وجود

... loading ...

وجود

ملازمین کا دھرنا ،حکومت نظر انداز نہ کرے

بدھ 07 اپریل 2021 ملازمین کا دھرنا ،حکومت نظر انداز نہ کرے

بلوچستان حکومت کو 29مارچ سے جاری سرکاری ملازمین کے دھرنے کی وجہ سے گمبھیر صورتحال کا سامنا ہے۔ چالیس سے زائد سرکاری محکموں کی ملازم تنظیموں پر مشتمل گرینڈ الائنس کے تحت مرد و خواتین ملازمین نے وزیراعلیٰ ہائوس کے قریب ہاکی چوک پر یعنی ریڈ زون پر دھرنا دے رکھا ہے۔ احتجاج میں اسکول و کالج اساتذہ، لیکچرار،پروفیسرز، کلرک، پیرامیڈیکس، ڈاکٹرز،سول سیکریٹریٹ کے اہلکار و افسران سمیت تعلیم، صحت، زراعت سمیت تقریباً سبھی صوبائی محکموں کے درجہ چہارم سے گریڈ 19تک کے ملازم افسران شریک ہیں ۔ جنہوںحکومت کے سامنے19نکاتی مطالبات پیش کر رکھے ہیں ۔جن میں سردست تنخواہوں میں پچیس فیصد اضافے کا مطالبہ ہے۔ ملازمین کے احتجاج نے قلم چھوڑ تحریک کی صورت اختیار کر رکھی ہے۔ سرکاری اسکول میں پڑھائی کا عمل معطل ہوا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں او پی ڈیز بند ہیں ۔سرکاری دفتری امور بھی ٹھپ ہوکر رہ گئے ہیں۔ صوبے کی تمام سیاسی جماعتوں نے جو اسمبلی میں حزب اختلاف اور پاکستان ڈیموکریٹک کا حصہ ہیں ملازمین کا ساتھ دے رکھا ہے ۔سیاسی جماعتوں کے رہنماء اور کارکن دھرنے میں شرکت اور تقاریر کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ حکومت میں شامل جماعتیں جیسے ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے بھی ان کے مطالبات پر کان دھرنے پر زور دیا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی جو رکن اسمبلی بھی ہیں دھرنا شرکاء کے پاس گئے ، تقریر کی۔ اتوار4اپریل کو رکشہ یونین کی اپیل پر رکشہ ریلی نکالی گئی۔ سوموار پانچ اپریل کو ٹرانسپورٹروں کی مدد سے صوبے کی قومی شاہراہوں پر ملازمین نے آمدروفت بند کردی۔دراصل یہ دھرنا اور احتجاج ماہ فروری میںاسلام آباد میں ہونے والے ملازمین کے احتجاج کا تسلسل ہے۔

بلوچستان حکومت غافل نہ ہوتی تو دھرنے سے قبل ہی ملازمین کے ساتھ کسی نتیجہ پر پہنچ جاتی۔ بلاشبہ حکومت مشکل میں ہے۔ اگرچہ سیکریٹریٹ ملازمین یا کسی قدر محکمہ پولیس کے اندر بھی تنخواہیں اچھی ہیں۔ مگر دوسرے محکموں کے ملازمین کی تنخواہیں ان کے اخراجات و ضروریات کے لیے ناکافی ہیں۔ صوبائی اور وفاقی حکومت کے بجٹ 2020.21 میں بھی اضافہ نہ کیا گیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کا یہ کہنا ہے کہ گزشتہ دو سالوں کے دوران پنشن بل30ارب سے بڑھ کر40سے50ارب روپے ہوگیا ہے اور پانچ سال میں100سے120ارب ہوجائے گا ۔ملازمین کے مطالبات کی منظوری کے بعد خزانہ پر10سے15ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑ جائے گااور ایک وقت ایسا آئے گا کہ حکومت تعلیم، صحت، سڑکوں، ڈیم، سماجی بہبود اور زراعت کے لیے کچھ نہیں کرسکے گی ۔ صرف تنخواہیں اور پنشن الائونس دیتی رہے گی ۔ وزیراعلیٰ درست کہتے ہوں گے، مگر امروز حالت ایسی ہے کہ ملازمین کیلئے کچھ کرنا پڑے گا ورنہ یہ بحران مزید بڑھ جائے گا۔ بلوچستان میں زراعت، کانکنی اور ماہی گیری ہی سب سے اہم پیداواری شعبے ہیں ۔مگر ان شعبوں میں روزگار اور ملازمتیں بڑھانے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی ہے ۔اس لیے لوگ سرکاری ملازمت کو ترجیح دیتے ہیں۔ حکومتیں اور عوامی نمائندے بھی سیاسی حمایت کے بدلے ملازمتیں دیتے ہیں۔حقیقت یہ بھی ہے کہ کئی محکموں میں ضرورت سے زائد ملازمین تعینات ہوتے ہیں۔مجموعی طور پر بلوچستان میں ایک کروڑ بیس لاکھ کی آبادی کے لیے سوا دو لاکھ سے ڈھائی لاکھ ملازمین تعینات ہیں جن کی تنخواہوں پر صوبے کے بجٹ کا تقریباً70سے 80فیصد خرچ ہوتا ہے۔بلوچستان میں آمدن کے ذرائع نہ ہونے کے برابر ہیں۔صوبے کی اپنی آمدن بمشکل30ارب روپے ہے ۔ بجٹ سازی میں صوبائی حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے۔ رواں مالی سال کے 465ارب روپے کے صوبائی بجٹ میں بھی87ارب روپے کا خسارہ شامل ہے۔ملازمین مسائل بارے صوبائی حکومت اچھے اقدامات بھی کرچکی ہے ۔چناچہ تدبیر اور معاملہ فہمی کی ضرورت ہے ۔احتجاجی ملازمین کے خلاف انتقامی کاروائی یا طاقت کا استعمال حالات کی خرابی پر منتج ہو سکتا ہے ۔لہذا اگر فی الوقعی حکومت کی مجبوریاں بھی ہیں تو گفت و شنید کے راستے گرینڈ الائنس کی قیادت کو قائل کیا جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خوشحالی کی جھوٹی کہانی اور عوام وجود اتوار 12 جنوری 2025
خوشحالی کی جھوٹی کہانی اور عوام

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر ایک اہم تصنیف وجود اتوار 12 جنوری 2025
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر ایک اہم تصنیف

مریم نواز کا مصافحہ! وجود هفته 11 جنوری 2025
مریم نواز کا مصافحہ!

ڈونلڈ ٹرمپ کا ارادہ اور گرین لینڈ وجود هفته 11 جنوری 2025
ڈونلڈ ٹرمپ کا ارادہ اور گرین لینڈ

جمہور اور جمہوریت وجود هفته 11 جنوری 2025
جمہور اور جمہوریت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر