وجود

... loading ...

وجود

بنگلہ دیش : امریکا کے لیے ایک مثال

پیر 22 مارچ 2021 بنگلہ دیش : امریکا کے لیے ایک مثال

(مہمان کالم)

نکولس کرسٹوف

امریکا پر ایک بڑا اور بدنما داغ یہ ہے کہ دنیاکے امیر ترین اور سب سے طاقتور ملک نے بچوں کی غربت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ چند روز قبل صدر جو بائیڈن کی طرف سے منظوری کے بعد 1.9 ٹریلین ڈالر کے ریسکیو پلان کے ذریعے امریکا نے اس داغ کو دھونے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس پیکیج کی تاریخی شقیں وہ ہیں جو بچوں میں غربت میں کمی لانے کا باعث بنیں گی۔ کولمبیا یونیورسٹی کی ایک ا سٹڈی کے مطابق اگر ان اقدامات کو مستقل شکل دے دی جائے تو اس سے بچوں میں پائی جانے والی غربت آدھی رہ جائے گی۔ صدر جو بائیڈن بچوں کے لیے وہی کچھ کر جائیں گے جو کچھ فرینکلن روزویلٹ نے سوشل سکیورٹی کے ذریعے بزرگ شہریوں کیلئے کیا تھا۔ یہ امریکی تاریخ میں ایک انقلاب بھی ہے اور تاخیر سے کیا گیا اعتراف بھی کہ افلاس کے شکار بچوں پر سرمایہ کاری میں ہی سب کا فائدہ ہے۔ اس سے ملنے والے ممکنہ ثمرات کو سمجھنے کے لیے ہمیں دنیا کے دوسرے کونے تک سفر کرنا ہو گا۔

 

بنگلہ دیش کا قیام آج سے پچاس سال قبل عمل میں آیا تھا‘ اس وقت وہاں بھوک کے سوا کچھ نہ تھا۔ ہنری کسنجر نے کبھی اسے ایک ’’باسکٹ کیس‘‘ قرار دیا تھا۔ 1974ء کی قحط سالی کی خوفناک تصاویر نے اس ملک کے مسائل کے لاعلاج ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر دی تھی۔ پھر1991ء میں بنگلہ دیش میں ایک ہولناک سمندری طوفان آیا جس میں ایک لاکھ سے زائد لوگ مارے گئے۔ میں نے اس وقت نیویارک ٹائمز میں ایک آرٹیکل لکھا تھا جس میں اسے بنیادی طور پر ایک بدقسمت ملک قرار دیا تھا۔ میری یہ بات ٹھیک بھی تھی کہ بنگلہ دیش کو صر ف ماحولیاتی تبدیلیوں کا ہی نہیں بلکہ کئی طرح کے سنگین چیلنجز کا سامنا تھا۔ مگر مجموعی طور پر میری ساری تنقید اور مایوسی غلط ثابت ہوئی کیونکہ پچھلے تین عشروں میں بنگلہ دیش نے غیر معمولی ترقی کی ہے۔ معاشی شرح نمو میں مسلسل اضافہ ہوا اور عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق کووڈ سے پہلے مسلسل چار سال تک اس نے سات سے آٹھ فیصد سالانہ شرح سے ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ یہ چین سے بھی زیادہ تیز رفتار ترقی ہے۔ بنگلہ دیش میں اوسط عمر 72 سال ہو گئی ہے جو امریکا کے کئی علاقوں سے بھی بہتر اوسط عمر ہے۔ شاید بنگلہ دیش کو ایک لاعلاج ملک کہا جاتا ہو مگر اب تو یہ دنیا کو سکھاتا ہے کہ ترقی کیسے کرنی ہے۔ بنگلہ دیش کی اس ترقی کا راز کیا ہے؟ وہ ہے تعلیم اور خواتین۔1980ء کی دہائی سے پہلے صرف ایک تہائی بنگلہ دیشی شہری اپنی ایلیمنٹری ا سکول کی تعلیم مکمل کر پاتے تھے۔ خاص طور پر بنگلہ دیشی لڑکیاں تو شاید ہی تعلیم حاصل کرتی تھیں‘ یوں ملکی ترقی میں ان کا حصہ نہ ہونے کے برابر تھا مگر اس کے بعد حکومت اور سماجی تنظیموں نے تعلیم کے فروغ کے لیے کام شروع کر دیا۔ سب سے زیادہ زور خواتین کی تعلیم پر دیا گیا۔ آج بنگلہ دیش کے 98 فیصد بچے اپنی ایلیمنٹری تعلیم مکمل کرتے ہیں۔ ایک ایسا ملک جہاں جینڈر گیپ بہت زیادہ ہے‘ حیران کن بات یہ ہے کہ اب بنگلہ دیشی ا سکولوں میں لڑکوں سے زیادہ تعداد لڑکیوں کی ہے۔ نوبیل پرائز یافتہ بینکر یونس حبیب‘ جنہوں نے بنگلہ دیش میں مائیکرو فنانس متعار ف کرایا تھا‘ نے مجھے بتایا کہ بنگلہ دیش میں جو ڈرامائی تبدیلی رونما ہوئی ہے‘ وہ عورت کا ا سٹیٹس ہے اور یہ غریب ترین خواتین سے شروع ہوئی۔ یونس حبیب گرامین بینک کے بانی ہیں جس نے خواتین کو ورکرز سے بزنس مالکان میں تبدیل کر دیا۔ موبائل فون بیچنے والی ایک لاکھ سے زائد خواتین چار سال میں ’’ٹیلیفون لیڈیز‘‘ بن گئیں جس نے نہ صرف ان کی بلکہ ملک کی معاشی حالت بھی بدل کر رکھ دی۔ چونکہ بنگلہ دیش نے اپنی خواتین کو تعلیم دی اور انہیں بااختیار بنایا تو یہی خواتین بنگلہ دیشی معیشت کا ستون بن گئیں۔ گارمنٹس کی صنعت نے خواتین کو ترقی کے بہتر مواقع فراہم کیے۔ اس وقت آپ نے جو شرٹ پہنی ہوئی ہے‘ ممکن ہے یہ ان خواتین میں سے ہی کسی کے ہاتھ کی بنی ہوئی ہو کیونکہ گارمنٹس میں چین کے بعد بنگلہ دیش دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر بن چکا ہے۔مانا کہ بنگلہ دیشی فیکٹریاں مغربی معیار کے مطابق ان خواتین کو بہت کم معاوضہ دیتی ہیں اور وہاں جنسی ہراسانی اور بدسلوکی کے مسائل بھی موجود ہیں‘ آتشزدگی اور سیفٹی کے مسائل بھی ہیں۔ 2013ء میں ایک فیکٹری میں خوفناک تباہی ہوئی جس میں گیارہ سو سے زائد کارکن ہلاک ہو گئے تھے مگر ورکرز کہتے ہیں کہ چودہ سال کی عمر میں شادی کرنے یا دھان کے کھیتوںمیں کام کرنے سے یہ ملازمت پھر بھی بہتر ہے۔ یونینز اور سو ل سوسائٹی نے بہت دبائو ڈالا اور ورکرز کی سیفٹی کے معاملات میں بہتری لانے میں خاصی کامیابی ہوئی۔ تعلیم یافتہ خواتین کو غیر منافع بخش تنظیموں مثلاً گرامین بینک وغیرہ میں بھی خالی اسامیوں پر کام کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے اپنے بچوں کو ویکسین لگوا لی۔ جگہ جگہ ٹائلٹس بنوائے۔ دیہاتیوں کو لکھنا پڑھنا سکھایا۔ خواتین کو فیملی پلاننگ سکھائی اور کم عمری کی شادیوں کی حوصلہ شکنی کی۔ بنگلہ دیش کے پاس بڑے بڑے سیاسی لیڈر نہیں ہیں مگر اس نے انسانی وسائل میں جس طرح سرمایہ کاری کی ہے‘ اس نے ان کے معاشرے میں ایک تحرک پیدا کیا ہے جس سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

 

عالمی بینک بنگلہ دیش کو کامیابی کی ایک لازوال کہانی قرار دیتا ہے جہاں ڈھائی کروڑ سے زائد افراد کو خط غربت سے نکالنے میں صرف پندرہ سال لگے۔ 1991ء کے بعد بچوں میں غذائیت کی کمی کا مسئلہ صرف نصف رہ گیا اور بنگلہ دیش اب اس میدان میں بھارت سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ دنیا اس کامیابی پر حیران ہے۔ آبادی میں اضافہ ساری کامیابیوں پر پانی پھیر دیتا ہے مگر بنگلہ دیشی عورت جو پہلے اوسطاً سات بچے پیدا کرتی تھی‘ اب صرف دو بچے پیدا کر رہی ہے۔ مختصر یہ کہ بنگلہ دیش نے اپنے سب سے کم استعمال شدہ اثاثوں یعنی اپنے غریب طبقے میں سرمایہ کاری کی ہے۔ اس دوران حکومت کا سارا فوکس پسماندہ اور سب سے کم پیداواری شعبوں پر رہا کیونکہ وہیں سے سب سے اچھے نتائج برآمد ہو سکتے تھے۔ یہی سب کچھ امریکا پر بھی صادق آتا ہے۔
ہم اپنے ارب پتی افراد سے مزید پیداوار نہیں لے سکتے مگر ہمیں بہت زیادہ فوائد حاصل ہو سکتے ہیں بشرطیکہ ہم اپنے سات میں سے ایک بچے کی مدد کریں جو ہائی سکول سے اپنی گریجویشن مکمل نہیں کر سکتا۔ یہی وہ اقدام ہے جس کے ذریعے صدر جو بائیڈن بچوں میں غربت اور افلاس ختم کرنا چاہتے ہیں اور اس کا مرکزی نکتہ ریفنڈ ایبل چائلڈ ٹیکس کریڈٹ ہے جسے مستقل کر دینا چاہئے۔ بنگلہ دیش دنیا کو یہ سکھاتا ہے کہ ہمیں پسماندہ بچوں پر محض خدا ترسی کرتے ہوئے ہی سرمایہ کاری نہیں کرنی چاہئے بلکہ اپنے ملک کی ترقی کے خیال سے یہ سب کچھ کرنے کی ضرور ت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر