وجود

... loading ...

وجود

اپوزیشن اتحاد میں دراڑ

هفته 20 مارچ 2021 اپوزیشن اتحاد میں دراڑ

سولہ مارچ کے پی ڈی ایم اجلاس میں جس طرح اپوزیشن رہنمائوں نے ایک دوسر ے پرطنزکے نشتر چلائے گئے اور طعنے بازی کی وہ تعجب کی بات نہیں کیونکہ حکومتی اتحاد کی طر ح اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتوں کے مفادات ایک نہیں مختلف ہیں اسی لیے وقفے وقفے سے بدمزگی کے واقعات رونما ہوتے ہیں جس سے اتحاد کی بجائے رسہ کشی کا گمان ہوتا ہے اسی بناپرنہ تو حکومتی اتحاد اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکا ہے اور نہ ہی اپوزیشن منزلِ مقصود پر پہنچ سکی ہے اہداف اور منزل کے مخالف چلنے میں کیا رمزپوشیدہ ہے شاید وضاحت کے لیے کسی کے پاس نہ تو وقت ہے اور نہ الفاظ ہیں پھربھی تصور کر لیناکہ جو کہا جائے گا لوگ آنکھیں بند کرکے یقین کر لیں گے درست نہیں سچ تو یہ ہے کہ قول وفعل کے تضاد سے سیاستدانوں کی ساکھ متاثر ہورہی ہے گھسیٹنے ،پیٹ پھاڑنے اور ملک لوٹنے والی فلمیں اسی بناپرفلاپ ہوئیں اورپھرمیں اِن کو رلائوں گا باکس آفس پر کامیاب جارہی ہے یہ روش اپناکر جمہوریت ۔ملک یا قوم کی خدمت نہیں ہوسکتی حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد میں دراڑ کے بعد یہ تاثر مزید پختہ ہواہے کہ حکومت کو اصل خطرہ اپوزیشن سے نہیں بلکہ مہنگائی اور بے روزگاری سے ہے اپوزیشن اجلاسوں کی گفتگو اور اہم نکات کا افشا ہونا ثابت کرتا ہے کہ کچھ رہنما سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایسا کررہے ہیں ممکن ہے اِس طر ح شاید اِداروں سے اپنے خراب تعلقات درست کرنا چاہتے ہوں لیکن یادرکھنے والی بات یہ ہے کہ عوامی تائید کے بغیر سیاسی کامیابیاں نہیں ملتی جس کی اہم مثال اصغر خاں ہیں جو قریبی تعلق کے باوجود سیاسی مقبولیت سے محروم رہے ۔
شریف خاندان ابتلا کا شکار ہے لیکن نوازشریف ملک میں آکر جماعت کی قیادت کرنے سے گریزاں ہیںوہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح دوسری جماعتیں اُن کے حصے کی لڑائی لڑیں اور اقتدار دلانے میں مددکریں جس کے لیے مولانا فضل الرحمٰن ،اچکزئی اور اسفند یارولی جیسے لوگ تو آمادہ وتیار ہیں کیونکہ اُن کا اور نوازشریف کا بیانیہ ایک ہے مولانا کے پاس مذہب کا کارڈ ہے جبکہ دیگر قوم پرستی کے علمبردار ہیں یہ تمام سیاست میں اِداروں کی مداخلت پر شکوہ کناں ہیں اور غم و غصہ د کھا رہے ہیں یہ سب2018کے عام انتخابات سے پہلے بھی سول بالادستی کے علمبردار توہیں مگر اِس حقیقت کو جھٹلانا ممکن نہیں کہ جب بھی کسی کوضرورت محسوس ہوئی کندھا پیش کر نے سے نہیںہچکچائے اور نہ ہی استعمال ہونے میں دیر کی ہے جس کی مثال عسکری قیادت کی مدت میں اضافے کی غیر مشروط تائید اور حکومت سے بڑھ چڑھ کر حمایت ہے حالانکہ پرویزمشرف نے جب بطور صدر پی پی اور مسلم لیگ ن کے وزراسے حلف لیا تو ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے وزرانے بازئوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر حلف اُٹھایا موجودہ عسکری قیادت کوبرقرار رکھنے میں کیا حکمت ہے آج تک شریف خاندان یا اُن کے ہمرکاب شخصیات قابلِ قبول وضاحت نہیں کرسکے۔

پی پی کی پالیسی صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کے مصداق مُبہم ہے وہ اپوزیشن اتحاد کا حصہ ہوکربھی حکومت سے اِتنا بگاڑ نہیں چاہتی جس سے سندھ کی صوبائی حکومت سے ہاتھ دھوناپڑیں ،اسی لیے حکومت کی مخالفت کے باجود نرم گوشہ بھی دکھاتی ہے شریف خاندان کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی مخالفت کا تاثر دیتی ہے وجہ شریف خاندان کی طرف سے بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف مُہم ہے اُسے یقین ہے کہ نوازشریف کی دوبارہ سیاست میں اِنٹری پی پی کے تعاون کی مرہونِ منت ہے رچرڈ بائوچر کی تجویز پر صاد کر تے ہوئے بے نظیر بھٹو اگر وطن واپس آنے پر اصرار اور نوازشریف کوبیرونِ ملک رکھنے کی مخالفت نہ کرتیں تو آج شریف خاندان ملک میں اہم حیثیت کا مالک نہ ہوتا، پی پی قیادت کو یہ بھی شکوہ ہے کہ شریف خاندان نے نیکی کا صلہ نہیں دیاکبھی کالاکوٹ پہن کرپی پی حکومت کے خلاف سپریم کورٹ گئے اور اینٹ سے اینٹ بجانے کی بڑھک لگانے پرنوازشریف نے آصف زرداری سے طے شدہ ملاقات ہی منسوخ کر دی اِس لیے اب ساتھ چل کرپی پی جڑیں کاٹنے کی کوشش کر رہی ہے ڈومیسائل کی بات کرنا اور تحریک کے لیے جیل جانے کا خدشہ اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں مقصد تحریک کی کامیاب ہونے کی صورت میں شریف خاندان سیاسی فوائد نہ لے سکے استعفے دینے اور لانگ مارچ کے پی ڈی ایم کے فیصلوں کی مخالفت میں یہی رازہے ،مریم نوازکا بے نظیر بھٹوکی قبرپر پھول چڑھانااوریوسف رضا گیلانی کے سینٹر بننے پر ن لیگ کی طرف سے مٹھائیاں تقسیم کرنے پر بھی پی پی قیادت کادل نہیں پسیجابلکہ مریم نواز کی طرف سے بختاوراورآصفہ کی طرح خودکوبیٹی کہنے جیسی بے چارگی و بے بسی دکھانے پر آصف زرداری کا خیال ہے کہ اِس طرح شریف خاندان کے ووٹرکو بدظن کیا جاسکتا ہے ۔

مولانا فضل الرحمٰن کی پریشانی قابلِ فہم ہے وہ اپنی سیاسی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزررہے ہیں پہلی بار سیاسی میدان میں عضومعطل ہیں حالانکہ اُنھیں سیاسی دائو پیج کا خوب تجربہ ہے ،بے نظیر بھٹو کے مخالف فتویٰ دینے کے باجود جیت پر حکومتی اتحاد کا حصہ بننے میں تاخیر نہیں کرتے اور خاتون وزیرِ اعظم کی مداح سرائی میں بھی وسعتِ قلب کا مظاہرہ دکھاتے ہیں اگر نوازشریف اقتدار آئیں تومولانا ناطہ اُستوار کرنے میں قباحت محسوس نہیں کرتے ایسی چابک دستی اور مہارت سے دیگر سیاستدان محروم ہیں لیکن عمران خان نے سابق ادوار کے بااختیارلوگوں کو صرف بے اختیار ہی نہیں کیا بلکہ دربدر کی خاک چھاننے پر مجبور کر دیاہے مزیدستم یہ کہ ہر دور میں اہم مقام کے حامل مولانا پر بھی خزاں کا موسم ہے خزاں کے پت جھڑ کی طرح اُن کی جماعت کے کئی اہم رہنما بھی سیاسی داغِ مفارقت دینے لگے ہیں یہ ایسا نقصان ہے جس سے وہ پہلے اپنی سیاسی زندگی میں کبھی دوچار نہیں ہوئے اسی لیے فوری ایسے بھرپورلانگ مارچ کے متمنی ہیں جس سے حکومت ہل کررہ جائے ساتھ ہی زوردار درھرنا دیکر بے بس کرنے اور پھر استعفوں کے آپشن کا دھماکہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ پہ درپہ دھچکوں سے سنبھل نہ سکے اور حکومت عام انتخابات کی راہ اپنانے پر مجبور ہوجائے لیکن شریف خاندان اور مولانا کوادراک کرنا چاہیے کہ غلطیاں کرنے منزل کا حصول ناممکن ہے پی ڈی ایم میں دوتین جماعتیں ہی پارلیمانی حثیت کی حامل ہیںاگر پی پی راہیں جُداکرلیتی ہے تو استعفوں آپشن غیر موثر ہوجائے گانیز سندھ کی صوبائی حکومت کے وسائل بھی نہیں مل سکیں گے ۔

پی ڈی ایم کی بڑی غلطی سیاسی لڑائی میں اِداروں کو گھسیٹنے کی کوشش ہے حالانکہ سیاسی لڑائی سیاستدانوں تک محدود رکھی جاتی تو حکومت کی ناقص کارکردگی کی بناپر اب تک حالات بہت مختلف ہوچکے ہوتے اور تبدیلی کی راہ ہموار ہوچکی ہوتی مگر اسٹیبلشمنٹ کواپنامخالف اور عمران خان کا حمایتی قرار دے کرپی ڈی ایم نے حکمرانوں کو مضبوط بنادیا ہے حکومت نے بھی بڑی مہارت سے اپوزیشن کے پھیلائے تاثر کو تقویت دی ہے کہ اِدارے عمران خان کے ساتھ اور اپوزیشن اتحاد کے مخالف ہیں حالانکہ عمران خان اور اُن کے حمایتیوں کو آج تک یہ یقین نہیں کہ وہ حکومت میں ہیں یہ کبھی دھاندلی کا رونا روتے ہیں اور کبھی الیکشن کمیشن سے استعفے کا مطالبہ کرتے ہیں جنھیں اپنی مقتدرحیثیت کااب تک یقین نہیں آسکا وہ کتنی ذہانت کے مالک ہوسکتے ہیں ؟ سمجھنا بھلا کوئی مشکل بات ہے اِس لیے اپوزیشن اتحادکوٹھنڈے دل سے سوچ کر غلطیوںپرمُصر ہونے کی بجائے تبدیلی کے لیے ذیادہ سے ذیادہ حمایت حاصل کرنی چاہیے اِس طرح اپوزیشن اتحاد کی دراڑیں بھی ختم ہوںگی حریف بڑھانے کی بجائے کم ہوں گے توبات بنے گی حریف بڑھانے سے مشکلات میں اضافہ ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر