... loading ...
(مہمان کالم)
ڈیوڈ سیگل
شمال مشرقی لندن میں واقع ایک اہم شاہراہ نیوہم ایسے مقام کے لیے معروف ہے جہاں 2012ء کے سمر اولمپکس ہوئے تھے اور یہاں تارکین وطن کی اتنی کمیونٹیز آباد ہیں جو ایک سو سے زائد زبانیں بولتی ہیں۔ گزشتہ سال اس کی شہرت میں ایک اور اضافہ ہوگیا، وہ یہ کہ مارچ سے دسمبر تک‘ انگلینڈ یا ویلز میں کورونا کی وجہ سے سب سے زیادہ اموات یہاں ہوئیں۔ ہر ایک لاکھ افراد میں سے 328 اموات۔ تین ماہ پہلے یہاں حکومت کے بھیجے ہوئے ماہرین صحت آئے تاکہ اتنی بڑی شرح اموات کو روکنے کے لیے کوئی جدید اور منفرد طریقہ اختیار کیا جائے۔ یہاں مقامی حکومت کو کونسل کہا جاتا ہے‘ نیوہم کی کونسل نے دو ہوٹل کرائے پر لیے، ایک ہوٹل میں کووڈ کے مریض آ کر ٹھہر سکتے تھے اور مکمل صحت یاب ہونے کے بعد اپنے گھروں کو واپس جا سکتے تھے۔ دوسرے ہوٹل میں ایسے صحت مند افراد آ کر رہ سکتے تھے جن کے گھروں میں کوئی کورونا کا مریض رہتا ہو۔ وہ اتنی دیرتک اس ہوٹل میں قیام کر سکتے تھے جب تک گھر واپسی مکمل طور پر محفوظ نہ ہو۔ حکومت نے اس ہوٹل کا کرایہ اور مریضوں کو روزانہ کا کھانا فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ یہ تو بڑی زبردست ڈیل لگتی تھی۔ جنوری سے لے کر یعنی جب سے اس ہوٹل کے کمرے کرائے پر لیے گئے تھے اور خوراک کی سپلائی کا بندوبست بھی کیا گیا تھا اور ایک جدید آئسولیشن پروگرام کا اعلان بھی کر دیا گیا تھا مگر ہر لحاظ سے ایک حیران کن آفر ہونے کے باوجود ا سے قبول کرنے والے شرکا کی تعداد بہت کم رہی۔ کووڈ سے متاثرہ ایک شخص اس ہوٹل جو ’’ہاٹ ہوٹل‘‘ کے نام سے معروف ہے‘ کے استقبالیے پر آیا اور ایک ہی شخص اْس ہوٹل میں آیا جو اپنے بیمار فیملی ممبرز سے بچنے کے لیے صحت مند افراد کے لیے کرائے پر لیا گیا تھا۔ مسئلہ کیا تھا؟ ایک صبح زوم کال پر این بائوزرز نے‘ جو شاہراہوں پر صحت سے متعلق اشتہاری مہمات چلاتی ہیں‘ اس بات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی۔
انہوں نے ایک ایسے گروپ کو اس بات کے لیے تیار کیا جن کی جڑیں نیوہم میں مقیم ان تارکین وطن کی کمیونٹیز میں تھیں جن میں کووڈ سے بچنے کے لیے آگاہی مہم چلائی جا رہی تھی۔ انہوں نے بتایاکہ ان آئسولیشن ہوٹلز میں کسی کو زبردستی ٹھہرانا ممکن نہیں۔ ایک رضاکار ڈین آرمنڈ نے بتایاکہ کسی کو ان ہوٹلز میں دلچسپی نہیں ہے۔ دراصل اس حوالے سے بہت ہی منفی ردعمل دیکھنے کو ملا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ جن تارکین وطن کے پاس ضروری کاغذات نہیں ہیں‘ انہیں ڈر ہے کہ انہیں کہیں ملک بدر نہ کر دیا جائے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کوئی لنچ کبھی فری نہیں ہوتا۔ ایک رضاکار نے زوم گروپ میں بتایا کہ یہاں قیام کا بل ای میل سے موصول ہو جائے گا۔ ایک امریکی ہیلتھ کیئر جیسا بل‘ جس کی ادائیگی کے لیے آپ اپنا گھر بھی بیچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘ نیوہم ہوٹل پروگرام تو اس مسئلے کی ایک مثال ہے جس نے دنیا بھر کی حکومتوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ چند ایک کو چھوڑ کر کورونا وائرس کے خلاف جنگ کی تمام کوششوں میں انسانی رویوں میں ایسی تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے جو غیر متوازن بھی ہے اور غیر موثر بھی۔ اس بحران کی ہلاکت آفرینی اور تباہی کو پیش نظر رکھیں تو آپ کو اس بات کی توقع رکھنی چاہیے کہ بہت جلد آپ کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر صحت سے متعلق گاہے گاہے ایسے پیغامات موصول ہوں گے جن میں سماجی فاصلہ رکھنے اور ماسک پہنے پر زور دیا جائے گا اور ویکسین کی افادیت اور سیفٹی کو فروغ دیا جائے گا۔
مگر آج کی تاریخ تک امریکا اور برطانیا‘ جہاں کورونا کے کیسز بہت عام ہیں اور یہ اپنی اشتہاری صنعت کے لیے بھی معروف ہیں‘ کورونا کو ابھی ایک لافانی قسم کا نعرہ تخلیق کرنا ہے جس طرح نعروں کی مدد سے دونوں عالمی جنگوں کے دوران کروڑوں ڈالرز کے فنڈ جمع کیے گئے تھے۔ امریکا اور برطانیہ‘ دونوں ممالک اس سلسلے میں بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔ مئی میں برطانیہ نے ’’سٹے الرٹ‘‘ کے اشتہارات چلائے جن پر کوئی خاص ردعمل دیکھنے میں نہیں ا?یا بلکہ بڑی حد تک منفی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت کے حامیوں نے سکار فوک کونسل ٹویٹر پر لکھا کہ حکومت کا مشورہ صائب اور بڑی حد تک عملی ہے کہ ’’چپکے سے ا?ئو، وائرس پر چیخو‘ چلائو اور بھاگ جائو‘‘۔ کورونا کی ویکسین تیار ہونے کے دو مہینے بعد‘ حال ہی میں جب سے یہ ویکسین عام لوگوں کو لگنا شروع ہوئی ہے‘ نیشنل ہیلتھ سروس نے نوے سیکنڈ کا ایک اشتہار چلانا شروع کیا ہے جس میں ایلٹن جان اور مائیکل کین کی خدمات حاصل کی گئی ہیں اور وہ لوگوں کو یہ پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ انہیں لگنے والی کورونا ویکسین بالکل محفوظ ہے۔ امریکا میں ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے جو ’’ایڈ کونسل‘‘ کے نام سے معروف ہے اور میڈیسن ایونیو ٹیلنٹ کے ذریعے حکومت کو اپنی خدمات فراہم کرتی ہے‘ یہ تنظیم آج کل غیر معمولی طور پر مصروف ہے۔ اس تنظیم کو دوسری جنگ عظیم کے دوران بنایا گیا تھا اور ان دنوں اس کے دو نعرے بڑے مقبول ہوئے تھے۔ ایک تھا: Loose lips sink ships اور دوسراتھا: Smokey Bear۔ پچھلے مہینے اس تنظیم نے ویکسین آگاہی مہم کے تحت ایک ٹیگ لائن جاری کی: It’s up to you۔ اسے تین سو میڈیا برانڈز کی مدد سے فیس بک، گوگل اور این بی سی یو/ یونیورسل پر لانچ کیا گیا۔
یہ اشتہار دیکھنے کے بعد انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ مجھے ماسک پہننا چاہئے؛ تاہم یہ امر واضح نہیں ہے کہ یہ مہم کس حد تک کامیاب ہوئی ہے۔ ہیرس پولز میں جن امریکی شہریوں نے بتایا تھا کہ ہم گھر سے نکلتے وقت ہمیشہ ماسک پہنتے ہیں‘ اکتوبر میں ان کی تعداد 72 فیصد تھی‘ جو دسمبر میں کم ہو کر 66 فیصد ہو گئی حالانکہ ان لوگوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھے کو ملا جنہوں نے بتایا کہ ہم کسی نہ کسی ایسے شخص کو ضرور جانتے ہیں جس کی کووڈ کی وجہ سے موت واقع ہوئی یا اسے ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ جان ہاپکنز بلوم برگ ا سکول آف پبلک ہیلتھ بالٹی مور کے پروفیسر الفریڈ سومر کہتے ہیں کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ صحت عامہ کے لیے چلائی جانے والی مہموں کو سابق صدر ٹرمپ، کئی گورنروں اور کئی شہروں کے میئرز نے نقصان پہنچایا تھا کیونکہ وہ ماسک پہننے والوں کی تحقیرکرتے رہتے تھے۔
ان ہوٹلز کی تشہیر کے لیے کام کرنا بھی ایک مشکل اور پیچیدہ مرحلہ ہے۔ کونسل 250 کمیونٹی لیڈرز کے ساتھ کام کرتی ہے جنہیں چیمپئن کہا جاتا ہے۔ پیغام کو رومانین، اردو، پنجابی، پولش، روسی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ کیا گیا تھا اور پھر اسے وٹس ایپ گروپس پر ڈال دیا گیا جنہیں یہ لیڈرز چلاتے ہیں۔ ایک چھیالس سالہ چیمپئن زبیر باوا‘ جو پاکستان میں پیدا ہوئے تھے‘ کہتے ہیں ’’بالمشافہ ملاقاتوں میںبہت سی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ یہاں رہنے والے اکثرلوگوں کو انٹرنیٹ تک رسائی میسر نہیں ہے کیونکہ یہ ان کی استطاعت سے باہر ہے۔ بہت سے لوگ لکھ پڑھ بھی نہیں سکتے‘‘۔ زبیر باوا کو اس بات پر کوئی حیرانی نہیں ہے کہ یہ ا?ئسولیشن ہوٹلز عوام کو اپنی طرف کھینچنے میں ناکام رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے ہم وطنوں کی زبان سے کورونا کے بارے میں کئی من گھڑت باتیں بھی سن رکھی ہیں۔ اپنے والد کو‘ جو نیوہم کے ہی ایک لیڈر ہیں‘ کووڈ کی ویکسین لگوانے کے لیے تیار کرنا مشکل مرحلہ تھا۔ جب وہ ویکسین لگوانے کے لیے ا?مادہ ہو گئے تو پولیس نے ان کی وڈیو اپنے ٹویٹر فیڈ پر ڈال دی تاکہ شک و شبہ کے شکار دوسرے لوگ بھی انہیں دیکھ کر ویکسین لگوانے کے لیے تیار ہو جائیں۔ زبیر باوا کے مطابق‘ میں نے سب سے زیادہ جو بات سنی وہ یہ تھی ’’اگر ا?پ ہسپتال گئے تو وہاں ا?پ کو زہر دے دیا جائے گا۔ وہ ا?پ سے جان چھڑانا چاہتے ہیں‘‘۔
نیویارک میں آئسولیشن پروگرام کی کامیابی کے لیے اعتماد سازی سب سے ضروری ہے۔ اس کا آغاز اپریل میں ہوا تھا جب ہسپتالوں سے لوگوں کو ڈسچارج کیا گیا اور ان کا کورونا ٹیسٹ ابھی منفی نہیں ہوا تھا۔ آج کے دن تک دس ہزار سے زائد افراد اس سروس سے فائدہ اٹھا چکے ہیں اور ہر روز سات سے ا?ٹھ سو افراد چیک ان ہو رہے ہیں۔ نیویارک ہیلتھ اینڈ ہاسپٹلز کی نائب صدر ڈاکٹر ایمنڈا جانسن کہتی ہیں کہ اس پروگرام کی کامیابی میں کافی وقت لگا۔ ہمیں سب سے پہلے لوگوں کے دلوں سے خوف نکالنا پڑا۔ ہمیں لوگوں کو یہ بات سمجھانا پڑی کہ دراصل ا?پ ایک ایسے ہوٹل میں قیام کر یں گے جہاں وائی فائی اور کھانا بھی دستیا ب ہوگا۔ یہاں کوئی ڈاکٹر یا میڈیسن نہیں ہو گی۔ ہمیں یہ بھی بتانا پڑا کہ وہاں ا?پ کو حلال گوشت ملے گا اور ا?پ کو مترجم کی سہولت بھی میسر ہو گی۔ لوگ یہ جاننا چاہتے تھے کہ ہم وہاں محفوظ اور آسائش میں رہیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔