... loading ...
(مہمان کالم)
اینڈریو کریمر
بھاری اسلحے سے لیس مسلح بکتر بند گاڑیاں جنوبی روس کی ایک اہم شاہراہ پر رواں دواں تھیں۔ بڑی بڑی سڑکوں پر ٹینکوں کی قطاریں کھڑی نظر آرہی تھیں۔ روسی فوج کے بھاری توپ خانے کو ٹرین کے ذریعے منتقل کیا جا رہا تھا۔ ایک مہینے سے فوجی نقل وحرکت کی وڈیوز سے روسی سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے جسے صارفین شیئر کر رہے ہیں اور ریسرچرز اسے اپنے لیے محفوظ کر رہے ہیں۔ مغربی ممالک یہی با ت جاننے کی ٹوہ میں لگے ہوئے ہیں کہ آخر یہ سب کچھ کیا اور کیوں ہو رہا ہے۔ امریکی حکومت کے مطابق اس نقل و حرکت کو دیکھ کر لگتا ہے کہ گزشتہ سات سال کے دوران یوکرائن کی سرحد پر یہ روس کی مسلح بری افواج کی سب سے بڑی تعیناتی ہے۔ روسی پالیسیوں کے منقسم تجزیہ کاروں کے مطابق شاید یہ دیکھنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ صدر جو بائیڈن کی نئی حکومت اس نقل و حرکت پر اپنا کیا ردعمل ظاہر کرتی ہے۔ شاید یہ یوکرائن کی داخلی سیاست سے روسی اثرو رسوخ کو ختم کرنے کی کوشش کے خلاف کریملن کا جوابی وار ہے یا سرحد پار کسی حقیقی کارروائی کا شاخسانہ۔ اس نقل وحرکت کا ایک داخلی محرک بھی ہو سکتا ہے۔ عوامی سطح پر جو فوجی تیاری کی جا رہی ہے جس میں دیو ہیکل ٹینکوں سے لدی ٹرینیں دن کی روشنی میں یوکرائن کی سرحد کی طرف جا رہی ہیں اس کا مقصد صدر پیوٹن کے بڑے حریف الیکسی نیوینلی کی جیل میں حراست اور بگڑتی ہوئی صحت سے عوام کی توجہ ہٹانا بھی ہو سکتا ہے۔ اس وقت یورپ کا واحد زندہ تنازع یوکرائن کی جنگ ہے؛ تاہم 2015ء سے اس کی شدت میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ روس کے حمایت یافتہ علیحدگی پسند اور یوکرائن کی فوج 250 میل طویل فرنٹ پر‘ جسے لائن آف کنٹیکٹ کہا جاتا ہے‘ ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ دونوں فریق ایک دوسرے پر گولا باری کر رہے ہیں مگر زیادہ پیش قدمی کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ پچھلے مہینے دو طرفہ جھڑپوں میں تیزی آگئی اور مارچ کے آخر میں شروع ہونے والی لڑائی میں اب تک یوکرائن کے 9 فوجی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ جمعہ کے روز کریملن نے جان بوجھ کر صورتحال کو خراب کرنے کی کوشش کی جب اس نے انسانی حقوق کو بنیاد بناکر فوجی مداخلت کا جواز پیدا کرنے کی باتیں شروع کر دیں اور کھلے الفاظ میں اس خطے میں ایک نئی جنگ کے امکانات پیدا ہونے کے حوالے دینا شروع کر دیے۔ روسی حکومت کے ایک ترجمان ڈیمٹری ایس پیسکوف نے کہا کہ یوکرائن کی حکومت اس علاقے میں روسی زبان بولنے والے باشندوں کی نسل کشی کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے‘ اس لیے روس کو صورتِ حال کو کنٹرول کرنے اور اس بحران کے حل کے لیے فوری طور پر فوجی مداخلت کرنا پڑے گی۔ انہوں نے اس نسل کشی کا موازنہ 1990ء کی دہائی میں بلقان ریجن میں بڑے پیمانے پر ہونے والی نسل کشی کے ساتھ کرنا شروع کر دیا؛ اگرچہ وہاں ابھی تک ایسے کوئی اشارے نہیں ملے کہ مستقبل قریب میں یوکرائن کی سرحد پر کوئی ایسی سنگین قسم کی صورتحال پیدا ہونے والی ہے۔ روسی ترجمان ڈیمٹری پیسکوف کا کہنا ہے ’’یوکرائن کے اندر لائن آف کنٹیکٹ پر صورتحال انتہائی مخدوش شکل اختیار کر چکی ہے اور اس علاقے میں عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ اگر اس ریجن میں کسی قسم کی جنگی کارروائی شروع ہو گئی تو ان حالات میں دنیا کا کوئی بھی ملک اس خونریزی سے غیر جانبدار اور لاتعلق نہیں رہے گا۔
ان حالات میں روس سمیت ہر ملک حفاظتی اقدامات کرنے پر مجبور ہو جائے گا‘‘۔ ایک ہفتے کے دوران یہ روس کے دوسرے سینئر عہدیدار کی طرف سے ایسا بیان سامنے آیا ہے جس میں 1995ء میں بوسنیا ہرزیگووینا میں سربرینکا کے قتل عام کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اسی قتل عام پر ہونے والی عالمی مداخلت کی آڑ میں یوکرائن میں انسانی بنیادوں پر روس کی عسکری مداخلت کا جواز پیش کیا جائے گا۔ یوکرائن میں امن مشن پر ہونے والے مذاکرات میں روس کے چیف سہولت کار ڈیمٹری کوزاک نے روس کی ممکنہ فوجی مداخلت کے لیے یہ جواز پیش کیا کہ اس کا مقصد روس اور یوکرائن کی دْہری شہریت رکھنے والے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ 2019ء سے روس یوکرائن کے مشرقی علاقوں میں رہنے والے علیحدگی پسند باشندوں کو روسی شہریت سے نواز رہا ہے۔ روسی حکام الزام لگاتے ہیں کہ روس نہیں‘ یوکرائن نے اس کشیدگی میں اضافہ کیا ہے۔ روسی وزارتِ خارجہ کی خاتون ترجمان ماریہ زخا روفا نے یوکرائن پر الزام عائد کیا کہ وہ لائن آف کنٹیکٹ پر بھاری افواج جمع کر رہا ہے اور یوکرائن کو یہ غلط فہمی لاحق ہے کہ شاید اس تنازع کو بزورِ طاقت طے کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت جنگ کے بارے میں زور وشور سے باتیں ہو رہی ہیں۔ جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ بات چیت میں یہ مطالبہ کیا کہ وہ روسی فوج کو سرحد سے واپس بلائیں۔ دوسری طرف وائٹ ہائوس کی خاتون ترجمان جین پساکی نے صحافیوں کو بتایا کہ صدر بائیڈن کی حکومت اس نقل و حرکت پر خاصی تشویش میں مبتلا ہے۔ جین پساکی کا کہنا ہے ’’2014ء کے بعد سے یوکرائن کی سرحد پر اس سے زیادہ روسی فوج کا اجتماع نہیں دیکھا گیا اور جھڑپوں میں یوکرائنی فوج کے سپاہی موت سے ہمکنار ہو رہے ہیں‘‘۔ ٹینکوں کے یوکرائن کی سرحد پر جانے سے پہلے روس امریکا کے اس عزم پر اپنا ممکنہ ردعمل دے رہا تھا کہ بائیڈن حکومت برسر اقتدار آکر روس کے خلاف سخت موقف اپنائے گی۔ بائیڈن حکومت نے دھمکی دی تھی کہ امریکی الیکشن میں روسی مداخلت اور سائبر حملوں کے خلاف امریکا معاشی پابندیوں کی صور ت میں شدید ردعمل ظاہر کرے گا۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اب روس واقعی امریکا کو ا?نکھیں دکھا رہا ہے کہ اب جبکہ روسی ٹینک یوکرائن کی سرحد تک پہنچ گئے ہیں‘ وہ اپنی دھمکیوں پر عمل کر کے دکھائے۔ روسی سیاست کے ایک ماہر کانسٹینائن ایگرٹ کہتے ہیں ’’جب امریکا نے روس کے خلاف سائبر حملوں کی دھمکی دی تو صدر پیوٹن نے جنوری میں یہ اشارے دینا شروع کر دیے تھے کہ آگے مشکل حالات آنے والے ہیں۔ روس کے سرکاری ٹی وی نے یوکرائن کی پارلیمنٹ میں رونما ہونے والے ایک واقعے کی بھرپور کوریج کی جب ایک خاتون رکن پارلیمنٹ انا کولیسنک نے ایک فوجی کمانڈر کی بریفنگ سننے کے بعد اپنے کسی عزیز کو فون پر میسج بھیجا کہ ’’اب ا س ملک سے الگ ہونے کا وقت آگیا ہے‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔