وجود

... loading ...

وجود

صولی سیاست کے نام پر بے اصولی

بدھ 17 مارچ 2021 صولی سیاست کے نام پر بے اصولی

ا

سینیٹ کے ممبران اور چیئرمین کے انتخاب میں اپوزیشن اور حکومت نے جورویہ اپنایا وہ نہ تو اصولی اور اخلاقی لحاظ سے درست ہے اور نہ ہی جمہوری ہے بلکہ مفاد پرستی کی بدترین مثال ہے اِس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت مسلسل دبائو کا شکار رہی تبھی حیلے بہانوں سے افہام وتفہیم کے لیے کوشاں رہی لیکن اپوزیشن نے جارحانہ رویہ اپناتے ہوئے اوپن بیلٹنگ کی حکومتی تجاویز رَد کردیں کیونکہ اُسے زعم تھا کہ صاحبِ ثروت افرادکو ٹکٹ دینے سے حزبِ اقتدار کے ممبرانِ صوبائی اسمبلی کے ووٹ مل جائیں گے جبکہ حکومت کو خدشہ رہا کہ اُس کے ممبران مالی مفاد کے بدلے ووٹ بیچ سکتے ہیں اِسی لیے خفیہ ووٹ کے طریقہ کاربدلناچاہا لیکن دائو کے لیے تاک میں بیٹھی اپوزیشن نے ایک نہ چلنے دی اور بڑھا دستِ تعاون پائے حقارت سے جھٹک دیا پھر بھی دائو نہ لگ سکا البتہ اسلام آباد کی حدتک جزوی کامیابی مِل گئی حالانکہ اوپن بیلٹنگ پر اتفاق کر لیا جاتا تو بھلے یوسف رضا گیلانی اسلام آباد کی نشست پر ہارجاتے مگراپوزیشن کے امیدوار کی بطور چیئرمین کامیابی میں ابہام نہ رہتا لیکن یہاں سیکھنے کی کوئی کوشش نہیں کرتا ۔
چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں حکومت نے اپنے امیدوار کی کامیابی کے لیے اپوزیشن کے کئی ووٹروں کوقائل کیااور ووٹ خراب کرنے پرآمادہ کیا اورحفیظ شیخ کی سات ووٹوں کی شکست کا بدلا یوسف رضا گیلانی کو چیئرمینی سے سات ووٹوں سے ہراکر لے لیا جس پر اپوزیشن سٹپٹا رہی ہے اور دھاندلی کے خلاف عدالت جانے کا عزم ظاہر کر رہی ہے حالانکہ ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں لُڑھکنے والے سینٹرز نے توووٹ خراب کرنے کا تکلف بھی نہیں کیا بلکہ سیدھے سبھائو مرزامحمد آفریدی کے پلڑے میںڈال دیا اسلام آباد کی نشست پراپوزیشن نے جو چال چل کر حکومتی امیدوار کو شہ مات دی حکومت نے وہی چال چل کر بے اصولی کا جواب بے اصولی سے دے کر برابرکردیااب الیکشن کمیشن کو موردِ الزام ٹھہرنااور استعفے کا مطالبہ جگ ہنسائی کا موقع دینے کے مترادف ہے۔
اپوزیشن کے عدالت جاکر چیئرمین کے انتخاب میں مسترد ووٹوں کو چیلنج کرنے کے عزم کے حوالے سے حق اور مخالف میں آئینی ماہرین منقسم اور دوطرح کی رائے رکھتے ہیں کچھ کا کہنا ہے کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اندرکی کاروائی کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہوسکتی جب کہ دوسری رائے رکھنے والے کہتے ہیں کہ عدالت جانے پر قدغن نہیںاِس حوالے سے سپریم کورٹ کے آٹھ ججزکی رولنگ موجودہے جس کے مطابق ووٹر کی ووٹ ڈالتے ہوئےconsent دیکھی جاتی ہے علاوہ ازیںسابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کہتے ہیں کہ پریزائیڈنگ آفیسر کیونکہ الیکشن ٹربیونل اور عدالت جانے کی رولنگ دے چکے ہیں اِس لیے رولنگ چیلنج کرنے میں کوئی امر مانع نہیں مگر سابق اٹارنی جنرل انور مقصور کہتے ہیں ووٹر کی نیت اپنی جگہ ہے مگر خفیہ بیلٹ کی شناخت ہو جائے تو وہ خفیہ نہیں رہتااگر خفیہ نہیں رہتا تو لامحالہ اِس کا مطلب ہے کہ کسی کو بتایاجا رہا ہے یوں پراپر ووٹنگ نہیںرہے گی جب پراپر ووٹنگ نہیں ہو گی تو ووٹ مسترد تصورہو گا نیز سینیٹ یا اسمبلی کی کاروائی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکتی آئین کے آرٹیکل 96 کے تحت جو رولزآف بزنس ہیں اُن میں واضح درج ہے کہ قومی اسمبلی اور سینٹ دونوں کی کاروائی کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکتی ۔
مستردووٹ قراردینے والے مظفر حسین شاہ کوئی نو آموز سیاستدان نہیں بلکہ صوبہ سندھ کے وزیرِ اعلٰی اور سندھ اسمبلی کے اسپیکر رہ چکے ہیں پرانے پارلیمنیٹرین ہونے کے ناطے انھیں پارلیمانی دائو پیج کا خوب اور وسیع تجربہ ہے اسی مہارت کی وجہ سے ہی شاید صدرِ مملکت عارف علوی نے جی ڈی اے جیسی اتحادی جماعت سے تعلق کے باجود پریذائیڈنگ آفیسر مقرر کردیا جنھوں نے ووٹر کی منشا واضح ہونے کے اپوزیشن اصرار کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سات ووٹ مسترکرنے کی رولنگ دینے کے ساتھ عدالت جانے کا مشورہ بھی دے ڈالا ۔
کیمرے لگانے کے باوجود ابھی تک ووٹ خراب کرنے والے ماہرین کی تلاش نہیں ہو سکی ووٹنگ سے قبل پی پی کی طرف سے ن لیگ اور جے یو آئی کے کئی ایسے چہروں کے بارے خدشہ ظاہر کیا جاتا رہا جوووٹ کاسٹ کرتے ہوئے ہوشیاری دکھا سکتے ہیں لیکن جب میدان لگا تو پتہ چلا کہ ن لیگ کے صرف دو،جے یوآئی کا ایک جبکہ پی پی کے ذیادہ لوگوں نے مہارت کا مظاہرہ کیا جس پر طلال چوہدری نے تنقیدی ٹویٹ بھی کیا مگر سب سے ذیادہ خسارہ تو جے یو آئی کے حصے میں آیا جس کے امیدوار غفورحیدری صرف چوالیس ووٹ لے سکے جبکہ حکومتی اتحادکے امیدوارمرزامحمد آفریدی 54 ووٹ لے گئے مگر کسی کا اِس طرف دھیان نہیں سب کی نظریں نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی دونوں کے دورمیں شکایات سیل کے سربراہ رہنے والے صادق سنجرانی پر ہیں امکان ہے دیگر کے ساتھ دونوں سابق باس بھی موجودہ چیئرمین سینٹ کو منصب سے ہٹانے کے لیے ہر حربہ اختیار کریں گے اِس کے باوجود زبان کے استعمال میں احتیاط اور وضع داری رکھی جائے تو بہتر ہے کیونکہ سیاست میں عدم برداشت بڑھ رہی ہے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب سے سیاسی استحکام کا امکان کم ہے اور ملکی سیاست مزید مدوجزر کا شکار ہو سکتی ہے جس سے اصولی سیاست کے دعویدار مزید بے نقاب ہوں گے ۔
حکومت خوش ہے کہ اُس نے پی ڈی ایم کی چالیں ناکام بنا دی ہیں وزیرِ اعظم عمران خان نے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے لیا ہے اور سینیٹ کا معرکہ بھی جیت چکے لیکن مذکورہ کامیابیوں سے یہ تصورکرلینا کہ حکومت کے لیے خطرات ختم ہو گئے ہیں یاپی ڈی ایم کی احتجاجی حکمتِ عملی بے اثر ہو گئی ہے درست نہیںکیونکہ دونوں طرف لچک کے آثار نہیں نہ رواداری اور برداشت پر آمادہ نظر آتے ہیں اگر بے اصولیوں کا مظاہرہ ہوتا رہا تو کچھ ہاتھ آنے کی بجائے اُلٹا نقصان اورسیاسی ساکھ بھی متاثر ہوسکتی ہے۔
صادق سنجرانی کی فتح اور گیلانی کی جیت جیسے واقعات ملکی سیاست میں نئے نہیں یہاں دوستیاں ،تعلق اور جماعتیں بدلنا عام ہے صادق سنجرانی کو آصف زرداری لائے اور پھر اقتدار کی تبدیلی کے ساتھ ہی انھوں نے بھی روایت کے عین مطابق خیالات بدل لیے پھر وقت نے دیکھا کہ لانے والے آصف زرداری کا بیٹا پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر عدمِ اعتماد پیش کرنے میں سب سے آگے نظر آیا مگر حکومت کے منظورِ نظر ہونے کی بنا پر ہنوزمنصب پر ہیں آگے بھی تبدیلی کاخطرہ کم ہی ہے لیکن اعلان کے مطابق چھبیس مارچ کو لانگ مارچ ہوتا ہے اور مولانا فضل الرحمٰن کی خواہش کے مطابق استعفے دے دیے جاتے ہیں توعالمی سطح پر حکومتی ساکھ اور فیصلے سوالیہ نشان بن سکتے ہیں مگرحکومتی اتحاد کی طرح پی ڈی ایم کی سوچ بھی ایک نہیں ایک طرف یوسف رضا گیلانی اِداروں کو غیرجانبدارقراردیتے ہیں تو دیگر جماعتیں گرج برس کر دل کا غبار نکال رہی ہیں اِس لیے جہاں حکومت کے لیے خطرات ہیں تو پی ڈی ایم کے لیے بھی حالات سازگار نہیں جب تک سیاست میں اصول کے نام پر بے اصولی ہوتی رہے گی تب تک جمہوری اقدار کے مستحکم ہونے کے حوالے سے شکوک و شبہات موجود رہیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر