... loading ...
دوستو، گیلپ اینڈ گیلانی سے وابستہ بلال گیلانی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں حجاموں کی ڈیڑھ لاکھ دکانیں ہیں۔بلال گیلانی نے ٹوئٹر پر اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پاکستان میں حجاموں کی مجموعی طور پر ڈیڑھ لاکھ دکانیں ہیں۔ اگر ایک دکان پر فی گاہک 100 روپے وصول کیے جاتے ہیں اور روزانہ 15 سے 20 گاہک ڈیل کیے جاتے ہیں تو اس دکان کی سیل تقریباً دو ہزار روپے روزانہ ہوگی۔ اس حساب سے ایک حجام کم از کم 60 ہزار روپے ماہانہ کما رہا ہے جبکہ ڈیڑھ لاکھ حجام نو ارب روپے ماہانہ کماتے ہیں۔ کالم کی شروعات سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ آج ہم اپنے معاشرے کی ایسی شخصیت سے متعلق بات کرینگے جسے حجام یا نائی کہا جاتا ہے۔ جو بال کاٹنے اور شیو کرنے کے علاوہ بچوں کے ختنے بھی کرتا ہے اور تقریبات پرپر دیگیں بھی پکاتا ہے۔ جبکہ ہمارے دیہات میں یہ ہر فن مولا سمجھا جاتا ہے اور کسی بھی گاؤں کی سماجی زندگی میں خصوصی کردار ادا کرتا ہے۔لوگوں کی حجامت کرنے کے علاوہ بچے کی پیدائش پر مبارک دینا اور گاؤں کے لوگوں کو بچے کے والدین کی طرف سے مٹھائی تقسیم کرنا، بچے کی ٹنڈ کرنا، کسی کے ہاں فو تیتگی پر مردے کو نہلانا، شادی بیاہ پر کھانے پکانا اور اس نوعیت کے دیگر کام کرتا ہے۔
معروف مزاح نگار ڈاکٹر اشفاق ورک نائی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ۔۔ہر دیہہ میں پایا جانے والا نائی (حجام) کبھی ایک ادارہ ہوا کرتا تھا۔ وہ چلتا پھرتا پورے گاؤں کے بال بچوں کے بال تراشتا، بالغوں کی شیو بناتا، ناخن اتارنے کے لیے نھیرنا ہر وقت جیب یا رچھانی میں رکھتا۔ (مضبوط بیلٹ کی مدد سے زنانہ پرس کی طرح بازو میں لٹکتا چمڑے کا یہ چھوٹا سا تھیلا ایک دو مَیلے کنگھوں، نوکیلی قینچیوں، ایک عدد دھندلے سے شیشے، قسم قسم کے کثیر المقاصد اُستروں، اوزار تیز کرنے والی وٹی (سِل)، کسمیلے رنگ کے سال ہا سال چلنے والے کپڑے (دیسی ایپرن) ٹنڈ کرنے والی ٹوٹے منکے والی مشینوں، پھٹکری کی ڈھیلیوں، داڑھی اور گردن پہ وَتر لگانے کے لیے کپ سائز کے چھوٹے سے بالٹی نما برتن سے لیس یہ بیگ گاؤں کی زبان میں رچھانی کہلاتا تھا) اس کے ساتھ وہ جراحت کے فن سے بھی بخوبی واقف ہوتا۔ شادی، بیاہ، ختنے ہوں یا قُل ساتواں، چالیسواں، پکوائی کا کام بھی اسی کے ذمے ہوتا۔ اس کی خاتون (نائن) اپنے زمانے کی مشّاق مشاطہ (بیوٹیشن) ہوتی، اور شوقین خواتین کی کنگھی پٹی، سَک سُرمہ، مساج اور بال گوندھنے کا فریضہ مہارت سے انجام دیتی۔ برات کے ساتھ بِد (ڈرائی فروٹ وغیرہ) اٹھا کے لے جانے اور شادی کے دونوں فریقوں میں ملنی کرانا بھی اس کے اہم فرائض میں شامل تھا۔ معاوضہ ان ہنر کاروں کا بھی ششماہی فصلوں پہ اناج ہی کی صورت ادا ہوتا۔ شادیوں، بیاہوں پر کچھ لاگ (انعام کی رقم) البتہ اضافی مل جاتے۔
کہتے ہیں کہ کسی گاؤں میں ایک گُل نامی نائی بہت مشہور تھا۔ ہر خاص و عام اس کی دکان پر حجامت اور بال بنوانے آتا تھا۔ گاؤں کا خان بھی مذکورہ نائی کی خدمات حاصل کرنے مہینے میں اک آدھ بار حاضری دیا کرتا تھا۔ دیگر نائیوں کی طرح موصوف بھی کسی کی حجامت بناتے وقت کوئی نہ کوئی کہانی شروع کر دیتا اور جیسے ہی کہانی ختم ہوتی، حجامت یا بال بھی تیار ہوتے۔ ایسے میں ایک دن صبح سویرے گاؤں کا خان دکان پر حاضری دینے آیا۔ اس وقت دکان پر خان اور مذکورہ نائی کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ حجامت کے بعد نائی حسبِ معمول ناک کے بالوں کی اپنے مخصوص انداز سے صفائی کرنے لگا، ایسے میں بدقسمتی سے جیسے ہی ناک کے ایک لمبے بال کو نائی نے زور سے کھینچا، تو خان صاحب کی ہوا نکل گئی۔ پشتون چوں کہ اس عمل کو معیوب سمجھتے ہیں، اس لیے خان نے فارغ ہوتے ہی نائی کو کچھ روپے دیے اور اسے تاکید کی کہ گاؤں میں کسی کو اس بات کا پتا نہ چلے۔ اس نے روپے لیے اور خان صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔۔نہیں جی! ایسے کیسے ہوسکتا ہے۔ آپ ہمارے مائی باپ ہیں۔ بے فکر رہیں!کہتے ہیں کہ اُس روز کے بعد جب بھی مذکورہ نائی کی کمائی معمول سے کم ہوتی، یا کوئی ضرورت پیش آتی،تو وہ خان کی خدمت میں سلام کہنے ضرور حاضر ہوا کرتا۔ خان ہر بار انتہائی شرمندگی سے نائی کا سامنا کرتا اور رخصتی کے وقت مخصوص رقم اُسے تھما کر ایک ہی تلقین کرتا کہ۔۔امید ہے آپ میری لاج رکھیں گے!۔۔ نائی بھی رٹا رٹایا جواب منہ پہ دے مارتا۔۔نہیں جی! ایسے کیسے ہوسکتا ہے۔ آپ ہمارے مائی باپ ہیں۔ بے فکر رہیں!۔۔کہتے ہیں کہ ایک عرصہ تک تو نائی خود ’’سلام‘‘ کہنے حاضر ہوا کرتا، پھر آہستہ آہستہ نائی کا بڑا بیٹا اور اس کا بھائی بھی خان کی خدمت میں بلاناغہ ’’سلام‘‘ کہنے حاضر ہونا شروع ہوئے۔ جب ہر مہینا ایک دو نہیں بلکہ تین تین بن بلائے مہمان، خان کے حجرے پر بلاناغہ حاضری دیتے اور اس بیچارے کی جیب پر ہاتھ صاف کرتے، تو وہ بھی انسان تھا، ایک دن اس کا پارہ چڑھ گیا اور نائی کو بھری محفل میں پکار کر کہنے لگا: ’’بھئی، آپ لوگ کچھ اور کام بھی کرتے ہیں، یا اُسی ایک’’ ہوا‘‘ ہی کو کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔۔واقعہ کی دُم: جب سرکاری خزانے میں کمی ہوتو پیٹرولیم مصنوعات مہنگی کردو یا عوام پر نئے ٹیکس عائد کردو۔۔اگر کسی نے یہ مطلب اخذ کیا ہے تو اس کی مرضی۔۔ اب کسی کی سوچ پر تو پابندی عائد نہیں کرسکتے۔۔
باباجی کو گنجا دیکھا تو ہمیں حیرت کا جھٹکا لگا۔۔ ہم نے وجہ دریافت کی تو کہنے لگے۔۔ نائی کے پاس گیا تھا، محلے کا نائی ستر روپے کے بال کاٹ دیتا ہے ،یہ سستا پڑتا ہے اسی لیے یہاں سے بال کٹواتا ہوں، نائی کو کہا کہ بال چھوٹے چھوٹے رکھنا۔۔ نائی نے بال چھوٹے چھوٹے کردیئے۔۔ جب نائی کوسوکا نوٹ دیا تو کہنے لگا۔۔ تیس روپے کھلے نہیں ہیں۔۔میں نے تیس روپے میں ٹنڈ ہی کرالی۔۔چودھری صاحب نائی کے پاس شیو بنوانے گئے اور بولے میرے گالوں پر گڑھے ہیں جس کی وجہ سے شیو ٹھیک نہیں بنتی، بال چھوٹ جاتے ہیں۔۔نائی نے دراز سے شیشے کا بنٹا نکالا اور کہا اسے دانتوں کے درمیان گال کی طرف دبا لو۔۔چودھری صاحب نے ایسا ہی کیا. ایک طرف شیو بننے کے بعد بنٹا دوسری گال کی طرف کرتے ہوئے چودھری صاحب نے نائی سے شک کا اظہار کیا۔۔اگر یہ بنٹا پیٹ میں چلا گیا تو؟ ۔۔نائی نے بڑے آرام سے جواب دیا۔۔تو کیا!کل واپس کر دینا، جیسے دوسرے لوگ واپس کر جاتے ہے ”!!!!!!۔۔۔نجانے کیوں چوہدری صاحب کو اس وقت سے اُلٹیاں لگی ہوئی ہیں۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔زندگی مذاق بن چکی ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اس مذاق پر ہنسی بھی نہیں آتی۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔