... loading ...
چین نے رواں برس کے دوران جو ایران سے معاہدہ کیا ہے اُس سے امریکا اور مغربی ممالک میں کھلبلی ہے اِس معاہدے کو خطے میں تشکیل پاتے نئے اتحاد کی وسعت کے طور پر لیا جارہا ہے تلملاہٹ کا شکار امریکا کئی جتن کر رہاہے لیکن بات بنتی نظر نہیں آرہی حالانکہ ٹرمپ کے جوہری معاہدے سے نکلنے کے یکطرفہ فیصلے پرنظرثانی کرتے ہوئے جوبائیڈن نے ویانا میں مذاکرات شروع کرا دیے ہیں پھر بھی حالات موافق بنانے میں مشکلات درپیش ہیں کیونکہ خطے میں ا مریکا مخالف عناصرکا ایکا ہورہا ہے جن میں کچھ عناصرایسے ہیں جو کبھی روسیوں سے نبردآزماہونے کی بناپرامریکی آنکھ کا تارا تھے مگر اب وہ چین کے اِتنے قریب ہیں کہ واشنگٹن سے دوری میں بھی مضائقہ نہیں جانتے ایسے حالات بنانے میں اگر چینی نوازشات کا بڑاعمل دخل ہے تو امریکی رویے نے بھی دوستوں کو دوردھکیلنے میں اہم کردار اداکیاہے سب سے بڑا جھٹکا تو ایران انقلاب سے لگا لیکن پاکستان نے خالی جگہ پُر کرنے میں تاخیر نہیں کی لیکن مسلسل کچوکے لگانے کی حکمتِ عملی سے اسلام آبادمزید دوستی کے لیے پہلے کی طرح پُرجوش نہیں رہا کیونکہ آزمائش کے دوران مدد کی بجائے غیر جانبداری دکھائی گئی بلخصوص 1971میں امریکی دوست کی بجائے لاتعلق نظر آئے پھر بھی سویلین و عسکری قیادت نے وارفتگی جاری رکھی مگر دہلی پر واشنگٹن کی صنعتی ،دفاعی اور سائنسی نوازشات کی بھر مار نے اسلام آباد کا روایتی دوست بیجنگ پر انحصار بڑھا یا اب سی پیک سے دونوں ملک معاشی ا ور دفاعی حوالے سے ایک دوسرے کے قریب ترآگئے ہیں۔
اگر پاکستان کی خارجہ پالیسی میں چین کو اہمیت حاصل ہے تو چینی خارجہ میں بھی پالیسی میں پاکستان غیر اہم نہیں لیکن بات یہاں تک ہی ختم نہیں ہوتی خطے میں امریکی مفادات کے نگہبان بھارت کو گھیرنے کی پالیسی میں پاکستان چین کے ساتھ تعاون کررہا ہے چین ہر ملک میں سرمایہ کاری بڑھا رہا ہے جن میں بنگلہ دیش ،نیپال،بھوٹان ،سری لنکا سمیت کئی چھوٹے و بڑے جزائر میں منقسم مالدیپ شامل ہے چین کی اچھی بات یہ ہے کہ وہ سرمایہ کاری کے بدلے شرائط پر زور نہیں دیتاپہلے نوازتا اور دوست بناتا ہے بعد میں اپنے مفادات کے مطابق فیصلے لیتاہے اور یہ سارا عمل بتدریج ہوتا ہے یکدم دھماکے نہیں ہوتے یہی وجہ ہے کہ ماسوائے بھارت اُس کے خطے کے تمام ممالک سے خوشگوار تعلقات ہیںجن میں وقت کے ساتھ مزید قربت اور گرمجوشی آرہی ہے روس بھی تزویراتی اتحادی ہے لیکن چین کے بڑھتے اثرونفوز سے تلملاہٹ کا شکار امریکا ایسے فیصلوں میں بھی تاخیر کررہا ہے جن میں جلدی کی ضرورت ہے جو دوستوں سے محرومی کا باعث ہے گاجر اور چھڑی کی حکمتِ عملی ہر جگہ کارگرنہیں ہوتی بلکہ کبھی کبھار بدگمانیوں میں اضافے کا باعث بن جاتی ہے ابھی گزشتہ دنوں امریکی بحریہ نے آگاہ کیے یا اعتماد میں لیے بغیر بھارتی پانیوں میں مشقیں کیں جس پر بھارت کی طرف سے احتجاج بھی ہوا مگر طاقت کے نشے میں اہمیت نہیں دی گئی اسی بنا پر خطے پرامریکی مفادات کولاحق خطرات میں اضافہ ہوا ہے ۔
بات ہورہی تھی چین اورا یران قربت پر امریکی تلملاہٹ کی ،کیونکہ ایران اور چین نے حال ہی میں ایک سرمایہ کاری کا بڑا معاہدہ کیا ہے جس کے تحت چین آئندہ پچیس برسوں کے دوران ایران کے مختلف شعبوں میں چارسوارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرے گا اور اِس کے بدلے ایران سے تیل لے گا مگر ماہرین اِس معاہدے کو اِتنا سادہ اور عام فہم تصور کرنے سے گریزاں ہیں بلکہ خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ عوامی بھلائی کے کام ہونے کی بجائے سرمایہ کاری کی رقم کا بڑاحصہ چین کوہتھیاروں کی فروخت سے واپس مل جائے گا جس سے ایرانی فوج کی طاقتور ہوگی اور وہ عرب ممالک پر دبائو بڑھا سکتا ہے کیونکہ دنیا کا تیل پرانحصار کم ہورہا ہے وجہ آلودگی میں اضافہ ہے مشنری کو دیگر زرائع پر منتقل کیا جارہا ہے اِس لیے امریکا اور مغربی ممالک کاخدشہ اتنا بے بنیاد بھی نہیںمگر دونوں ممالک کے دفاعی معاہدے سے امریکا اور مغربی ممالک کی ایران پرپابندیاں موثر نہیں رہیں گی بلکہ جوہری صلاحیت سے روکنا بھی ناممکن ہوجائے گا یہ معاہدہ ایران کو مغرب سے بھی مستقل طورپر بے نیاز کرسکتا ہے بات پھر وہی ہے کہ ایسی صورتحال کیوں پیدا ہوئی یہ سوال کسی سے بھی دریافت کیا جائے تو برجستہ جواب یہی ملے گا کہ غیر ضروری دبائو ڈالنے کی روش سے کئی امریکی دوست ممالک سے تعلقات متاثر ہوئے اور وہ متبادل کی جستجو پر مجبور ہوئے اگر ڈونلڈٹرمپ یکطرفہ طور پر جوہری معاہدے سے الگ نہ ہوتے تو ایران امریکا مراسم کی صورتحال اتنی خراب نہ ہوتی اور جو بائیڈن کو مذاکرات کے لیے کمزور پوزیشن پر نہ آنا پڑتا لیکن جو ہونا تھا ہو چکا ممکن ہے سی پیک اور ایران وچین معاہدے امریکییوں کو خطے میں بے اثربنادیں۔
سی پیک پر پاکستانی عوام اور قیادت خاصی پُرجوش ہے ایران میں بھی ایسی ہی فضا بن رہی ہے معاہدے سے قبل ہی ایران کا بھارت کو کئی منصوبوں سے الگ کر نا اِس بات کا اِشارہ ہے کہ ایران کی نظرچین سے بڑھتے تعلقات سے ہونے والے فوائد پر ہے اور وہ کوئی ایسا قدم نہیں اُٹھانا چاہتا جوچین سے تعلقات متاثر کرنے کا سبب بنے انھی اقدامات سے اِس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ امریکا کی خطے میںموجودگی کے لیے ماحول سازگار نہیں حال ہی میں اشرف غنی نے افغانستان سے امریکی انخلا کے لیے گرین سگنل دیتے ہوئے کہا ہے کہ حالات سے نمٹنے کی استعداد رکھتے ہیں پاکستا پہلے ہی چین کاقریبی شراکت دار ہے اِس لیے اگر امریکی یہ کہتے ہیں کہ اُن کی خطے میں دلچسپی ختم ہورہی ہے تو اُنھیں اِس حقیقت کا بھی پتہ ہو نا چاہیے کہ خطے کے اکثر ممالک کی بھی امریکا میں دلچسپی بے زاری میں ڈھل رہی ہے اور اُن کی نظر معیشت بہتر بنانے کے لیے واشنگٹن کی بجائے بیجنگ پر ہے پاکستان کی طرح ایران کا بھی معاشی ودفاعی مسائل کا تریاق چین کو سمجھنا اِس امر کا واضح ثبوت ہے۔
چارسو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے پر ایرانی سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل کے سیکرٹری علی شمخانی نے ٹویٹرپیغام میں کہا ہے کہ چین سے معاہدہ ہماری فعال مزاحمتی پالیسی کا حصہ ہے ساری دنیا صرف مغرب ہی نہیں اور نہ ہی دنیا قانون شکن مغربی ممالک فرانس ،برطانیا اور جرمنی پر مشتمل ہے یہ ٹویٹر پیغام بدلتے ایرانی رجحان کا عکاس ہے حالانکہ جوہری معاہرے سے امریکا کے الگ ہونے کے باوجود تینوں ممالک نے پاسداری پراصرار کیا تھا چین اور ایران معاہدے کے نکات یا شرائط کیا ہے دنیا کے پاس مکمل معلومات نہیں بلکہ سب کچھ صیغہ راز میں ہے ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف کہتے ہیں کہ یہ کوئی بین الاقوامی معاہدہ یا کنونشن نہیں جس سے سب کو آگاہ کیا جائے ۔ایران ا ور چین کے درمیان طے پانے والے معاہدے کو دنیا بھر میں بڑی خبر کے طورپرلیاجارہا ہے ایران کے چند محدود ناقدین اِس معاہدے کو خود مختاری بیچنے سے تعبیر کرتے ہیں مگر حامی اکثریت امریکیوں کی سیاسی موت قراردیتی ہے اِس معاہدے پر بھارت بھی ورطہء حیرت میں ہے اور حمایت یامسترد کرنے کی صورت میں ابھی تک ہونے والے فوائد ونقصانات کا حساب کتاب کرنے میں مصروف ہے جب کہ امریکی مایوسی تو واضح ہے لیکن اگر تعلقات میں برابری اور عزت واحترام پر مبنی پالیسی نہیں اپنائی جاتی تو یہ مایوسی مزید کئی ممالک کو آزادانہ فیصلے کرنے کی شہ دے سکتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔