... loading ...
بلوچستان کے اندر سول بیورو کریسی یا دوسرے سول سرکاری ملازمین و حکام دو دھاری تلوار کے نیچے فرائض نبھارہے ہیں۔ حکومتیں ، وزراء شاہی ، اراکین اسمبلی ، دوسرے طاقتور سیاستدان حاوی تو تھے ہی مگر اب ان پر دوسرے پہلوئوں سے بھی بالادستی قائم ہوچکی ہے۔ اس سبب اْمور میں تنزلی کی صورتحال بنتی جارہی ہے اور بگاڑ ہمہ پہلو پھیلتا جارہا ہے۔ عتاب کا موضوع ان دنوں ایک بار پھر زبان زد عام بنا ہے جب ایک خاتون اسسٹنٹ کمشنر فریدہ ترین کا ایک ماہ کے مختصر دورانیے میں چار بار تبادلہ کیا گیا ہے۔ان ہی دنوں 18 مارچ کوبلوچستان ہائیکورٹ نے سیکریٹری ثقافت و سیاحت اصغر حریفال کے قبل از وقت تبادلے کے آرڈرز منسوخ کرد یے ہیں، اصغر حریفال کی آئینی درخواست کی چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس کامران ملاخیل پر مبنی بنچ نے سماعت کی۔ اصغر حریفال کے وکیل رئوف عطا ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ ان کے مؤکل کا غیر قانونی احکامات نہ ماننے پر قبل از وقت تبادلہ کیا گیا۔ انہیں بطور سیکریٹری خوراک چھ ماہ کیلئے غیر قانونی طور پر معطل رکھا گیا اور ماہ بعد سیکریٹری ثقافت و سیاحت تعیناتی کے محض چند ماہ بعد ہٹا کر او ایس ڈی بنائے گئے، عدالت عالیہ بلوچستان نے آئینی درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی ہے، ساتھ ہی تبادلے کا حکم بھی معطل کردیا۔بلوچستان سول سروس گروپ کی گریڈ 17کی آفیسر فریدہ ترین کے ساتھ ہوا یہ کہ اکتوبر2020ء کو چیف سیکریٹری دفتر مین بطور قائم مقام ڈپٹی سیکریٹری اسٹاف تعینات کردی گئی تھیں، ان کی پچھلے ماہ 11فروری کوبطور اسسٹنٹ کمشنر کوئٹہ سٹی تعیناتی ہوئی چناںچہ عہدہ سنبھالنے کے پہلے ہی روز نوٹیفکیشن جاری ہوا اور ان کا تبادلہ منسوخ کردیاگیا۔پانچ یوم بعد انہیں محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن میں سیکشن آفیسر (شعبہ سروسزٹو) تعینات کیا گیا اور پھر نو دن بعد یعنی25فروری کو اسی محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن میں سیکشن آفیسر (شعبہ سروسزون) میں پوسٹ کیا۔ اور16مارچ کو چوتھی مرتبہ ٹرانسفر کرکے محکمہ صنعت میں سیکشن آفیسر کا چارج دیا گیا۔
اگرچہ فریدہ ترین کی بار بار ٹرانسفر پوسٹنگ کا معاملہ ذرائع ابلاغ اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پراٹھایا گیا۔ سول سیکرٹریٹ افسران کی تنظیم سے لیکر دوسری ملازم تنظیموں نے سرکاری اعلیٰ و ادنی ملازمین کے ساتھ ہونے والے سلوک پر نقد و برہمی ظاہر کی ہے۔ مگر ستم یہ ہے کہ سول سرکاری حکام حکومتوں، وزرائ، اراکین اسمبلی اور طاقتور سیاسی و قبائلی شخصیات کے عتاب میں ہیں۔سول سیکریٹریٹ کے اندر اکثر و بیشتر وزراء کے کہنے پر ٹرانسفر پوسٹنگ ہوتی ہے۔ ان سے من مانیاں کرانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ مرضی کے برعکس آفیسر کا تبادلہ کرادیا جاتا ہے۔ ڈپٹی کمشنروں کے تبادلوں کا رجحان ہی یہ ہے کہ ان کے تقرر و تبادلے حکومت ،اس کی کابینہ اور حکومتی اراکین اسمبلی کی منشا پر ہے۔ ڈپٹی کمشنر بیچارے تو فرنٹیئر کور کے بھی زیر دست دکھائی دیتے ہیں۔ قومی احتساب بیورو الگ سے بیورو کریسی و سرکاری محکموں پر اثر انداز ہے۔ حکومت اور مجاز اتھارٹی سے ہٹ کر جس کی آئین اور قانون میں سرے سے گنجائش ہی نہیں ہے یہ آفسران رپورٹ دینے اور احکام کی تعمیل کے پابند بنائے جاچکے ہیں۔ خوف اور زیر دستی کے اس ماحول میںکہ اگر ملازم ماورائے قانون احکامات کو ماننے سے انکار کرتے ہیں اور قواعد و ضوابط کی پاسداری کرتے ہیں تو انہیں مشکلات میں جکڑ کر رکھ دیا جاتا ہے۔ صوبے میں ایک مختصر وقفے کے بعد تبادلوں کی روایت بنائی جاچکی ہے۔اہم پوسٹوں پر جونئیرز تعینات کرد یے جاتے ہیں۔ سینئر و تجربہ کار افسران کھڈے لائن ہوتے ہیں۔قواعد کے مطابق سیکشن آفسر، انڈر سیکرٹری اور ڈویڑنل کمشنروں کی تعیناتی تین سال کے عرصے کے لیے ہوتی ہے، الہ اگرکوئی سنگین الزام یا اختیارات کا غلط استعمال یا دوسرے سنگین الزامات نہ ہوں۔ تبادلہ کیا جانا ہو تو اس کے لئے ایس اینڈ جی اے ڈی سے ایڈوائس لی جاتی ہے۔ مگر یہاںتقرریاں و تبادلے حکومت بلوچستان کے سروسز رولز 2012ء کے برعکس ہونا ایک عام مشاہدہ ہے۔ عدالت عظمیٰ کا اس تناظر میں فیصلہ بھی خاطر میں نہیں لایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر عمر بابر سیکریٹری محکمہ مواصلات و تعمیرات تھے ان کا قبل از وقت تبادلہ کیا گیا تو اس نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ،سپریم کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا اور اب اصغر حریفال کے کیس میں بلوچستان ہائی کورٹ نے سیکریٹری ایس اینڈ جی اے ڈی کو ذاتی طور پر28 اپریل کو طلب کیا ہے۔ بلوچستان میں سول بیورو کریسی سے حکومت وزراء اور سیاسی دبائو اور سیاسی اشرافیہ کی بالادستی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ یقینا اپنے تحفظ کے لیے سول بیورو کریسی کو مربوط ہو نا چاہیے۔ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف عدالتوں سے رجوع کریں۔ تاکہ مداخلت اور مروجہ چلن کے دروازے بند ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔