... loading ...
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اتحاد بنتے اورٹوٹتے رہے ہیں جس ملک نے اپنی زندگی کاآدھا وقت آمریت میں گزارا ہواس میں یہ معمول کی بات لگتی ہے۔ اگراتحادی سیاست کی بات کی جائے تو ایک نام پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھادکھائی دیتاہے۔ نوابزادہ نصراللہ خان کوبابائے جمہوریت بھی اسی لیے کہاجاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کازیادہ ترحصہ اپوزیشن میں اورآمریت کے خلاف جدوجہد میں بسرکرگئے ان سے بہت سے واقعات منسوب ہیں۔ ان میں سے ایک واقعہ جواس طرح نمایاں نہیں ہوسکا جس قدر ہوناچاہیے تھا۔ ان کی سربراہی میں یونائیٹڈ ڈیموکریٹک الائنس بناجس میں اس وقت کے نامی گرامی سیاسی رہنما شامل تھے۔ اس اتحاد میں شامل شاہ احمدنورانی سے ایک بارکسی صحافی نے اس الائنس سے متعلق سوال کیاکہ متحدہ جمہوری اتحادکیساچل رہاہے جس کے جواب میں شاہ احمدنورانی نے کہاکہ ہم توکمبل کوچھوڑناچاہتے ہیں کمبخت کمبل ہمیں نہیں چھوڑرہا۔جب یہ بات نوابزادہ نصراللہ خان نے سنی توانہوں نے برجستہ جواب دیا حضرت کمبل کونہ چھوڑئیے گا ننگے ہوجائیں گے ۔
تاریخ کے اوراق میں سے یہ واقعہ مجھے آج کے سیاسی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی موجودہ صورتحال سے یاد آیا کہ آج کے نوابزادہ نصراللہ خان یعنی مولانا فضل الرحمان کی صدارت میں بننے والے اس اتحاد میں شامل ایک دو جماعتیں اس اتحاد کوچھوڑناچاہتی ہیں لیکن انہیں نوابزادہ نصراللہ خان کاقول یادآجاتاہے کہ ”ننگے ہوجائیں گے ”۔اسی خوف سے وہ ایک دوسرے سے چمٹ جاتی ہیں حالانکہ اس اتحاد میں شامل جماعتوں کے نہ تونظریات ایک ہیں اورنہ ہی مفادات مشترکہ ہیں وقتی طورپر آج کے ہائبرڈ نظام نے انہیں آپس میں باندھ دیاہے پاکستانی تاریخ بھی عجیب ہے جہاں جمہوریت کے سر پر ہمیشہ تلوارلٹکتی رہتی ہے۔قیام پاکستان سے اب تک اس ملک کی 72 سالہ زندگی میں چاربار فوج نے براہ راست جمہوریت پر شب خون مارا’مارشل لاء کے تین ادوار تو شیطان کی آنت کی طرح لمبے ہوئے کہ عوام جمہوریت کے روشن چہرے کوترس گئے۔
مقام افسوس یہ بھی ہے کہ جن ادوار کوہم جمہوری کہتے ہیں وہ بھی جزوی جمہوری ہی کہلائے ذوالفقار علی بھٹو’ نوازشریف توپیداوار ہی دورآمریت کی ہیں جبکہ موجودہ وزیراعظم عمران خان کوبھی سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا نے ”گود” لیااور ریٹائرمنٹ پران کی ”پرورش”کی ذمہ داری اگلے جرنیل کوسونپ گئے اور یوں یہ سلسلہ تاحال جاری وساری ہے ذوالفقار علی بھٹو اورنوازشریف میں قدرمشترک یہ ہے کہ دونوں نے جب آمریت کو للکارا تو نشان عبرت بنادیئے گئے یہ اوربات ہے کہ وقت نے بھٹو کوآج بھی زندہ رکھاہواہے اور یہ بات ثابت کردی کہ نظریہ کبھی نہیں مرتا آج بھی بھٹوزندہ ہے یہ صرف نعرہ نہیں ہماری سیاست کا روشن باب ہے
اسی طرح نواز شریف بھی ہرباراقتدار سے اپنے نظرئیے کی وجہ سے نکالے گئے۔۔۔۔ میں استعفی نہیں دونگا سے مجھے کیوں نکالا تک کاسفر آسان نہ تھا۔ ذوالفقارعلی بھٹو توقبرمیں جا کے اس دنیا کے جھنجٹ سے چھٹکاراپاگئے مگرنوازشریف ابھی زندہ ہیں اورشائد اللہ تعالی نے انہیں بھٹوکے مشن کو زندہ رکھنے کا مشن سونپ رکھا ہے۔ آج کے نواز شریف کا ووٹ کو عزت دو کا نعرہ در اصل بھٹو کے اس نعرے عوام کی حکومت عوام کے ذریعے کا ہی تسلسل ہے۔
آپ بھی حیران ہونگے کہ نوازشریف بھٹو کے مشن پر عمل کررہے ہیں توجواب بہت سادہ ساہے کہ مقصد ایک ہو تو شخصیات کافرق مٹ جاتاہے۔ آپ غور کریں توآپ کوحیرانی ہوگی کہ کل جس رویے کے خلاف بھٹولڑرہاتھا آج وہ نوازشریف کانظریہ بن چکاہے اورمقام حیرت یہ بھی کہ کل تک جوکچھ نوازشریف کرتارہا۔ وہ کچھ آج بھٹو کے داماد اور بے نظیر بھٹو کے خاوند آصف علی زرداری کر رہے ہیں۔ولی خان نے کہاتھا جمہوریت کی جنگ ہم تب جیتیں گے جب یہ پنجاب کے میدانوں میں لڑی جائے گی۔ آج وقت نے ثابت کیاکہ جمہوریت کی جنگ پنجاب کے میدان میں لڑی جارہی ہے نوازشریف کی پارٹی اور بیٹی اس جنگ کوبھرپورانداز میں لڑنے میں مصروف ہیں مولانافضل الرحمان کی قیادت میں بننے والے سیاسی اتحاد نے صرف چھ ماہ میں وہ کامیابیاں سمیٹی ہیں جوکوئی سوچ بھی نہیں سکتاتھا۔ اس سیاسی اتحاد میں اختلاف کی بہت خبریں پھیلائی گئیں کچھ نے حقیقت کاروپ بھی دھارا گذشتہ ادوار کے آمرانہ طرز حکومت کوہائبرڈنظام کے نام سے یادکیاجاتاہے جس میں طریقہ “واردات ” پرانا لیکن طریقہ کار نیا ہے چہرہ عمران خان اوردھڑ اسٹیبلشمنٹ کاہے۔ اس لیے پردوں کے پیچھے سے ہونے والی وارداتوں سے بچنے کے لیے پی ڈی ایم کا اتحاد وقت کی ضرورت ہے اور ن لیگ کی اس بات پر بھی ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آصف علی زرداری کیا کرنے جا رہے ہیں۔ آصف علی زرداری کو بہت شاطر سیاستدان سمجھا جاتا ہے اس لیے ان پر “نگاہ” رکھنے کا کام مولانا خود سر انجام دیں ایسا نہ کہ پچھلے 6 ماہ کی محنت پر پانی پھر جائے اور باہر کی بجائے “اندر” سے ہی “ننگا” کرنے کا کام جاری ہو اور اگر ایسا ہوا تو نہ صرف بھٹو کے نظرئیے کو ٹھیس پہنچے گی بلکہ ولی خان کے خواب کی تعبیر میں بھی مزید تاخیر ہوگی۔۔۔۔۔
قارئین کرام کالم کو سمیٹنے کی جانب بڑھ رہا تھا کہ ٹی وی چینلز کی ا سکرینیں لال پیلی ہونے لگیں اور بریکنگ نیوز آئی۔۔۔۔آصف علی زرداری نے یوسف رضا گیلانی کو سینٹ میں قائد حزب اختلاف بنوا لیا ہے اور مزے کی بات یہ کہ انہیں بلوچستان عوام پارٹی یعنی عمران خان کی اتحادی جماعت کی حمایت بھی حاصل ہے۔ مقام افسوس یہ کہ عبد الولی خان کی سیاسی جماعت اے این پی اور ان کے جانشین اسفند یار ولی خان نے بھی گیلانی کی حمایت کرکے نہ صرف اپنے باپ کے حکم پر زرداری سے دوستی کو ترجیح دی بلکہ ولی خان کے خواب کو بھی چکنا چور کردیا کہ جو جنگ پنجاب کے میدانوں میں لڑنے کے خواب سے تعبیر تک بڑی مشکل سے پہنچی تھی اس کو ایک بار پھر خواب میں بدل دیا اب تو یہ بھی نہیں کہا جاسکتا۔۔۔ حضرت ننگے ہو جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔ کہ وہ ہو چکے۔۔۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا امتحان ہے کہ وہ اب اس “برہنہ” بدن اتحاد کی ستر پوشی کس طرح کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔