وجود

... loading ...

وجود

پی ڈی ایم کا ماضی ،حال اور مستقبل

پیر 29 مارچ 2021 پی ڈی ایم کا ماضی ،حال اور مستقبل

پاکستان پیپلزپارٹی نے اگر اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کو استعمال کرتے ہوئے اپنی سیاست میں ایک نئی روح پھونک ہی دی ہے تو آخر اس میں اتنی حیرت کیا؟۔جبکہ سیاست تو نام ہی دستیاب مواقع سے زیادہ سے زیادہ سیاسی فوائد برآمد کرنے کا ہے۔ویسے تو سندھ حکومت کی انتظامی شکل و صورت میں پارلیمانی نظام میں پہلے ہی سے پاکستان پیپلزپارٹی کے مفادات حصہ بقدرِ جثہ کے مصداق وابستہ تھے ،لیکن اَب ایوانِ بالا میں سید یوسف رضا گیلانی کے اپوزیشن لیڈرمنتخب ہونے کے بعد تو پارلیمانی نظام کی حیثیت و اہمیت پیپلزپارٹی کے نزدیک مزید کئی گناہ بڑھ گئی ہے۔ یقینا ایک ڈانواں ڈول پارلیمانی نظام میں رہتے ہوئے بطور ایک اپوزیشن جماعت جس قدر سیاسی فوائد سمیٹے جانے کی توقع کی جاسکتی تھی ، وہ تمام کے تمام سیاسی فوائد پاکستان پیپلزپارٹی ،کمال سیاست سے حاصل کر چکی ہے۔ اَب آصف علی زرداری کی بَلا سے پی ڈی ایم اتحاد باقی رہے یا نہ رہے ،اُس سے کوئی خاص فرق کم ازکم پیپلزپارٹی کی سیاسی صحت پرتو پڑتا نظر نہیں آتا۔ ہاں! جس انداز میں پاکستان پیپلزپارٹی نے سید یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر منتخب کروایا ہے ،اُس منفرد ’ ’سیاسی واردات ‘‘سے بلاشبہ مسلم لیگ ن کو ایک بڑی کاری’’سیاسی زک‘‘ ضرورپہنچی ہے۔ جس کی شدت کا اندازہ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی جانب سے سید یوسف رضا گیلانی کے حوالے سے جاری ہونے والے بیانات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتاہے۔

 

دلچسپ با ت یہ ہے کہ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے لیے مسلم لیگ (ن) کے نامزد اُمیدوار، اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے 21 سینیٹرز کے دستخط کے ساتھ درخواست جمع کرائی گئی تھی جبکہ یوسف رضا گیلانی کی درخواست پر 31 سینیٹرز کے دستخط تھے۔ یوسف رضا گیلانی کی حمایت میں پیپلزپارٹی کے 21، اے این پی کے 2، جماعت اسلامی کے ایک، سابق فاٹا کے 2 اور دلاور گروپ کے 5 سینیٹرز نے ووٹ دیا، ن لیگ کے 17، پختونخوا میپ کے 2 اور نیشنل پارٹی کے 2 سینیٹرز نے اعظم نذیر تارڑ کا ساتھ دیا،جے یو آئی (ف) کے 5 ارکان غیر جانبدار رہے۔چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے درخواستوں پر ایک ایک سینیٹر سے ان کے دستخط کی تصدیق کی جس کے بعد سینیٹ سیکرٹریٹ نے یوسف رضاگیلانی کی بطور اپوزیشن لیڈر تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جے یو آئی ف نے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کی تقرری کے عمل میں جان بوجھ کر حصہ نہیں لیا اور اسکے سینیٹر زنے کسی کو بھی ووٹ نہیں دیے ۔جس کی وجہ سے مسلم لیگ ن کے امیدوار کے پانچ ووٹ کم ہوئے۔اس کا سادہ سا مطلب یہ ہوا کہ مسلم لیگ ن کے ووٹ کم ہوئے نہیں بلکہ ایک خاص حکمت عملی کے تحت کم کرنے کا التزام کیا گیا تھا۔یعنی بظاہر مولانا فضل الرحمن بیانیے کی حدتک ضرور میاں محمد نوازشریف اور مریم نواز کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں ، لیکن اُن کی تمام تر سیاسی ہمدردی اور حمایت کے جملہ حقوق صرف اور صرف بنام،آصف علی زرداری محفوظ ہیں۔ اس لیے فقط یہ کہنا کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ ن کے ساتھ سیاسی بے وفائی کی ہے سراسر ،اُدھورا سچ ہے ۔جبکہ پورا سچ تو یہ ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی کو ایوانِ بالا میں اپوزیشن لیڈر بنوانے کے جرم میں مولانا فضل الرحمن بھی برابر کے سہولت کار ہیں ۔ مگر مسلم لیگ ن کی جانب سے طعن و تشنیع کا نشانہ فقط پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کو ہی بنایا جارہاہے۔

واضح رہے کہ سید یوسف رضا گیلانی کے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بننے کے بعد چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے سَر پر سے معطلی کی لٹکی ہوئی تلوار نہ صرف ہٹ گئی ہے بلکہ پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت نے غیر اعلانیہ طور پر صادق سنجرانی کو بطور چیئرمین سینیٹ قبول کرکے پارلیمانی نظام کو من و عن تسلیم کرنے کا کڑوا گھونٹ بھی بھرلیا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنے اِس غیر متوقع ’’سیاسی اقدام ‘‘سے فوری طور پر پی ڈی ایم کو عضو معطل بناکر مقدر حلقوں کو اس بات کا واضح اشارہ دے دیا ہے کہ مستقبل قریب میں بلاول بھٹو زرداری تن تنہا ہی اپوزیشن رہنما کے طور پر وفاقی حکومت سے مختلف اُمور پر معاونت کے لیے پوری طرح سے دستیاب ہیں اورغالب امکان یہ ہی ہے کہ حکومت بھی بلاول بھٹو زرداری کے اِس گرین سگنل کی سیاسی اہمیت و افادیت کو سمجھتے ہوئے، بخوشی پیپلزپارٹی کے ساتھ ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں میں افہام و تفہیم کے ساتھ تعاون جاری رکھنے پر آمادہ ہوجائے گی۔مگر اِ س’’حادثہ وقت‘‘ سے یہ مراد ہر گزنہ لی جائے کہ پی ڈی ایم اتحاد کا خاتمہ بالخیر ہوگیا ہے ۔پی ڈی ایم اتحاد ،بدستور برقرار ہے اور مولانا فضل الرحمن اپنے اِس اتحاد کے گھن چکر میں اُس وقت تک مریم نواز کو اُلجھا کر رکھیں گے جب تک کہ مریم نواز کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری عمل میں نہیں آجاتی اور شہباز شریف ضمانت پر رہا ہوکر مسلم لیگ ن کی زمام اپنے ہاتھوں میں سنبھال نہیں لیتے ۔

یا د رکھیئے گا کہ جس دن مریم نواز جیل گئیں اور شہباز شریف مسلم لیگ ن کی ڈرائیونگ سیٹ پربیٹھ گئے ،عین اُسی روز، پی ڈی ایم اپنی احتجاجی سیاست سے توبہ تائب کرکے انتخابی اتحاد میں تبدیل ہو جائے گی۔ مگر پی ڈی ایم کے زیرنگیں بننے والے اِس ممکنہ انتخابی اتحاد کا پاکستان پیپلزپارٹی کسی بھی صورت میں حصہ نہیں ہوگی۔ کیونکہ پاکستان پیپلزپارٹی 2023 کے انتخابات اپنی جداگانہ جماعتی حیثیت میں لڑنا چاہتی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ آصف علی زرداری نے گزشتہ چند ہفتوں میں تواتر کے ساتھ ایسے غیر مقبول، جارحانہ اور غیر متوقع سیاسی فیصلے کیے ہیں ،جن سے پیپلزپارٹی کی پارلیمانی حیثیت و اہمیت میں زبردست اضافہ ہوا ہے ۔دوسری جانب مسلم لیگ ن صرف پارلیمانی میدان میںہی نہیں بلکہ احتجاجی سیاست کے میدان میں بھی شرمناک اور عبرت ناک ہزیمت سے ہمکنار ہوئی۔ساری کہانی کا خلاصہ یہ ہوا کہ پی ڈی ایم اتحاد کا ماضی مریم نوازقرار پائیں ،حال مولانا فضل الرحمن کی سیاست کے نام رہا اور مستقبل بلاول بھٹو زرداری لے اُڑے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر