... loading ...
سولہ مارچ کے پی ڈی ایم اجلاس میں جس طرح اپوزیشن رہنمائوں نے ایک دوسر ے پرطنزکے نشتر چلائے گئے اور طعنے بازی کی وہ تعجب کی بات نہیں کیونکہ حکومتی اتحاد کی طر ح اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتوں کے مفادات ایک نہیں مختلف ہیں اسی لیے وقفے وقفے سے بدمزگی کے واقعات رونما ہوتے ہیں جس سے اتحاد کی بجائے رسہ کشی کا گمان ہوتا ہے اسی بناپرنہ تو حکومتی اتحاد اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکا ہے اور نہ ہی اپوزیشن منزلِ مقصود پر پہنچ سکی ہے اہداف اور منزل کے مخالف چلنے میں کیا رمزپوشیدہ ہے شاید وضاحت کے لیے کسی کے پاس نہ تو وقت ہے اور نہ الفاظ ہیں پھربھی تصور کر لیناکہ جو کہا جائے گا لوگ آنکھیں بند کرکے یقین کر لیں گے درست نہیں سچ تو یہ ہے کہ قول وفعل کے تضاد سے سیاستدانوں کی ساکھ متاثر ہورہی ہے گھسیٹنے ،پیٹ پھاڑنے اور ملک لوٹنے والی فلمیں اسی بناپرفلاپ ہوئیں اورپھرمیں اِن کو رلائوں گا باکس آفس پر کامیاب جارہی ہے یہ روش اپناکر جمہوریت ۔ملک یا قوم کی خدمت نہیں ہوسکتی حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد میں دراڑ کے بعد یہ تاثر مزید پختہ ہواہے کہ حکومت کو اصل خطرہ اپوزیشن سے نہیں بلکہ مہنگائی اور بے روزگاری سے ہے اپوزیشن اجلاسوں کی گفتگو اور اہم نکات کا افشا ہونا ثابت کرتا ہے کہ کچھ رہنما سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایسا کررہے ہیں ممکن ہے اِس طر ح شاید اِداروں سے اپنے خراب تعلقات درست کرنا چاہتے ہوں لیکن یادرکھنے والی بات یہ ہے کہ عوامی تائید کے بغیر سیاسی کامیابیاں نہیں ملتی جس کی اہم مثال اصغر خاں ہیں جو قریبی تعلق کے باوجود سیاسی مقبولیت سے محروم رہے ۔
شریف خاندان ابتلا کا شکار ہے لیکن نوازشریف ملک میں آکر جماعت کی قیادت کرنے سے گریزاں ہیںوہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح دوسری جماعتیں اُن کے حصے کی لڑائی لڑیں اور اقتدار دلانے میں مددکریں جس کے لیے مولانا فضل الرحمٰن ،اچکزئی اور اسفند یارولی جیسے لوگ تو آمادہ وتیار ہیں کیونکہ اُن کا اور نوازشریف کا بیانیہ ایک ہے مولانا کے پاس مذہب کا کارڈ ہے جبکہ دیگر قوم پرستی کے علمبردار ہیں یہ تمام سیاست میں اِداروں کی مداخلت پر شکوہ کناں ہیں اور غم و غصہ د کھا رہے ہیں یہ سب2018کے عام انتخابات سے پہلے بھی سول بالادستی کے علمبردار توہیں مگر اِس حقیقت کو جھٹلانا ممکن نہیں کہ جب بھی کسی کوضرورت محسوس ہوئی کندھا پیش کر نے سے نہیںہچکچائے اور نہ ہی استعمال ہونے میں دیر کی ہے جس کی مثال عسکری قیادت کی مدت میں اضافے کی غیر مشروط تائید اور حکومت سے بڑھ چڑھ کر حمایت ہے حالانکہ پرویزمشرف نے جب بطور صدر پی پی اور مسلم لیگ ن کے وزراسے حلف لیا تو ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے وزرانے بازئوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر حلف اُٹھایا موجودہ عسکری قیادت کوبرقرار رکھنے میں کیا حکمت ہے آج تک شریف خاندان یا اُن کے ہمرکاب شخصیات قابلِ قبول وضاحت نہیں کرسکے۔
پی پی کی پالیسی صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کے مصداق مُبہم ہے وہ اپوزیشن اتحاد کا حصہ ہوکربھی حکومت سے اِتنا بگاڑ نہیں چاہتی جس سے سندھ کی صوبائی حکومت سے ہاتھ دھوناپڑیں ،اسی لیے حکومت کی مخالفت کے باجود نرم گوشہ بھی دکھاتی ہے شریف خاندان کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی مخالفت کا تاثر دیتی ہے وجہ شریف خاندان کی طرف سے بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف مُہم ہے اُسے یقین ہے کہ نوازشریف کی دوبارہ سیاست میں اِنٹری پی پی کے تعاون کی مرہونِ منت ہے رچرڈ بائوچر کی تجویز پر صاد کر تے ہوئے بے نظیر بھٹو اگر وطن واپس آنے پر اصرار اور نوازشریف کوبیرونِ ملک رکھنے کی مخالفت نہ کرتیں تو آج شریف خاندان ملک میں اہم حیثیت کا مالک نہ ہوتا، پی پی قیادت کو یہ بھی شکوہ ہے کہ شریف خاندان نے نیکی کا صلہ نہیں دیاکبھی کالاکوٹ پہن کرپی پی حکومت کے خلاف سپریم کورٹ گئے اور اینٹ سے اینٹ بجانے کی بڑھک لگانے پرنوازشریف نے آصف زرداری سے طے شدہ ملاقات ہی منسوخ کر دی اِس لیے اب ساتھ چل کرپی پی جڑیں کاٹنے کی کوشش کر رہی ہے ڈومیسائل کی بات کرنا اور تحریک کے لیے جیل جانے کا خدشہ اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں مقصد تحریک کی کامیاب ہونے کی صورت میں شریف خاندان سیاسی فوائد نہ لے سکے استعفے دینے اور لانگ مارچ کے پی ڈی ایم کے فیصلوں کی مخالفت میں یہی رازہے ،مریم نوازکا بے نظیر بھٹوکی قبرپر پھول چڑھانااوریوسف رضا گیلانی کے سینٹر بننے پر ن لیگ کی طرف سے مٹھائیاں تقسیم کرنے پر بھی پی پی قیادت کادل نہیں پسیجابلکہ مریم نواز کی طرف سے بختاوراورآصفہ کی طرح خودکوبیٹی کہنے جیسی بے چارگی و بے بسی دکھانے پر آصف زرداری کا خیال ہے کہ اِس طرح شریف خاندان کے ووٹرکو بدظن کیا جاسکتا ہے ۔
مولانا فضل الرحمٰن کی پریشانی قابلِ فہم ہے وہ اپنی سیاسی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزررہے ہیں پہلی بار سیاسی میدان میں عضومعطل ہیں حالانکہ اُنھیں سیاسی دائو پیج کا خوب تجربہ ہے ،بے نظیر بھٹو کے مخالف فتویٰ دینے کے باجود جیت پر حکومتی اتحاد کا حصہ بننے میں تاخیر نہیں کرتے اور خاتون وزیرِ اعظم کی مداح سرائی میں بھی وسعتِ قلب کا مظاہرہ دکھاتے ہیں اگر نوازشریف اقتدار آئیں تومولانا ناطہ اُستوار کرنے میں قباحت محسوس نہیں کرتے ایسی چابک دستی اور مہارت سے دیگر سیاستدان محروم ہیں لیکن عمران خان نے سابق ادوار کے بااختیارلوگوں کو صرف بے اختیار ہی نہیں کیا بلکہ دربدر کی خاک چھاننے پر مجبور کر دیاہے مزیدستم یہ کہ ہر دور میں اہم مقام کے حامل مولانا پر بھی خزاں کا موسم ہے خزاں کے پت جھڑ کی طرح اُن کی جماعت کے کئی اہم رہنما بھی سیاسی داغِ مفارقت دینے لگے ہیں یہ ایسا نقصان ہے جس سے وہ پہلے اپنی سیاسی زندگی میں کبھی دوچار نہیں ہوئے اسی لیے فوری ایسے بھرپورلانگ مارچ کے متمنی ہیں جس سے حکومت ہل کررہ جائے ساتھ ہی زوردار درھرنا دیکر بے بس کرنے اور پھر استعفوں کے آپشن کا دھماکہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ پہ درپہ دھچکوں سے سنبھل نہ سکے اور حکومت عام انتخابات کی راہ اپنانے پر مجبور ہوجائے لیکن شریف خاندان اور مولانا کوادراک کرنا چاہیے کہ غلطیاں کرنے منزل کا حصول ناممکن ہے پی ڈی ایم میں دوتین جماعتیں ہی پارلیمانی حثیت کی حامل ہیںاگر پی پی راہیں جُداکرلیتی ہے تو استعفوں آپشن غیر موثر ہوجائے گانیز سندھ کی صوبائی حکومت کے وسائل بھی نہیں مل سکیں گے ۔
پی ڈی ایم کی بڑی غلطی سیاسی لڑائی میں اِداروں کو گھسیٹنے کی کوشش ہے حالانکہ سیاسی لڑائی سیاستدانوں تک محدود رکھی جاتی تو حکومت کی ناقص کارکردگی کی بناپر اب تک حالات بہت مختلف ہوچکے ہوتے اور تبدیلی کی راہ ہموار ہوچکی ہوتی مگر اسٹیبلشمنٹ کواپنامخالف اور عمران خان کا حمایتی قرار دے کرپی ڈی ایم نے حکمرانوں کو مضبوط بنادیا ہے حکومت نے بھی بڑی مہارت سے اپوزیشن کے پھیلائے تاثر کو تقویت دی ہے کہ اِدارے عمران خان کے ساتھ اور اپوزیشن اتحاد کے مخالف ہیں حالانکہ عمران خان اور اُن کے حمایتیوں کو آج تک یہ یقین نہیں کہ وہ حکومت میں ہیں یہ کبھی دھاندلی کا رونا روتے ہیں اور کبھی الیکشن کمیشن سے استعفے کا مطالبہ کرتے ہیں جنھیں اپنی مقتدرحیثیت کااب تک یقین نہیں آسکا وہ کتنی ذہانت کے مالک ہوسکتے ہیں ؟ سمجھنا بھلا کوئی مشکل بات ہے اِس لیے اپوزیشن اتحادکوٹھنڈے دل سے سوچ کر غلطیوںپرمُصر ہونے کی بجائے تبدیلی کے لیے ذیادہ سے ذیادہ حمایت حاصل کرنی چاہیے اِس طرح اپوزیشن اتحاد کی دراڑیں بھی ختم ہوںگی حریف بڑھانے کی بجائے کم ہوں گے توبات بنے گی حریف بڑھانے سے مشکلات میں اضافہ ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔