیریو امریکی فوج کے میڈیکل کور میں سیکنڈ لیفٹیننٹ تھا جو ایک سیاہ فام لاطینی نسل سے تعلق رکھتا تھا۔ لیفٹیننٹ نزیریو نے پولیس آفیسر کو بتایا تھا کہ میں اس ملک کا ایک حاضر سروس آفیسر ہوں اور آپ میرے ساتھ یہ کیا سلوک کر رہے ہیں۔ اس نفرت انگیز حملے کی وجہ صرف نسل پرستی تھی۔
’’بلیو وال آف سائلنس‘‘ وہ کوڈ ہے جو ایک یونیفارم افسر کو کسی دوسرے یونیفارم آفیسر کی طرف سے مجرمانہ سرگرمیوں کے الزامات سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ لیفٹینٹ نزیریو نے اپنا جو مقدمہ درج کرایا تھا اس کے مطابق‘ دونوں افسروں نے تقریباً ایک جیسے ملتے جلتے غلط بیانات ریکارڈ کرائے تھے کہ اس دن اصل میں کیا ہوا تھا۔ سپاہی ریاست کی حفاظت کرتے ہیں‘ وہ ریاست کے نمائندے بھی ہوتے ہیں۔ پہلی بات کی وجہ سے ہم ان کا احترام کرتے ہیں اور دوسری وجہ سے ہم ان سے ڈرتے ہیں۔ اگرچہ ہم سیاہ فاموں کے خلاف خوفناک ریاستی تشدد کی اس دوسری لہر کی مذمت کرتے ہیں مگر پھر بھی ہمیں پولیس اصلاحات کے ضمن میں امید کی ایک کرن آج بھی نظر آ رہی ہے۔ مگر اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس بلیو وال یا نیلی دیوار میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئی ہیں۔ مگر ڈیرک شائوون کے کیس میں تو یہ پوری دیوار ہی مسمار ہو گئی ہے۔ یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے کہ میناپولس کے پولیس چیف میڈیریا ایراڈونا سمیت تمام پولیس افسروں نے جارج فلائیڈ کی موت کے مقدمے میں مسٹر شائوون کے خلاف بیانات ریکارڈ کرائے ہیں۔ گزشتہ سال ایک ہی محکمے کے چودہ افسروں نے ایک کھلے خط پر دستخط کیے جس میں یہ کہا گیا تھا کہ مسٹر شائوون بطور انسان ناکام رہا اور جارج فلائیڈ کو اس کی زندگی اور وقار سے محروم کر دیا۔ ممکن ہے کہ اس طرح کے حوصلے کے اقدامات اکا دکا رونما ہوتے ہوں مگر دیوار میں جو دراڑیں پڑی ہیں‘ وہ عام ہیں اور پورے ادارے تک پھیل چکی ہیں۔
برے پولیس اہلکاروں کا دفاع کرنے والے بھی اسی سسٹم کا حصہ ہیں۔ بہت سے پولیس افسر یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے جس بہن یا بھائی نے پولیس یونیفارم پہن رکھا ہو‘ وہی یہ جان سکتا ہے کہ ہمیں کس قدر خطرات کا سامنا رہتا ہے۔ ایک حد تک یہ بات درست بھی ہے مگر وہ لوگ‘ جو انتہائی خطرناک فرائض انجام دیتے ہیں‘ وہ کبھی اس قسم کا رویہ نہیں اپناتے؛ تاہم بہت سے ایسے پولیس افسر بھی ہیں جو قانون کی نمائندگی کرتے ہیں مگرخود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ چند سال پہلے میں نے ایک کتاب لکھی تھی جس کا عنوان تھا ’’بریکنگ بلیو‘‘۔یہ کتاب 1935ء میں ہونے والے ایک قتل کے بارے میں ہے۔ ایک پولیس کانسٹیبل جنگلے کو کراس کرکے بھاگ رہا تھا اور اسی پر اس قتل کا شک تھا۔ پولیس افسروں کی تین نسلوں نے اس پولیس کانسٹیبل کو بچانے کی کوشش کی۔ جب واشنگٹن سٹیٹ کے ایک شیرف انتھونی بامونٹے نے 1989ء میں اس قتل کا معمہ حل کر لیا تو اسے بھی پولیس کے اندر سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک سابق پولیس افسر نے اسے دھمکی ا?میز خط میں لکھا ’’اپنے بھائی کے خلاف کبھی منہ نہیں کھولتے‘‘۔ نصف صدی پرانے مقدمے میں بھی یونیفارم کا رشتہ قانون کے رشتے سے زیادہ مضبوط نکلا۔
دوسری بات بھی ہمیں تسلیم کر لینی چاہئے کہ اپنے پیٹی بھائیوں کے خلاف خاموشی اختیار کرنے کی طرح پولیس کے اندر نسل پرستی بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ اس کا حل پولیس کے فنڈز ختم کر نے سے نہیں ملے گا۔ یہ ایک احمقانہ بات ہو گی۔ سیاٹل‘ جہاں میں رہتا ہوں‘ وہاں پچھلے موسم گرما میں تشدد اور ہنگامہ آرائی کی ایک لہر نے تیزی سے اس علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا جسے پولیس فری قرار دیا جا چکا تھا۔ جو لوگ اس واقعے میں شدید تشدد کا نشانہ بنے تھے‘ ان کی اکثریت سیاہ فام امریکیوں پر مشتمل تھی۔ اس وقت کے سٹی پولیس چیف کیرمن بیسٹ نے میڈیا کو بتایا تھا کہ اس ہنگامہ آرائی میں دو سیاہ فام امریکی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ سب کچھ اس علاقے میں رونما ہوا جس کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ وہ ’’بلیک لائیوز میٹر‘‘ تحریک کے لیے کام کر رہے تھے۔ اگر ہم پولیس کے فنڈز ختم کرنے کی بات کرتے ہیں تو یہ بھی ایک بدترین سیاسی نعرے کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ پچھلے مہینے ہونے والے پولز میں صرف اٹھارہ فیصد امریکی شہریوں نے پولیس فنڈز ختم کرنے کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔ ان تمام سیاسی نعروںکا جو بھی حتمی نتیجہ نکلے گا وہ صرف یہ ہو گا کہ اس سے پولیس میں اصلاحات کے تقاضے اور مطالبے کو نقصان پہنچے گا۔ پچھلے سال ہونے والے کانگرس الیکشن کے دوران ڈیمو کریٹس بھی پولیس فنڈز کے خاتمے کے مطالبے کی حمایت کرتے پائے گئے تھے۔ پولیس کی تشکیل نو ہی ایک بہتر تجویز ہے جس پر 2016ء سے نیو آرلیانز میں عمل بھی شروع ہو چکا ہے۔ وہاں ایک ایسا پروگرام متعارف کرایا گیا ہے جس کے تحت پولیس افسروں کو یہ بات سکھائی جا رہی ہے کہ اگر وہ اپنے کسی ساتھی پولیس افسر کو کوئی غلط کام کرتے ہوئے دیکھیں تو فوری طور مداخلت کر کے اسے ایسا کرنے سے روکیں۔ اب میری لینڈ میں بھی اس پر عمل شروع کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ قانون ساز ادارے کے ارکان نے ایک ویٹو کو مسترد کرتے ہوئے بھاری اکثریت سے پولیس ریفارمز کے لیے ہونے والی قانون سازی کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر پولیس مین کے جسم پر ایک کیمرہ لگا ہوا ہو‘ ہمیں پولیس یونینز کے اختیارات کو ختم کرنا ہو گا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پولیس میں خدمات سر انجام دیتے والے تما م پولیس افسر وہی الفاظ کہیں جو میناپولس کے 14 پولیس افسر کہتے ہیں ’’یہ بات اہم نہیں ہے کہ ہم کون ہیں۔ اب ہمیں اسے ثابت بھی کرنا ہے‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔