وجود

... loading ...

وجود

مردم شماری کی چاند ماری

جمعرات 15 اپریل 2021 مردم شماری کی چاند ماری

وفاقی حکومت کے تحت منعقدہ مشترکہ مفادات کونسل کے اہم ترین اجلاس میں بظاہر 2017 میں ہونے والی مردم شماری کے نتائج جاری کرنے کا فیصلہ طے پاگیا ہے مگر دوسری جانب رواں برس ماہِ اکتوبر میں نئی مردم شماری کے اعلان نے اس بات پر پوری طرح سے مہر تصدیق ثبت کردی ہے کہ گزشتہ مردم شماری میں واقعی ایسے نقائص ضرور موجود تھے ،جن کا ازالہ کیے بغیر مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر 2023 میں اگلے قومی انتخابات نہیں کروائے جاسکتے ۔ یعنی اَب فوری طور پر 2017 کی مردم شماری کے نتائج جاری تو کردیئے جائیں گے لیکن اُن نتائج کی بنیاد پر ملک بھر میں انتظامی تبدیلیاں یا اصلاحات کا عمل ممکن نہیں ہو سکے گا۔یاد رہے کہ 2017 کی مردم شماری پر سب سے زیادہ اعتراضات صوبہ سندھ کی سیاسی جماعتوں کو تھے ،خاص طور کراچی میں سیاست کرنے والی سیاسی جماعتوں کا دیرینہ موقف تھا کہ مردم شماری میں جان بوجھ کر کراچی کی آبادی کو کم دکھایا گیا ہے اور اُن کی جانب سے موردِ الزام پاکستان پیپلزپارٹی اور سندھ حکومت کو ٹہرایا جارہاتھا۔ جبکہ حیران کن طور پر سندھ حکومت کے بھی2017 کی مردم شماری کے نتائج پر شدید تحفظات تھے اور پیپلزپارٹی کی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ’’ حالیہ مردم شماری میں صوبہ سندھ کی آبادی کو کم دکھایا گیا ہے‘‘۔بہرحال اس لحاظ سے سندھ حکومت کا موقف بالکل درست لگتاہے کہ اگر کراچی کی آبادی کم دکھائی جائے گی تو لامحالہ صوبہ سندھ کی آبادی از خود ہی کم ظاہر ہوگی ۔یعنی کراچی کی سیاسی جماعتیں ہوں یا سندھ حکومت مردم شماری کے مسئلے کو لے کر بات ایک ہی کر رہی ہیں لیکن عوام کو تاثر یہ دینے کی کوشش کررہی تھیں کہ مردم شماری پر ہمارے تحفظات کی معنوی نوعیت ایک دوسرے سے جدا جدا ہے۔شاید اپنے اپنے موقف کو پیش کرنے کا یہ ہی باریک سا فرق سیاست کہلاتا ہے ،جسے سیاست دان تو بخوبی سمجھتے ہیں لیکن عوام نہیں سمجھ پاتی۔

مردم شماری کے تنازعہ کو لے کر ایک خوش آئند پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل نے وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی رائے جزوی طور پر،اور اہلیانِ کراچی کا موقف مکمل طور پر درست تسلیم کر لیا ہے ۔مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کے بعد وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہنا تھا کہ ’’مردم شماری کے بنیادی فریم ورک پر6سے 8ہفتوں میں کام مکمل ہوجائے گا اور ستمبر یا اکتوبر میں نئی مردم شماری کا عمل شروع ہوجائے گا اورنئی مردم شماری کا عمل مارچ 2023تک مکمل کر لیا جائے گا۔نیز نئی مردم شماری پر ملک کے تمام شراکت داروں، صوبائی حکومتوں اور سول سوسائٹی کو ساتھ لیکر چلیں گے اور 2023 میں ہونے والے آئندہ عام انتخابات سے قبل نئی مردم شماری کے نتائج کو مکمل کر لیا جائے گا، تاکہ آئندہ بلدیاتی اورقومی انتخابات کا انعقاد نئی مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر کیا جاسکے‘‘۔جبکہ اسد عمر نے یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ ’’نئی مردم شماری میں جدید ٹیکنالوجی، اقوام متحدہ کے اصولوں اور دنیا کے مروجہ طریقہ کار کو بروئے کار لایا جائے گا۔کیونکہ مردم شماری انتخابات کی بنیاد ہے ‘‘۔یادش بخیر !کہ مشترکہ مفادات کونسل کے اراکین نے باہمی افہام و تفہم سے جس طرح مردم شماری کے معاملہ پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی عملی کوشش کی ہے ۔بلاشبہ اس پر وفاقی حکومت اور تمام صوبوں کے وزراء اعلیٰ خصوصی مبارک باد کے مستحق ہیں ۔ کیا ہی اچھا ہو اگر ہر حساس معاملہ پر مشترکہ مفادات کونسل میں اراکین غیر ضروری بیان بازی اور سیاست سے پرہیز کرتے ہوئے اسی طرح احسن طریق پر قومی اتفاق رائے سے اہم قومی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کو اپنا شعار بنالیں۔

مگر یہاں اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کے حالیہ اجلاس میں رواں برس جس نئی مردم شماری کروانے کا عندیہ دیا گیا ہے ، کیا اُس کے نتائج سب کے لیے قابلِ قبول ہوسکیں گے؟۔ہماری دانست میں اس ضروری سوال کا’’ مثبت جواب‘‘ نئی مردم شماری کے آغاز سے قبل ہی تمام سیاسی قوتوں کے پاس ہونا چاہیئے ۔تاکہ نئی مردم شماری کو تنازعات اور سیاسی تنقید سے حتی المقدار محفوظ رکھا جاسکے اور قومی وسائل کو بھی ایک ایسی مردم شماری کی نذر ہونے سے بچایا جاسکے کہ جس کے نتائج بعدازاں ملکی وحدت میں زبردست سیاسی تقسیم کا بنیادی سبب بنتے ہوں۔بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ 2017 کی مردم شماری میں سرکاری وسائل بڑی کثیر تعداد میں خرچ ہوئے تھے لیکن پاکستانی قوم کو اُس کا کچھ حاصل وصول نہ ہوسکا۔واضح رہے کہ پاکستان کے معاشی حالات پہلے ہی انتہائی دگرگوں ہیں ،اس لیے وفاقی حکومت اور تمام صوبائی حکومتوں کی مشترکہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نئی مردم شماری میں غیر ضروری سیاسی مداخلت سے یکسر باز رہیں تاکہ مردم شماری کے نتائج ملک کے ہر فرد اور شہر کے لیے یکساں قابل اعتبار قرار پائیں اور اُسی کی بنیاد پر ملک کی تمام اکائیوں کو وسائل کا حصہ منصفانہ انداز میں مہیا کیا جاسکے۔

یاد رہے کہ آج کے جدید دور میں انسانی شماریات کے میدان میں جس قدر متنوع سائنسی آلات اور غیرمعمولی سہولیات مہیا ہوچکی ہیں ،اُن کی موجود گی میں سائنسی بنیاد پر مؤثر ،دیرپا اور بالکل درست اعداد و شمار پر مشتمل مردم شماری کروانا کسی بھی حکومتی ادارے کے لیے چنداں مشکل کام نہیں ہے ۔ بس! ضرورت ہے تو صرف اس اَمر کی کہ منصفانہ مردم شماری کے حق میں صبح و شام رطب اللسان رہنے والے سیاسی رہنماؤں کی اپنی نیت ’’سیاسی کھوٹ ‘‘اور ’’سیاسی تعصب ‘‘ سے یکسر پاک اور شفاف ہو ۔اگر رواں برس ماہِ اکتوبر میں ایسا ممکن ہوجاتاہے تو من حیث القوم، ہم پہلی بار، ایک منصفانہ اور سب سے لیے قابل قبول مردم شماری کروانے میں باآسانی کامیاب و کامران ہوجائیں گے لیکن اگر ہمارے جمہوری پسند سیاسی رہنماؤں نے اَب کی بار بھی اپنی اپنی تعصبات سے آلودہ سیاسی روش کو ترک نہ کیا تو اس نئی مردم شماری کا حشر بھی 2017 میں ہونے والی مردم شماری سے کچھ مختلف نہ ہوگااور ہماری یہ نئی مردم شماری بھی پاکستانی عوام کے نزدیک فقط چاند ماری ہی کہلائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
قائد اعظم کی شخصیت کے روحانی و سماجی پہلو وجود بدھ 25 دسمبر 2024
قائد اعظم کی شخصیت کے روحانی و سماجی پہلو

قائد اعظم ، دنیا کے خوش لباس اور نفیس انسان وجود بدھ 25 دسمبر 2024
قائد اعظم ، دنیا کے خوش لباس اور نفیس انسان

رناں والیاں دے پکن پراٹھے وجود بدھ 25 دسمبر 2024
رناں والیاں دے پکن پراٹھے

ہتھیاروں کی دوڑ اور امریکی دوہرا معیار وجود بدھ 25 دسمبر 2024
ہتھیاروں کی دوڑ اور امریکی دوہرا معیار

پاکستان کے میزائل پروگرام پرامریکی خدشات وجود بدھ 25 دسمبر 2024
پاکستان کے میزائل پروگرام پرامریکی خدشات

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر