... loading ...
ا
سینیٹ کے ممبران اور چیئرمین کے انتخاب میں اپوزیشن اور حکومت نے جورویہ اپنایا وہ نہ تو اصولی اور اخلاقی لحاظ سے درست ہے اور نہ ہی جمہوری ہے بلکہ مفاد پرستی کی بدترین مثال ہے اِس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت مسلسل دبائو کا شکار رہی تبھی حیلے بہانوں سے افہام وتفہیم کے لیے کوشاں رہی لیکن اپوزیشن نے جارحانہ رویہ اپناتے ہوئے اوپن بیلٹنگ کی حکومتی تجاویز رَد کردیں کیونکہ اُسے زعم تھا کہ صاحبِ ثروت افرادکو ٹکٹ دینے سے حزبِ اقتدار کے ممبرانِ صوبائی اسمبلی کے ووٹ مل جائیں گے جبکہ حکومت کو خدشہ رہا کہ اُس کے ممبران مالی مفاد کے بدلے ووٹ بیچ سکتے ہیں اِسی لیے خفیہ ووٹ کے طریقہ کاربدلناچاہا لیکن دائو کے لیے تاک میں بیٹھی اپوزیشن نے ایک نہ چلنے دی اور بڑھا دستِ تعاون پائے حقارت سے جھٹک دیا پھر بھی دائو نہ لگ سکا البتہ اسلام آباد کی حدتک جزوی کامیابی مِل گئی حالانکہ اوپن بیلٹنگ پر اتفاق کر لیا جاتا تو بھلے یوسف رضا گیلانی اسلام آباد کی نشست پر ہارجاتے مگراپوزیشن کے امیدوار کی بطور چیئرمین کامیابی میں ابہام نہ رہتا لیکن یہاں سیکھنے کی کوئی کوشش نہیں کرتا ۔
چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں حکومت نے اپنے امیدوار کی کامیابی کے لیے اپوزیشن کے کئی ووٹروں کوقائل کیااور ووٹ خراب کرنے پرآمادہ کیا اورحفیظ شیخ کی سات ووٹوں کی شکست کا بدلا یوسف رضا گیلانی کو چیئرمینی سے سات ووٹوں سے ہراکر لے لیا جس پر اپوزیشن سٹپٹا رہی ہے اور دھاندلی کے خلاف عدالت جانے کا عزم ظاہر کر رہی ہے حالانکہ ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں لُڑھکنے والے سینٹرز نے توووٹ خراب کرنے کا تکلف بھی نہیں کیا بلکہ سیدھے سبھائو مرزامحمد آفریدی کے پلڑے میںڈال دیا اسلام آباد کی نشست پراپوزیشن نے جو چال چل کر حکومتی امیدوار کو شہ مات دی حکومت نے وہی چال چل کر بے اصولی کا جواب بے اصولی سے دے کر برابرکردیااب الیکشن کمیشن کو موردِ الزام ٹھہرنااور استعفے کا مطالبہ جگ ہنسائی کا موقع دینے کے مترادف ہے۔
اپوزیشن کے عدالت جاکر چیئرمین کے انتخاب میں مسترد ووٹوں کو چیلنج کرنے کے عزم کے حوالے سے حق اور مخالف میں آئینی ماہرین منقسم اور دوطرح کی رائے رکھتے ہیں کچھ کا کہنا ہے کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اندرکی کاروائی کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہوسکتی جب کہ دوسری رائے رکھنے والے کہتے ہیں کہ عدالت جانے پر قدغن نہیںاِس حوالے سے سپریم کورٹ کے آٹھ ججزکی رولنگ موجودہے جس کے مطابق ووٹر کی ووٹ ڈالتے ہوئےconsent دیکھی جاتی ہے علاوہ ازیںسابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کہتے ہیں کہ پریزائیڈنگ آفیسر کیونکہ الیکشن ٹربیونل اور عدالت جانے کی رولنگ دے چکے ہیں اِس لیے رولنگ چیلنج کرنے میں کوئی امر مانع نہیں مگر سابق اٹارنی جنرل انور مقصور کہتے ہیں ووٹر کی نیت اپنی جگہ ہے مگر خفیہ بیلٹ کی شناخت ہو جائے تو وہ خفیہ نہیں رہتااگر خفیہ نہیں رہتا تو لامحالہ اِس کا مطلب ہے کہ کسی کو بتایاجا رہا ہے یوں پراپر ووٹنگ نہیںرہے گی جب پراپر ووٹنگ نہیں ہو گی تو ووٹ مسترد تصورہو گا نیز سینیٹ یا اسمبلی کی کاروائی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکتی آئین کے آرٹیکل 96 کے تحت جو رولزآف بزنس ہیں اُن میں واضح درج ہے کہ قومی اسمبلی اور سینٹ دونوں کی کاروائی کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکتی ۔
مستردووٹ قراردینے والے مظفر حسین شاہ کوئی نو آموز سیاستدان نہیں بلکہ صوبہ سندھ کے وزیرِ اعلٰی اور سندھ اسمبلی کے اسپیکر رہ چکے ہیں پرانے پارلیمنیٹرین ہونے کے ناطے انھیں پارلیمانی دائو پیج کا خوب اور وسیع تجربہ ہے اسی مہارت کی وجہ سے ہی شاید صدرِ مملکت عارف علوی نے جی ڈی اے جیسی اتحادی جماعت سے تعلق کے باجود پریذائیڈنگ آفیسر مقرر کردیا جنھوں نے ووٹر کی منشا واضح ہونے کے اپوزیشن اصرار کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سات ووٹ مسترکرنے کی رولنگ دینے کے ساتھ عدالت جانے کا مشورہ بھی دے ڈالا ۔
کیمرے لگانے کے باوجود ابھی تک ووٹ خراب کرنے والے ماہرین کی تلاش نہیں ہو سکی ووٹنگ سے قبل پی پی کی طرف سے ن لیگ اور جے یو آئی کے کئی ایسے چہروں کے بارے خدشہ ظاہر کیا جاتا رہا جوووٹ کاسٹ کرتے ہوئے ہوشیاری دکھا سکتے ہیں لیکن جب میدان لگا تو پتہ چلا کہ ن لیگ کے صرف دو،جے یوآئی کا ایک جبکہ پی پی کے ذیادہ لوگوں نے مہارت کا مظاہرہ کیا جس پر طلال چوہدری نے تنقیدی ٹویٹ بھی کیا مگر سب سے ذیادہ خسارہ تو جے یو آئی کے حصے میں آیا جس کے امیدوار غفورحیدری صرف چوالیس ووٹ لے سکے جبکہ حکومتی اتحادکے امیدوارمرزامحمد آفریدی 54 ووٹ لے گئے مگر کسی کا اِس طرف دھیان نہیں سب کی نظریں نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی دونوں کے دورمیں شکایات سیل کے سربراہ رہنے والے صادق سنجرانی پر ہیں امکان ہے دیگر کے ساتھ دونوں سابق باس بھی موجودہ چیئرمین سینٹ کو منصب سے ہٹانے کے لیے ہر حربہ اختیار کریں گے اِس کے باوجود زبان کے استعمال میں احتیاط اور وضع داری رکھی جائے تو بہتر ہے کیونکہ سیاست میں عدم برداشت بڑھ رہی ہے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب سے سیاسی استحکام کا امکان کم ہے اور ملکی سیاست مزید مدوجزر کا شکار ہو سکتی ہے جس سے اصولی سیاست کے دعویدار مزید بے نقاب ہوں گے ۔
حکومت خوش ہے کہ اُس نے پی ڈی ایم کی چالیں ناکام بنا دی ہیں وزیرِ اعظم عمران خان نے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے لیا ہے اور سینیٹ کا معرکہ بھی جیت چکے لیکن مذکورہ کامیابیوں سے یہ تصورکرلینا کہ حکومت کے لیے خطرات ختم ہو گئے ہیں یاپی ڈی ایم کی احتجاجی حکمتِ عملی بے اثر ہو گئی ہے درست نہیںکیونکہ دونوں طرف لچک کے آثار نہیں نہ رواداری اور برداشت پر آمادہ نظر آتے ہیں اگر بے اصولیوں کا مظاہرہ ہوتا رہا تو کچھ ہاتھ آنے کی بجائے اُلٹا نقصان اورسیاسی ساکھ بھی متاثر ہوسکتی ہے۔
صادق سنجرانی کی فتح اور گیلانی کی جیت جیسے واقعات ملکی سیاست میں نئے نہیں یہاں دوستیاں ،تعلق اور جماعتیں بدلنا عام ہے صادق سنجرانی کو آصف زرداری لائے اور پھر اقتدار کی تبدیلی کے ساتھ ہی انھوں نے بھی روایت کے عین مطابق خیالات بدل لیے پھر وقت نے دیکھا کہ لانے والے آصف زرداری کا بیٹا پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر عدمِ اعتماد پیش کرنے میں سب سے آگے نظر آیا مگر حکومت کے منظورِ نظر ہونے کی بنا پر ہنوزمنصب پر ہیں آگے بھی تبدیلی کاخطرہ کم ہی ہے لیکن اعلان کے مطابق چھبیس مارچ کو لانگ مارچ ہوتا ہے اور مولانا فضل الرحمٰن کی خواہش کے مطابق استعفے دے دیے جاتے ہیں توعالمی سطح پر حکومتی ساکھ اور فیصلے سوالیہ نشان بن سکتے ہیں مگرحکومتی اتحاد کی طرح پی ڈی ایم کی سوچ بھی ایک نہیں ایک طرف یوسف رضا گیلانی اِداروں کو غیرجانبدارقراردیتے ہیں تو دیگر جماعتیں گرج برس کر دل کا غبار نکال رہی ہیں اِس لیے جہاں حکومت کے لیے خطرات ہیں تو پی ڈی ایم کے لیے بھی حالات سازگار نہیں جب تک سیاست میں اصول کے نام پر بے اصولی ہوتی رہے گی تب تک جمہوری اقدار کے مستحکم ہونے کے حوالے سے شکوک و شبہات موجود رہیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔