... loading ...
آج انسان جدید ترین ٹیکنالوجی کے باوجود کتنا بے بس ہے کہ جان سے بھی پیارے ان کی آنکھوں کے سامنے مرتے چلے جارہے ہیں وہ ان کی تیمارداری کرنے سے بھی خوفزدہ ہیںکیونکہ اس صدی کی سب سے خوفناک وباء کورونا وائرس تقریبا دنیا بھر میں پھیل چکی ہے ،اس وقت مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ افراد ہونے والی ہے کورونا وائرس کو قابو کرنے کے لیے ہر ملک میں کوششیں جاری ہیں لیکن تاحال اس کی ویکسین ایجادنہیں ہوسکی اس وقت دنیا بھر میں لاک ڈاؤن ہے لوگ گھروں میں قید ہو کر رہ گئے ہیں کورونا وائرس انتہائی تیزی سے پوری دنیا میں پھیل رہاہے ۔ہلاکتوں اور متاثرین کے علاج معالجہ کی درجنوں کہی، ان کہی کہانیاں ہما رے ذہنوںکو متاثرکررہی ہیں کچھ نئے نظریات جنم لے رہے ہیں کچھ کا یہ بھی کہناہے کہ ٹیکنالوجی عذاب بن گئی ہے اس ماحول میں یہ عالمی وباء غربت ،بیروزگاری، مہنگائی پھیلنے سے اربوں لوگوںکے زندگی پر گہرے اثرات مرتب کررہی ہے ،ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ اس وائرس کی وجہ سے لوگوں میں بہت سے نفسیاتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں جس کے سبب نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو نے سے لوگ کورونا فوبیا کا شکار ہوگئے ہیں اور ان میں ڈپریشن, کھانے پینے اور صحت کے دیگر مسائل پیدا ہونایقینی ہے موت کا خوف،دیرتک جاگتے رہنا، بیروزگاری، مسائل کی یلغار اور عمومی حالات کے باعث لوگوں کی نیند بھی بہت زیادہ متاثر ہو رہی ہے، اس وائرس نے چونکہ لوگوں کی زندگیوں کو محدود کر دیا ہے اور ان کی زندگی کے طور طریقے اچانک سے تبدیل ہو جانے کی وجہ سے ان کی نفسیات پر اثر پڑ رہا ہے، یہ ایک قدرتی عمل ہے کہ انسان ایک حد تک کسی بھی چیز کی قوت برداشت ہوتی ہے کسی بھی چیز کی زیادتی اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے، ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ کسی بھی چیز سے مقابلے کے لیے انسان کی ذہنی صحت کا سب سے پہلے بہتر ہونا ضروری ہے. لیکن کورونا کی وجہ سے لوگوں میں نفسیاتی مسائل پیدا ہورہے ہیں اگر لوگوں کے نفسیاتی مسائل اسی طرح پڑھتے رہے تو کورونا پر قابو پانا بہت مشکل ہو جائے گا، لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے سے مل جل نہیں رہے ایک دوسرے سے منقطع ہونے کی وجہ سے ان کی قوت مدافعت پر اثر پڑتا ہے اسی لیے لوگوں کی ذہنی قوت مدافعت بھی بہت کم ہورہی ہے، سماجی فاصلہ مغرب کا رواج ہے اور اس سے ذہنی مسائل بڑھتے ہیں۔
یہ بات یقینی تنہائی سے ذہنی کوفتیں بڑھ رہی ہیں جس کے سبب گھروں میں بند ہونے سے لوگ اندر ہی اندر گھٹ رہے ہیں ان کو چاہیے کے ٹیکنالوجی کے ذریعے آپس میں روابط قائم رکھیں اب یہ بھی سننے میں آرہاہے کہ فائیو جی ٹاورز کی تابکاری رونا وائرس کے پھیلائو کاسبب بن رہی ہے، ان سازشی نظریات نے سوشل میڈیا اور ایپس پر انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کی نئی جنریشن کے متعلق لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کر دیا ہے ،یہی وجہ ہے کہ برطانوی حکومت کو ملک بھر میں فائیو جی روکنے کا حکم دینے کی درخواست پر مبنی ایک آن لائن پٹیشن پر اب تک ایک لاکھ 10 ہزار دستخط کیے جا چکے ہیں اور ایسا کرنے والوں میں کئی مشہور شخصیات بھی شامل ہیں، جنہوں نے اپنے مداحوں سے یہ پٹیشن شیئر بھی کی. اس سائنسی مفروضے کو اس غلط دعوے کی بنیاد بنایا ہے، جس کے مطابق فائیو جی صحت کے لیے خطرہ ہے اور یہ کینسر سے لے کر کورونا وائرس کے پھیلائو کی وجہ ہے، برطانوی نشریاتی ادارے نے ایک رپورٹ میں یہاں تک کہہ دیا ہے کہ فائیو جی ٹاورز سے پیدا ہونے والی تابکاری ماحول میں موجود آکسیجن کھینچ لیتی ہے اور انسانی جسم کو متاثر کرتی ہے اس پٹیشن کو شروع کرنے والے شخص کا نام ڈیلروئے چن ہے جس نے دلائل دیتے ہوئے خبردارکیاہے کہ ہمارا جسم 85 فیصد پانی پر مشتمل ہے اور شارٹ ویو شعاعیں ہمارے فطری نظام میں توڑ پھوڑ کا باعث بنتے ہوئے کینسر اور صحت کے دوسرے مسائل پیدا کرتی ہیںفائیو جی سے متاثر ہونے کی علامات میں سانس کے مسائل، زکام کی علامات مثلاً بخار، سر درد، نمونیا وغیرہ شامل ہیں ان علامات کورونا سے بڑی حدتک مماثلت ہے۔
ٹیلی ویڑن کی مشہور شخصیت اماندہ ہولڈن بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو اس خوف زدہ کرنے والی پٹیشن کو آگے بڑھا رہی ہیں انہوں نے ٹوئٹر پر اپنے 20 لاکھ فالوورز کے ساتھ اسے شیئر بھی کیا.یہ دعویٰ برطانیامیڈیا کو میڈیا ریگولیٹری ادارے اوفکوم سے جاری کی جانے والی تنبیہ کی وجہ بھی بنا ہے وارننگ میں نشریاتی اداروں کو کہا گیا ہے کہ وہ سازشی نظریات کو نہ پھیلائیں کیونکہ ایسا کرنے سے ایک صحت کے بحران کے دوران معلومات کے ذرائع کے حوالے سے لوگوں کے اعتماد میں کمی کا خدشہ ہے کئی سائنس دان فائیو جی ٹیکنالوجی کے حوالے سے اس تشویش کو مسترد کر چکے ہیں ان کے مطابق فور جی اور سیلولر ٹیکنالوجی کی باقی اقسام کی طرح فائیو جی بھی الیکٹرو میگنیٹک شعاعوں کو استعمال کرتی ہے جو تابکاری کی وجہ نہیں یہ بات انتہائی قابل ِ ذکرہے کہ عالمی ادارہ صحت نے گذشہ دو دہائیوں کے دوران کئی بار تحقیق کی گئی کہ کیا موبائل فون انسانی صحت کے لیے خطرہ ہیں یا نہیں لیکن آج تک موبائل فون کے استعمال سے ہونے والے صحت کو لاحق خطرات کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا اب کورونا وائرس سے متعلق فرانسیسی وزیر صحت اور یکجہتی نے اپنی ٹویٹ میں کہا تھا کہ نہیں کوکین کووڈ 19 کے خلاف حفاظت فراہم نہیں کرتی یہ ایک نشہ ہے جو نقصان دہ اور خطرناک اثرات رکھتا ہے. یوٹیوب اور وٹس ایپ سمیت باقی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پھیلائے جانے والی ان غلط خبروں کو ڈبلیو ایچ او کی جانب سے ’’انفو ڈیمک‘‘ قرار دیا جا چکا ہے بہرحال دنیا بھر میں ابھی تک کورونا سے متاثرہ تصدیق شدہ کیسز کی تعداد 10 لاکھ سے زائد ہو چکی ہے جبکہ ایک لاکھ 5ہزار افراد لقمہ ٔ اجل بن چکے ہیںامریکا ،برطانیا اور اٹلی میں ہزا روں شہری ہلاک ہوچکے ہیںیہ ہلاکتیں چین سے بھی بڑھ گئی ہیں صدر ٹرمپ نے خدشہ ظاہرکیاہے کہ امریکا میں ایک لاکھ سے زائدافرادہلاک ہو سکتے ہیں جبکہ پاکستان کے وزیر ِاعظم عمران خان نے کہاہے لاک ڈاؤن کے پوری دنیا پر اثرات پڑ رہے ہیں۔ ہماری معیشت کو بڑا نقصان پہنچا ہے کیونکہ لاک ڈاؤن کے اثرات بہت دیر تک رہیں گے۔ پاکستان نے اپنی عوام کو 8 ارب ڈالر کا پیکج دیا۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ 2 سے 6 مہینے میں کیا ہوگا۔ ہماری طاقت نوجوان آبادی ہے۔ امریکا نے 2200 اور جاپان نے ایک ہزار ارب ڈالر پیکج دیا۔ ہمیں دو ہفتوں میں 144 ارب روپیہ ایک کروڑ 20 لاکھ افراد میں تقسیم کرنا ہے۔ کرونا کے باعث حالات مزید بگڑیں گے اس لیے میں باربار لوگوںکو احتیاط کرنے کا مشورہ دے رہاہوں کیونکہ خدانخواستہ یہ وباء مزید پھیلی تو قابو پانا مشکل ہوسکتاہے بہرحال اس وائرس نے پوری دنیا میں ایک خوف وہرس پھیلارکھاہے جتنے منہ اتنی باتوںکے مصداق یقین سے نہیں کہاجاسکتا کہ کوروناوائرس ہے کیا؟ کچھ لوگ اسے حیاتیاتی ہتھیارقراردے رہے ہیں کچھ کا خیال ہے کہ اٹلی کو ون بیلٹ ، ون روڈ منصوبے میں شامل ہونے کی سزا ملی ، امریکا کے منع کرنے کے باوجود وہ چین کے ساتھ شامل ہوا اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ایران میں چین اگلے پچیس سالوں میں 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جا رہا تھا ، چین اور امریکا کے درمیان اقتصادی جنگ سب جانتے ہیں۔ اس تناظرمیں بیشتر بعض ماہرین بانگ ِ دہل کہہ رہے ہیں کہ اب بھی کسی کو شک ہے کہ کورونا بائیو لاجیکل ہتھیار نہیں ، وہ اپنی عقل کا ماتم کرے صرف آنکھ والا حقائق کو دیکھ سکتا۔ اور کرونا انسانی تاریخ کی بد ترین سازش ہے۔۔ سازشی چائنہ ہو یا امریکا اس کا کھوج لگانا اور سازش کا مقابلہ کرنا بہت ضروری ہے۔۔ علم و تحقیق کی حستجو پیدا کریں تلاش جاری رکھیں حقیقت خود آشکار ہوجائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔